بقراطِ عصر کی جوڈیشل مارشل لاء کی تجویز

راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر فقط باتوں کے دھنی نہیں، وطنِ عزیز کو غداروں اور کرپشن سے بچانے کے لئے جہد مسلسل میں مصروف رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو بلکہ یہ گماں ہوتا ہے کہ شہر جاناں میں وہ تنہاشخص ہیں جنہیں باصفا کہا جا سکتا ہے۔ صداقت ودیانت کی واحد علامت۔ ہماری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر مامور One Man Squad۔

دوسروں کی کرپشن پر نگاہ رکھنے میں وہ اتنے مصروف رہے کہ 2013کا انتخاب لڑتے وقت اپنی دستاویز نامزدگی بھرتے ہوئے یاد ہی نہ رکھ پائے کہ ان کی زرعی زمین کتنے کنالوں پر مشتمل ہے۔ انہیں شمار کرتے ہوئے غلطی کر بیٹھے۔ قوم کی فکرمیں انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ اسلام آباد کے نواح میں خوش حال لوگوں کے لئے تیزی سے تعمیر ہوتی ایک کالونی میں انہوں نے جو رقبہ لیا تھا اس کی بکنگ لاکھوں سے شروع ہوتی تھی۔ تعمیر ہوجانے کے بعد ان کے حصے میں آیا بنگلہ مارکیٹ میں کم از کم 5کروڑ روپے میں فروخت ہونا چاہیے۔ نظر بظاہر غریبوں کے غم میں مبتلا بقراطِ عصر کوئی ذاتی دھندہ نہیں چلاتے۔ کچھ رقم بینک میں جمع کروارکھی ہے۔ یقینا یہ رقم کسی شرعی اکائونٹ میں پڑی ہوگی۔ سود سے قطعی پاک۔ اس کے علاوہ شاید چند مکان اور دکانیں بھی ہیں جو انہوں نے کرائے پر اُٹھارکھی ہیں۔ ان دو ذرائع سے انہیں جو بندھی ٹکی رقم آتی ہے اسے خرچ کرکے قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ اس رقم کا حساب انہوں نے کتابی صورت میں جمع نہیں کیا۔ کاغذاتِ نامزدگی بھرتے ہوئے جو ذہن میں آیا دیانت داری سے لکھ ڈالا۔

نیک لوگوں کے مگر حاسد بے شمار ہوتے ہیں۔ جن صاحب کو انہوں نے 2013کے انتخابات میں شکستِ فاش سے دوچار کیا وہ ان کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں چلا گیا۔ بقراطِ عصر جس پارلیمان پر لعنت بھیج بیٹھے ہیں وہاں خود براجمان رہے۔ قومی اسمبلی میں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے ساتھ بیٹھنے کا دُکھ سہتے رہے۔

ان کے خلاف اُٹھا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ ماضی میں انتخاب لڑنے کے خواہاں افراد کے لئے کاغذاتِ نامزدگی بھرتے ہوئے جو خطائیں نادانستگی میں ہوجاتی تھیں، انہیں روایتی طورپر نظرانداز کردیا جاتا تھا۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نواز شریف جب پانامہ کے شکنجے میں آئے تو ان پر مالی معاملے کی کڑی چھان بین ہوئی۔ دریافت یہ ہوا کہ موصوف کے پاس ’’اقامہ‘‘ بھی ہوتا ہے۔ ان کے فرزند نے ایک کمپنی بنارکھی ہے۔ ہونہار وفرماں بردار بیٹے نے کاغذوں میں اپنے والد کو اس کمپنی کا چیئرمین بنایا۔ اس چیئرمین کی خدمات کے لئے باقاعدہ معاوضے کا ذکر بھی ہوا۔ والد نے خوش دلی سے یہ معاوضہ وصول نہیں کیا۔ اس کا ذکر مگر اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں کرنا بھول گئے اور سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد سے اب تک ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دہائی مچا رہے ہیں۔
بقراطِ عصر کے بدخواہوں کی خواہش ہے کہ پانامہ کیس کے نتیجے میں قائم ہوئی نظیر کا اطلاق فرزندِ لال حویلی پر بھی ہو۔ میری خلوص نیت سے لیکن دُعا ہے کہ ان کی کاغذاتِ نامزدگی کے حوالے سے سرزد ہوئی خطائیں بدنیتی قرار نہ پائیں۔ وہ انتخابی سیاست کے لئے نااہل ہوگئے تو ہماری ریاست بے رونق ہوجائے گی۔ مہذب وپارسا دِکھتے افراد کی مکمل طورپر یرغمال بن جائے گی۔

بقراطِ عصر اگرچہ اپنے مستقبل کے بارے میں ہرگز فکرمند نہیں۔ ہدف ان کا محض ملکی سیاست کو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے پاک کرنا ہے۔ اس سیاست کی جڑوں میں موجود ناسور مگر روایتی قوانین کی مدد سے ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرزندِ راولپنڈی نے بدھ کے روز سپریم کورٹ سے دست بستہ فریاد کی ہے کہ ملک میں ’’جوڈیشل مارشل لائ‘‘ لگا دیا جائے۔

جوڈیشل مارشل لاء کی ترکیب بہت انوکھی ہے۔ خاکی وردی اور کالے کوٹ کو عظیم تر قومی مفاد میں یکجا کرتی ہے۔ مجھ ایسے بے بصیرت اگرچہ اسے سمجھ نہیں پائے ہیں۔جوڈیشل مارشل لاء کے ذریعے البتہ جن اقدامات کا مطالبہ کیا جارہا ہے وہ بقراطِ عصر ہی نہیں وطنِ عزیز میں دیانت اور پارسائی کے فروغ پر اپنے تئیں مامور کالم نگاروں اور اینکر خواتین وحضرات بھی تواتر کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں۔

اس ملک کو کرپشن سے ہمیشہ کے لئے پاک کرنے کے لئے برملا اس خواہش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد جو نگران حکومت آئے اس کا دورانیہ فقط دو مہینوں تک محدود نہ ہو۔ صاف، شفاف ووٹرز لسٹ کی تیاری اور حلقے بندیاں وقت چاہتی ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوںکو بھی ووٹ دینے کا حق ملنا چاہیے۔ نادرا اور الیکشن کمیشن ابھی تک اس کے لئے کوئی مناسب نظام وضع نہیں کر پائے ہیں۔ احتساب بیورو بھی بالآخر جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ہمت دکھارہا ہے۔ اس کے پاس فائلوں کا طومار ہے۔ ان کی چھان پھٹک کے بعد کئی نامور سیاست دانوں کے خلاف مقدمات قائم کئے جاسکتے ہیں۔ ان مقدمات کی تیاری بھی وقت کا تقاضہ کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن اور احتساب بیورو کو درپیش چیلنجوںکو ذہن میں رکھیں تو سپریم کورٹ سے فریاد کی جاسکتی ہے کہ وہ نگران حکومت کا دورانیہ کم از کم دو سال تک بڑھا دے۔ ایسا ہوجائے تو آئندہ انتخابات نہ صرف صاف اور شفاف ہوں گے بلکہ ان میں صرف نیک پاک افراد ہی حصہ لے سکیں گے۔

بنیادی طورپر ایک سست اور روزمرہّ ضرورتوں کا غلام ہوتے ہوئے میں کرپشن کے خلاف برپا جہاد میں اپنا حصہ نہیں ڈال پایا۔ رزق کے محتاج افراد کا ویسے بھی کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ محض جیتے ہیں۔ پتھر میں بند کیڑے کی مانند۔

اپنی کوتاہیوں اور مجبوریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی میں اس ملک کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہماری حالیہ تاریخ میں لیکن ایسی ہی ایک کوشش اکتوبر1999ء میں بھی ہوئی تھی۔ جنرل مشرف تشریف لائے تھے۔ انہوں نے 7نکاتی ایجنڈا دیا۔بدعنوان سیاستدانوں کا کڑا احتساب اس کا پہلا ہدف تھا۔ پورے 3برسوں تک کڑے احتساب کے بعد انہوں نے 2002ء میں جو انتخاب کروائے ان کی بدولت بے تحاشہ ایسے چہرے مگر اسمبلیوں میں لوٹ آئے جنہیں جنرل امجد کے احتساب بیورو نے کئی مہینوں تک جیلوں میں بندرکھا تھا۔

فیصل صالح حیات بھی مثال کے طورپر ان سیاستدانوں میں شامل تھے۔ 2002ء کے انتخابا ت میں لیکن جنرل صاحب کی بنائی قاف لیگ سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرپائی۔پیپلز پارٹی کے منتخب ہوئے لوگوں میں سے ’’محبانِ وطن‘‘ ڈھونڈنے کی ضرورت پڑی۔ مخدوم فیصل صالح حیات نے ایف سی کالج لاہور میں جنرل مشرف کے Buddy رائو سکندر اقبال مرحوم کے ساتھ مل کر ’’پیٹریاٹ‘‘ بنادی۔ ان کی مدد سے بلوچستان کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لئے میرظفر اللہ خان جمالی کو وزیر اعظم بنادیا گیا۔ وہ مگر چل نہ پائے۔ بالآخر شوکت عزیز صاحب سے کام چلانا پڑا اور آخر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ NRO کرنا پڑا۔

اس تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے وطنِ عزیز کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے لہذا ’’کچھ نیا‘‘ کرنا ہوگا۔ جوڈیشل مارشل لاء شاید وہ ’’نئی‘‘ چیز ہو۔ اسے آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس تجربے کا آغاز مگر کہیں بقراطِ عصر سے نہ شروع ہوجائے جو قوم کے غم میں مبتلا ہونے کے سبب 2013ء کا انتخاب لڑتے ہوئے اپنے کاغذاتِ نامزدگی درست انداز میں تیار نہیں کر پائے تھے۔ حکیم چند دائمی امراض کے لئے جو دوائیں ایجادکرتے ہیں انہیں خود پر نہیں آزماتے۔ نسخے دوسروں کے لئے تیار کئے جاتے ہیں اور بقراطِ عصر کا مقصود بھی یقیناً یہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے