یہ محض زینب کیس کا ایک مطالعہ نہیں ہے۔ یہ ایک سماج کا مطالعہ ہے، ایک گلے سڑے سماج کا مطالعہ، ایک پھپھوندی لگے سماج کا مطالعہ، ایک تعفن زدہ سماج کا مطالعہ جہاں لوگ ہیجان خیزی پر زندہ ہیں۔ جہاں لوگوں کے پاس اور کوئی تفریح نہیں مگر یہ کہ شقی انسانوں کی بھینٹ چڑھی معصوم لاشوں پر گدھوں اور چیلوں اور کووں کے لڑنے جھگڑنے کا تماشہ دیکھیں۔ اس کتاب کا لکھا جانا ضروری تھا۔ احمد اعجاز کا شکریہ کہ انہیں نے اپنی فکر انگیزی سے خرد افروزی کی کاوش کی۔ ورنہ بڑی سے بڑی بات بھولنے میں ہمیں دن ہی کتنے لگتے ہیں۔ بس میڈیا کی توجہ کسی اور موضوع پر مبذول ہونے کی دیر ہے۔ آپ احمد اعجاز کی یہ سطریں دیکھیں اور سوچیں کہ یہ ہماری کس قومی نفسیات کو آشکارہ کر رہی ہیں:
’ملک بھر کی طرح اہلیان قصور بھی مجرم قدآور دیکھنے کے متمنی تھے۔ پھر جب عمران علی کی شکل میں ایک معمولی سا بندہ مجرم کے طور پر سامنے آیا تو مایوسی پائی گئی۔ یہ مایوسی تعصبات اور جہالت کے سائے میں زندگی جینے والوں سے چمٹ کر رہ گئی‘۔
’ملک بھر میں بچوں کی حفاظت پر مبنی نصاب ترتیب دینے کے حوالے سے زینب کیس کے بعد خاصی بحث بھی چھڑی۔ زیادہ تر افراد یہ خیال ظاہر کرتے پائے گئے کہ بچوں کو ایسی تربیت اور تعلیم دی جائے کہ وہ اجنبیوں سے فاصلہ کریں نیز خود کو جنسی حملے سے بھی محفوظ کر سکیں۔ مگر کیا ضروری امر یہ نہیں ہے کہ نصاب تعلیم اس طرح کا ترتیب دیا جائے کہ بچے عمران علی نہ بن سکیں؟‘
’یہ کتاب سماجی شعور کی طرف ایک قدم ہے، جب تک گہرے سماجی شعور کو بروئے کار نہ لایا جائے، مسئلے کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ قانون سازی سے کوئی بھی مسئلہ فوری حل پذیر تو ہو سکتا ہے، مگر لوگوں کے رویے میں تبدیلی لائے بغیر اس کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔‘ (ص ۱۰)
’بس اتنا کہوں گا کہ پاکستان میں بسنے والے انسانوں کو زندگی کی سطح پر پہلے لایا جائے۔ تب وہ زندگی جینے کی شروعات کریں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا؟ المئے جنم لیں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ مکروہ ترین فعل بھی مکروہ درجے پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ گھناونے واقعات معمول کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیے جائیں گے‘۔ (ص ۶۴)۔
صرف ۱۰۶ صفحات کی یہ کتاب ہماری سماجی نفسیات کی کئی گرہیں کھولتی نظر آتی ہے۔ پورب اکیڈمی، اسلام آباد سے شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت صرف ۲۵۰ روپے ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ خرید کر پہلی فرصت میں مطالعہ کریں۔ اور صرف پڑھیں نہیں، ان مسائل پر غور و فکر کریں اور ان موضوعات پر مزید تفصیل سے لکھنے اور بولنے کا ارادہ باندھیں اور ابہامات کے اس دور میں صاف فکری کی روایت پختہ کریں۔