بیانیہ یا ڈاکٹرائن؟

ابھی قوم ‘بیانیہ‘ کی گتھیاں پوری طرح سلجھا نہیں سکی کہ ‘ڈاکٹرائن‘ سامنے آ گیا۔ پہلے لوگ حیرت سے سوال کرتے تھے: یہ بیانیہ کیا ہوتا ہے؟ اب ان کا استفسار ہو گا: ‘یہ ڈاکٹرائن‘ کیا ہوتا ہے۔

‘بیانیہ‘ بھی اصلاً ‘نیریٹو‘ (narrative) تھا۔ ہم نے بہت سوچا اور اس کا اردو متبادل تلاش کر لیا۔ بمشکل یہ دریا عبور کیا تو معلوم ہوا کہ منیر نیازی کی طرح ہمیں ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ اب ہمیں ‘ڈاکٹرائن‘ کا اردو متبادل تلاش کرنا ہے کہ بات کی تفہیم ہو۔ میں نے لغت سے مدد لینا چاہی تو وہ زیادہ معاون ثابت نہ ہوئی۔ کوئی ایسا لفظ مجھے نہیں مل سکا جو اس کی عصری معنویت کو واضح کر سکے۔ آج یہ جس مفہوم میں پیش کیا جا رہا ہے، اسے سامنے رکھئے تو اس کا متبادل ‘منشور‘ ہی ہو سکتا ہے اور وہ بھی انتخابات جیتنے والی جماعت کا۔ اس سے بھی بات بنتی نہیں۔ منشور تو سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے۔ یہ جہاں سے آیا ہے وہ بنظرِ غائر کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ پھر اسے کیا کہا جائے؟ نظریہ؟ درس و تدریس؟ سچ یہ ہے کہ ان میں سے کسی پر دل مطمئن نہیں ہوتا۔

میں اس بحث کو اس طرح سمیٹ سکتا ہوں کہ ‘بیانیہ‘ ایک ذہنی مشقت کا حاصل ہے۔ یہ ایک فکری مجاہدے کا نتیجہ ہے۔ اس پر ایمان لانا یا اس کی تنفیذ لازم نہیں۔ ‘ڈاکٹرائن‘ وہ بیانیہ ہے جس کے اجزائے ترکیبی میں حکم اور نفاذ، دونوں شامل ہیں۔ گویا اس کا انکار محال ہے اور قابلِ بحث نہیں۔ میں یہاں اس کا وہ مفہوم بیان کر رہا ہوں جو میرے نزدیک اس لفظ کے عصری استعمال سے مستنبط ہوتا ہے۔ آپ اس سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک تاویل ہے، کوئی ڈاکٹرائن نہیں۔

اس لغوی یا لسانی بحث سے اگر میں کسی حد تک مدعا واضح کر سکا تو ہم بنیادی سوال کی طرف لوٹتے ہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ ڈاکٹرائن کہاں سے آنا چاہیے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں کسی بیانیے کی ضرورت ہے یا ڈاکٹرائن کی؟ میرا کہنا یہ ہے کہ کسی قوم میں بیانیے ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں مگر ڈاکٹرائن ایک ہی ہوتا ہے۔ ایک جمہوری مملکت میں یہ حق صرف عوام کا ہے کہ وہ جس بیانیے کو چاہیں، اسے ڈاکٹرائن میں بدل دیں۔ سادہ الفاظ میں یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ کس بیانیے کو قوتِ نافذہ حاصل ہونی چاہیے۔

یہ ایک سیاسی عمل ہے جو کسی بیانیے کو ڈاکٹرائن بناتا ہے۔ سیاسی جماعتیں قوم کے سامنے اپنا اپنا بیانیہ پیش کرتی ہیں۔ ابلاغ کے ذرائع سے اس کی تشہیر کرتی ہیں۔ وہ معیشت، خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، صحت یا دیگر معاملات میں اپنے نتائجِ فکر قوم کے سامنے رکھتی ہیں۔ انتخابات میں عوام یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس بیانیے کو ملک کی پالیسی بنانا چاہتے ہیں۔ یوں ایک بیانیہ ڈاکٹرائن بن جاتا ہے۔ اب یہ پورے ملک کا بیانیہ ہے۔ ان کا بھی جنہوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اس کے ساتھ، اب اُس کے پاس قوتِ نافذہ بھی ہے۔ گویا اس میں جبر اور تنفیذ دونوں پہلو شامل ہو گئے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی نظام کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس میں بیانیے کے بجائے ڈاکٹرائن پیش کیے جاتے ہیں۔ یوں عوام کو یہ موقع نہیں ملتا کہ وہ بیانیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ آج انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں۔ ابھی سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا بیانیہ قوم کے سامنے رکھنا ہے‘ لیکن اس سے پہلے قوم کے سامنے ایک ڈاکٹرائن رکھ دیا گیا ہے۔ میں نہیں جان سکا کہ اس کا محل کیا ہے ا ور اسے کیوں ضروری سمجھا گیا۔ پھر یہ جس طرح پراسرار انداز میں سامنے آیا، اس نے بھی لوگوں کی تشویش میں اضافہ کیا۔

سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور ان کا بیانیہ ہوتا ہے۔ سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت ہمارے سامنے تین بیانیے ہیں۔ ایک نون لیگ کا بیانیہ ہے۔ اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ خوش حالی کے لیے معاشی سرگرمی ضروری ہے اور اسے مہمیز دینے کے لیے ایک بڑا انفراسٹرکچر ناگزیر ہے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو سرمائے کو متوجہ کرنا آسان ہے۔ ترکی، ملائیشیا، بھارت اور دیگر ابھرتی ہوئیں معیشتوں نے یہی ماڈل اپنایا ہے۔ ہمیں بھی اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔ جب معاشی سرگرمی میں تیزی آتی ہے تو اس کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچتاہے۔ صحت اور تعلیم پر زیادہ وسائل خرچ کیے جا سکتے ہیں اور روزگار کے مواقع بھی وافر ہوتے ہیں۔

دوسرا بیانیہ تحریک انصاف کا ہے۔ اس کی اساس عوامی ترقی (Human development) پر ہے۔اس میں انفراسٹرکچر کے بجائے انسانی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اس تصور کے تحت اگر شہریوں کو صحت اور تعلیم وغیرہ کی سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو ان کی قوتِ کار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یوں وہ ترقی کے عمل میں بنیادی اینٹ بن جاتے ہیں۔ تیسرا بیانیہ مذہبی جماعتوں کا ہے۔ اس میں سب سے واضح جماعت اسلامی رہی ہے۔اس کے تحت اگر اسلام کی تعلیمات کو بنیاد بنایا جائے تو ہم ایک خوش حال معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس میں’خلافت‘ کورول ماڈل کی حیثیت حاصل ہے۔

یہ ممکن ہے کہ ان جماعتوں کے سب لوگ اس باب میں واضح نہ ہوں بلکہ امکانِ غالب یہی ہے۔تاہم قیادت کم از کم تصوراتی سطح پر اپنے سیاسی بیانیے سے باخبر ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ کون سی جماعت کس حد تک اپنے بیانیے پر عمل کر سکی ہے۔ 2013ء میں ن لیگ کو مرکز اور پنجاب میں یہ موقع ملا کہ وہ اپنے بیانیے کو ڈاکٹرائن میں بدل دے۔ تحریکِ انصاف نے بھی خیبر پختون خوا میں اپنے بیانیے کو ڈاکٹرائن میں بدلا۔ مذہبی جماعتوں کو 2002ء میں یہ موقع مل چکا۔ یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ کس کا بیانیہ بہتر ہے اور کون اسے بیانیے سے ڈاکٹرائن میں تبدیل کرنے کے صلاحیت رکھتا ہے۔

بیانیے کی پیدائش کا فطری محل ایک سیاسی جماعت ہے۔ اگر یہ کسی اور جگہ سے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو سیاسی عمل کلوننگ کی نذر ہو جائے گا۔ آمریت اسی کی ایک شکل ہوتی ہے۔ اس کی نشوونما کے لیے بھی ایک جمہوری ماحول ناگزیر ہے۔ بیانیہ انتخابی عمل سے گزر کر ہی ڈاکٹرائن بن سکتا ہے اور بننا چاہیے۔ پاکستان میں سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ فطرت سے انحراف نہ کیا جائے۔ فطرت سے انحراف، سماجی تعلقات میں ہو یا سیاسی معاملات میں، ان کا نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے:

بربادی۔ان دنوں پھر بعض ڈاکٹرائن گردش میں ہیں۔ یہ بعض ریاستی اداروں کے ہاں جنم لے رہے ہیں۔ اگر معاملات فطری انداز میں آگے بڑھیں تو ریاستی ادارے کسی ڈاکٹرائن کا محلِ تولد نہیں، ان کی پرورش کی جا ہیں۔ وہ ایک بیانیے کو ڈاکٹرائن بنانے میں معاونت کرتے ہیں۔ آئین ہمیں ایسے فورم فراہم کرتا ہے جہاں وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور یوں ایک بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے دست و بازو فراہم کرتے ہیں۔ پھر سیاست دان اپنے بیانیے کی قبولیت کے لیے ان اداروں کی طرف نہیں، عوام کی طرف دیکھتے ہیں۔ بیانیے کی کامیابی البتہ اس اداروں کے تعاون کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔

میرا احساس ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل 2007 کے بعد زیادہ فطری انداز میں آگے بڑھا ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی ناگہانی موت نے ایک ایسا بحران پیدا کر دیا تھا جس سے نمٹنا آسان نہیں تھا۔ جنرل اشفاق کیانی اگر چاہتے تواس وقت ملک پر کوئی ڈاکٹرائن نافذ سکتے تھے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور سیاست کو فطری انداز میں آگے بڑھنے دیا۔ یہ اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ ہمارا سیاسی نظام اتنے بڑے حادثے کو سہہ گیا۔ انتخابات وقت پر ہوئے اور پیپلزپارٹی کی حکومت بن گئی۔ سیاسی عمل کا تسلسل بہت سے زخموں کے لیے مرہم بن گیا۔

میں اسی لیے عرض کرتا رہتا ہوں کہ اپنی کمزوریوں کے باوصف، یہ قومی سیاسی جماعتیں ہیں جو دراصل وفاق کی علامت ہوتی ہیں اور وہی قومی وحدت کو باقی رکھ سکتی ہیں۔

انتخابات سر پر ہیں۔ یہ کسی ڈاکٹرائن کا نہیں، بیانیوں کا وقت ہے۔ عوام کو موقع دیجیے کہ وہ جس بیانیے کو چاہیں، اسے ڈاکٹرائن میں بدل دیں۔ ملک پر کہیں اور سے کوئی ڈاکٹرائن مسلط نہ کیا جائے کہ اسی میں ہم سب کی خیر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے