میرا جسم میری مرضی

بظاہر یہ سادہ سے الفاظ ہیں، لیکن یہ اپنے پیچھے ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ مغرب نے حقوق نسواں کی جس تحریک کو اٹھایا، اس کی بنیاد یہ تھی کہ عورت مرد سے کسی بھی طرح کمتر نہیں ہے، لہٰذا اسے زندگی کے ہر میدان میں آزادی اور خودمختاری حاصل ہونی چاہیے۔ اگرچہ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس سوچ کے پیچھے ایک سرمایہ دارانہ اسکیم تھی جس کا مقصد تھا کسی طرح عورت کی صورت میں مارکیٹ میں سستی لیبر مہیا کی جا سکے، اور اس نظریے کا یہ ماننا ہے کہ وقت نے اسے ثابت بھی کیا۔

دنیا بھر میں ’میرا جسم میری مرضی‘ کے عنوان سے جو مظاہرے کیے جاتے ہیں، ان میں خواتین نیم عریاں ہو کر اس کا عملی اظہار بھی کرتی ہیں۔ پاکستان میں مظاہرین نعرے تک محدود رہے۔

جب سے یہ واقعہ سامنے آیا ہے لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا، زیادہ نے خلاف کچھ نے حق میں لکھا۔ میرے خیال میں جب تک کہ اس نعرے کی پوری وضاحت سامنے نہیں آ جاتی کچھ کہنا مشکل ہے۔ اگر ظاہری الفاظ تک رہا جائے تو اسے ردعمل، یا کسی نئے فتنے کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ مولوی حضرات اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ بیوی کو اگر شوہر ’جنسی ضرورت‘ کے لیے بلائے تو وہ ہر حال میں یہ ضرورت پوری کرے ، حتی کہ بیماری میں بھی اسے انکار نہ کرے۔ اس لیے اس نعرے کی ضرورت ہے۔ جن کا اصرار اس بات پر ہے، انھیں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ دین کے صحیح فہم حاصل کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس موقع پر اور کس سیاق میں یہ بات کہی اسے سمجھا جائے نا کہ آنکھیں بند کر کے ایک اصول بنا لیا جائے۔

ہاں، اگر اس نعرے سے یہ کہنا مقصود ہے کہ موجودہ صورت حال میں عورت کی ایک انفرادی انسان ہونے کی حیثیت کو دبا دیا گیا ہے، یعنی اسے ہر حال میں باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کا مطیع ہو کر زندگی گزارنی پڑتی ہے تو پھر بجائے اس ذومعنی نعرے کے یہ زیادہ بہتر ہے کہ لکھا جاتا ’میرا وجود میری مرضی‘۔

قرآن مجید کے احکام سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ آخرت میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اس لیے عورت اگر اپنا یہ حق استعمال کرنا چاہیے کہ اس کا وجود اس کی مرضی سے عمل کرے گا، جس میں ظاہر ہے جسم اور سوچ و عمل سب شامل ہوں گے ، تو میرا نہیں خیال ہے کہ اس پر کسی کو اعتراض ہونا چاہیے۔ سورہ نجم آیت ۳۸ میں اللہ سبحان و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى
’’یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

عورت یا مرد کے وجود کی مرضی سے مادر پدر آزادی ہرگز مراد نہیں لی جا سکتی، یہ آزادی یقینا ان معاشرتی اور اخلاقی حدود کی پابند ہو گی جو ہر معاشرے کی ضرورت ہے۔ جیسے میری گاڑی میری مرضی کا اصول تو میرا ہو گا لیکن میں اسکول کے سامنے گزرتے ہوئے رفتار کم رکھوں گا، اسپتال کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہارن نہیں بجاوں گا، سرخ بتی پر بریک لگاوں گا تاکہ دوسرے بھی بحاظت گزر سکیں۔ اسی طرح میرے وجود کی آزادی وہاں تک ہی ہو گی جہاں تک دوسرے پر اس کی زد نہیں پڑتی۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے آزاد ترین معاشرے میں بھی بے لباس گھومنا پھرنا درست نہیں سمجھا جاتا۔
اس ساری بات سے قطع نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نہ پلے کارڈ اٹھانے والیاں اوپر لکھے الفاظ سے آگاہ ہیں کہ ان کا مطالبہ کیا ہے اور نہ اس پر ردعمل دینے والے جانتے ہیں کہ اس پر غصہ کریں تو کس بات پر اور کیسے کریں یا حق میں لکھیں تو کیا کہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے