دورہ ٔ امریکہ، عدلیہ اور ’’نیبی‘‘ امداد

ہوس اقتدار کے ایک سوچار (104) بخار میں مسلسل مبتلا یہ خاندان انڈیا سے امریکہ تک ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔ یہ اداروں کو ہی نہیں ریاست کوبھی چیلنج کر رہے ہیں، آنکھیں دکھارہے ہیں۔ کوئی سینہ گزٹ یا سنی سنائی نہیں، اخباری خبر آپ کے ساتھ شیئر کر رہاہوں۔

پہلے خبر کی تین سرخیاں۔’’شاہدخاقان عباسی کی امریکی حکام سے ملاقاتیں۔ نواز شریف کا ایشو اٹھایا‘‘’’مقدمات سیاسی، خفیہ طاقتیں عدلیہ کا کندھا استعمال کر رہی ہیں: وزیراعظم‘‘’’پاکستان اور ایران ٹرمپ انتظامیہ کی ریڈ لسٹ میں ہیں:امریکی مبصرین‘‘ذرا غور کریں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف ایگزیکٹوکسے کیا کہہ رہا ہے؟ کوئی ہے جو اس سے پوچھے اور پھر ہمیں بھی سمجھائے کہیہ ’’خفیہ طاقتیں‘‘ کون ہیں؟ ان کا کوئی نام پتا؟اور وہ کس کی عدلیہ ہے جس کا ’’کندھا‘‘استعمال ہوسکتا ہے؟مقدمات سیاسی ہیں یا مالی؟ قصہ بیرون ملک بے تحاشا جائیدادوں کاتو نہیں؟ کہانی ایک عدد مختصر سی منی ٹریل کے گرد تو نہیں گھوم رہی؟تفصیلات بعد میں پہلے خبر پڑھ لیں۔’’وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے متعدد امریکی ارکان کانگریس کے

ساتھ اپنی ملاقاتوں میں نواز شریف کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ کچھ خفیہ طاقتیں ججوں کے کندھے استعمال کر رہی ہیں۔ سابق وزیراعظم کے خلاف بنائے گئے مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اورصرف ملک میں جمہوریت قائم رکھنے کے لئے عدالتی فیصلوں کو تسلیم کیا جارہا ہے تاکہ وہ خفیہ طاقتیں جو اپنے مقاصد کی خاطر ملک میں جمہوریت کو پروان چڑھتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتیں، ان کا راستہ روکا جاسکے ۔معتبر ذرائع نے بتایا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ کو خصوصی ہدایات تھیں کہ وزیراعظم کے دورہ کے شیڈول سے پاکستانی میڈیا کو دور رکھا جائے۔ ارکان کانگریس سے ملاقاتوں میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ واپس پاکستان جا کر اسٹیبلشمنٹ سے بات کرکے امریکی مطالبات ان کے سامنے رکھیںگے۔

ذرائع کامزید کہنا تھا کہ وزیراعظم کو ’’سی پیک‘‘ پر امریکی تحفظات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ لشکر طیبہ، جیش محمد، جماعتہ الدعوۃ جیسی تنظیموں کے بار ےمیں بھی گفتگو ہوئی۔ وزیراعظم نے انہیں بتایا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد ڈیکلیئر کی گئی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون شروع کر رکھا ہے جس پربعض کانگریس ارکان نے عدم اعتماد کا اظہار کیا۔امریکی مبصرین کاکہنا ہے کہ ’’پاکستان اور ایران اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کی ریڈلسٹ میں ہیں۔‘‘دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں یعنی پاکستان میں وزیراعظم کے دورۂ امریکہ بارے ’’نجی‘‘ ہونے کا تاثر دیا جارہا ہے۔ اس ’’نجی‘‘ کے د وران وزیراعظم کی ایک غیر طے شدہ ملاقات امریکی نائب صدر کے ساتھ بھی ہوئی جس کے بعد امریکیوں نے صحافیوں کو باقاعدہ بریفنگ بھی دی جبکہ واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفارتکار اس ملاقات کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم پائے گئے۔پانی سر کے اوپر سےگزر رہا ہے۔

کالم کے آغاز میں عرض کیا تھاکہ ہوس اقتدار کے 104بخارمیں مسلسل مبتلا خاندان ہرطرف ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور کسی بھی حد تک جانےکوتیار ہے۔ کوئی توسمجھائے کہ یہ ’’خفیہ طاقت‘‘ کون سی ہے جس پرعدلیہ کے کندھے استعمال ہونے کا ہذیان جاری ہے اور سوفیصد خالص ’’مالی‘‘ مقدمات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے، امریکہ کو مداخلت کی دعوت کا کیامطلب ہے؟’’پاناما نظریاتی‘‘ اور ’’پارک لین انقلابی‘‘ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ملک میں جو پراسیس شروع ہوچکا، اس کاریورس ہونا کسی معجزہ سے کم نہ ہوگا کہ معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ تک پہنچ چکے اور انہیں وہاں تک پہنچانے میں بھی زیادہ حصہ ان کا اپنابلکہ ان کی فرعونیت کا ہے جس کی تصدیق کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا ’’نواز کے چہرے پر فرعونیت دیکھی۔ نواز سیاست سے نابلد تھے۔ دائو پیچ بتائے۔

پہلے تنقید سنتے، مشاورت کرتے اب یہ خوبی نہیں رہی۔‘‘شاید چوہدری نثار کو اب بھی احساس نہیں کہ عام سے ’’نابلد نارمل‘‘ کو فرعون بنانے میں خود ان کا رول بھی بہت اہم اور افسوسناک ہے جس پر انہیں قوم سے معافی مانگنی چاہئے۔ کسی بھی فرد ِ واحد کا نواز کی طرح مسلسل مسلط ہو جانا فرعون نہیں تو کیا موسیٰ کو جنم دیتا؟ آج اگروہ خود کو قانون بلکہ ریاست سے بھی بالاتر سمجھ رہا ہے تو یہ آپ اور آپ جیسوںکا ’’مشترکہ کارنامہ‘‘ ہے لیکن خیر ہے….. خادم رضوی کو گرفتار کرکے لانے سے الیکشن جیتنے کے لئے ملازمتوں سے ووٹر پیدا کرنے کی دھاندلی کو روکنے تک ’’کلاسیکل موسیقی‘‘ شروع ہے۔ چیئرمین نیب کہہ چکے….. ’’کسی کوقومی دولت لوٹنے دیںگے نہ کرپٹ عناصر کورعایت ملے گی، پائی پائی وصول کریں گے۔ کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ مجھے جو کرناہے کروں گا۔ کسی کی پروا نہیں، پنجاب سمیت ملک میں نیب غیرجانبدارانہ انداز میں ملزموں کو پکڑ رہا ہے۔‘‘عدلیہ تا نیب….. غیب سے مدد آگئی، ’’نیبی‘‘مدد کی شکل میں بےزبانوں کی بھی سنی گئی!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے