مقدمے پر مقدمہ

جناب نوازشریف جب سیاست میں آئے تو خوب سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ مسائل کوسمجھتے۔ ان کا حل فہم و فراست سے نکالتے۔ غرض یہ کہ وہ اچھے بھلے بلکہ بہت ہی اچھے بھلے‘ انسان ہوا کرتے تھے۔ خدا جانے کب؟ اور کیوں؟ انہیں کسی نے عدالتوں کی راہ دکھادی۔ وہاں سے ان کے خلاف یکے بعد دیگرے مقدمے پر مقدمہ بنتا چلا گیا۔ اس میں بھی عجیب وغریب پیش رفت ہوئی۔ان کے کئی مقدمے چلتے چلتے رک گئے۔ رکتے رکتے کھسک گئے۔ابتدا میں وہ اکیلے ہی عدالتوںمیں جایا کرتے۔ تھوڑے دنوں بعد صاحبزادی مریم نواز والد صاحب کے ہمراہ‘ مقدموں کی کارروائی دیکھنے کے لئے جانے لگیں۔اب مریم بی بی کے لئے بھی مقدمے نمودار ہونے لگے۔

انہوں نے بڑے ذوق و شوق سے مقدمات میں حصہ لینا شروع کر دیا۔سیاست میں دلچسپی رکھنے والے قارئین‘ ان دونوں کے مقدمات کی کارروائیاں ذوق و شوق سے پڑھنے اور دیکھنے لگے۔ ابتدا میں ہر نئے دن کے ساتھ رش بڑھتا گیا۔تھوڑے دنوں کے بعد‘ رش گھٹنے لگا۔ اب یہ حال ہے کہ جس دن سپریم کورٹ کے آگے‘ ستر اسی کاریں کھڑی نظر آ ئیںتو پیدل چلنے والے راہ گیر بھی بلند آواز میں ایک دوسرے کو بتاتے ہیں ”آیئے دیکھتے ہیں۔ آج پھر تاریخ ہے‘‘۔ان مقدمات کی کارروائیوں پر آنے والے دنوں میں کتابیں چھپتی ہیں یا نہیں؟ لیکن ان مقدمات کے دوران اگر عدالتی کارروائیوں پر پہلے ہی کتابیں چھپنے لگیں تو مطالعے کے شوقین ذوق و شوق سے خریدا کریں گے ۔ خریدیں گے ہی نہیں بلکہ پڑھا بھی کریں گے۔یہ اور بات ہے کہ صرف ایک دو کتابیں پڑھنے کے بعد ہی بے زار ہونے لگیں گے۔ جیسے ان دنوں اخباروں میں گرما گرم خبریں چھپتی ہیں لیکن اب قارئین ایک ہی طرح کے مقدموں کی کارروائیاں پڑھنے سے اکتانے لگے ہیں۔

اب تو خود سابق وزیراعظم نوازشریف بھی‘ اپنے مقدمات کی کارروائیوں سے اکتائے ہوئے لگتے ہیں۔ مقدمات کے معاملات سے زیادہ شعر و سخن میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔ میاں صاحب کبھی کبھار شعر ضرور پڑھا کرتے تھے اور عموماً اپنے قریب بیٹھے کسی سخن فہم سے ‘شعر بھی درست کرا لیا کرتے۔ لیکن مقدمات میں بکثرت حاضریوں کے نتیجے میں‘ اب میاں صاحب کسی ہم نشیں کی مدد کے بغیر‘ اپنے زور کلام سے ہی شعر پڑھنے لگے ہیں۔موصوف کا تازہ شعر مرزا غالب کا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نے یہ شعر‘اچھے اچھے استادوں کی طرح سنایا:۔

[pullquote]جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی؟[/pullquote]

میا ں صاحب شعروں کے ساتھ ساتھ‘ اب ماہرانہ تبصرے بھی کرنے لگے ۔مثلاً ایک موقع پر میاں صاحب نے فرمایا” اللہ کا شکر ہے‘ عامر لیاقت (ن) لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔ تحریک انصاف ان جیسے لوگوں کے لئے ہی بنی ہے‘‘۔ایک اور موقع پر عدالتی”لٹریچر‘‘ کے حوالے سے میاں صاحب نے کہا” ہمارے خلاف نیب ریفرنسز میں کچھ نہیںنکلا تو پرانے خول پر نیا خول چڑھا دیا گیا۔کوٹیکنا‘ رینٹل پاور اوراین آئی سی ایل جیسے مقدمات میں کرپشن ثابت ہوئی لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا‘‘۔عدالتی فیصلوں پر اس طرح کے جامع تبصرے کوئی سابق وزیراعظم ہی کر سکتا ہے۔مثلاً انہوں نے فرمایا” سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے کیس سنے نہیں جا رہے۔ہمارے مقدمات میں کچھ نہیں۔ پھر بھی کچھ نکالا جا رہا ہے‘‘۔ ”کچھ نہیں میں سے کچھ نکالنا بڑی ذہانت اور حاضر جوابی کا کام ہے‘‘۔

اس سے پہلے میاں صاحب زبان دانی میں اتنی مہارت نہیں رکھتے تھے۔ اب تو ” کچھ نہیں میں سے کچھ نکالنا‘‘ بھی ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔وہ اپنے خلاف مقدمات پرفر فر تبصرے کرنے لگے ہیں۔مثلاً ایک موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں صاحب نے کہا ” نیا ریفرنس دائر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیس میں کوئی جان نہیں۔ پہلے چھ ماہ میں کون سی چیز ثابت ہوئی؟ جو ڈیڑھ ماہ میں ثابت ہو جائے گی؟‘‘

عدالتی ”لٹریچر‘‘ میں میاں صاحب کا اضافہ ایک نئی صنف سخن ہے۔عامر لیاقت کی تحریک انصاف میں شمولیت پر میاں صاحب نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے پھرفرمایا”پی ٹی آئی بنی ہی عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لئے ہے۔ اللہ کا شکر ہے وہ(ن) لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔چند سال پہلے انہوں نے کوشش کی تھی۔ تحریک انصاف میں عامر لیاقت جیسے لوگ ہی سجتے ہیں‘‘۔”فن سیاست اورفن مقدمہ آرائی‘‘ میں میاں صاحب اب کافی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔اب تو ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی برصغیر کے فن خطابت میں استادانہ رنگ دکھانے لگی ہیں۔ان کی دیکھا دیکھی ایک اور مختصر سی خاتون بھی فن بیانات میں جوہر دکھانی لگی ہیں۔

لیکن خبر صرف مریم نواز کی باتوں میں ہوتی ہے۔ان کا شمار اب برصغیر کے ماہر خطیبوں میں ہونے لگا ہے۔ سنا ہے سشما سوراج صحافیوں کے سوالات پر‘ مریم بی بی کے جوابات‘ بڑے اہتمام کے ساتھ بغور پڑھتی ہیں۔ اگر آپ اخبار نویسوں کے ساتھ سشما سوراج کے مکالمے پڑھتے ہوں تو آپ کو یقیناً مریم بی بی کے طرز کلام کی یاد آتی ہو گی۔پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں میاں نوازشریف پر جتنے مقدمے چل رہے ہیں‘ ان سے ایک نئی روایت جنم لے رہی ہے۔یہ تو میں نہیں جانتا کہ ان مقدمات کی تکمیل ہونے کے بعد‘ سزا کس کو ملے گی؟ میاں صاحب ؟ یا منصفین ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے