پاکستان میں مسیحی برادری کے خوفزدہ ہونے کی چند خاص وجوہات

لاہور میں ہونے والے گذشتہ چند احتجاجوں کے برعکس اس احتجاج کے دوران مال روڈ پر ٹریفک بند ہوئی اور نہ ہی کوئی سڑک بلاک کی گئی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں چند روز قبل اقلیتی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی تنظیم رواداری تحریک کے کارکنان نے پنجاب اسمبلی کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ چیئرنگ کراس کے مقام پر لگایا۔

لاہور میں ہونے والے گذشتہ چند احتجاجوں کے برعکس اس احتجاج کے دوران مال روڈ پر ٹریفک بند ہوئی اور نہ ہی کوئی سڑک بلاک کی گئی۔

رواداری تحریک کے چیئرمین سیمسن سلامت کہتے ہیں ’حکومت وہی ہے جو سڑک بلاک ہونے سے پہلے ہی اپنے عوام کی آواز سن لے۔‘

اس بار وہ اور ان کے ساتھی مسیحی برادری کے ان افراد کے لیے آواز اٹھا رہے تھے جنھیں گذشتہ تقریباً ایک ماہ کے عرصے میں صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں واقع اپنے گھروں سے یا تو در بدر ہونا پڑا یا وہ گھروں میں رہتے ہوئے بھی خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

سیمسن سلامت اور ان کے ساتھی کارکن حکومتِ پنجاب سے اقلیتوں کے لیے تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کی آواز کہاں تک سنائی دی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم متاثرہ افراد سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ان پر گزرنے والے حالیہ مشکل وقت میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔

صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران مسیحی برداری کے کم از کم دو گرجا گھروں پر مسلح افراد نے حملہ کیا، شیخوپورہ میں ایک مسیحی شخص کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا اور کم از کم دو ایسے واقعات ہوئے جہاں درجنوں کی تعداد میں مسیحی خاندانوں کو اپنی زندگیاں بچانے کے لیے اپنے گھربار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

[pullquote]کس کی آواز سنائی نہیں دیتی[/pullquote]

صوبہ پنجاب میں مقیم مسیحی برادری کے افراد پر مشکل وقت کا آغاز رواں برس فروری کے آخر میں لاہور سے ہوا جہاں ایک 18 سالہ مسیحی نوجوان کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ درج ہونے پر شاہدرہ ٹاؤن میں واقع دھیڑ نامی محلے سے 150 کے قریب خاندانوں کو گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

صوبہ پنجاب میں مقیم مسیحی برادری کے افراد پر مشکل وقت کا آغاز رواں برس فروری کے آخر میں لاہور سے ہوا جہاں ایک 18 سالہ مسیحی نوجوان کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ درج ہونے پر شاہدرہ ٹاؤن میں واقع دھیڑ نامی محلے سے 150 کے قریب خاندانوں کو گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا.

انھی دنوں کے آس پاس صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کے ایک علاقے الٰہی آباد میں ایک شکایت پر ایک خاتون سمیت چھ مسیحی افراد پر توہینِ رسالت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ کشیدہ حالات کے پیشِ نظر اس علاقے سے بھی کئی مسیحی خاندانوں کو گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

رواں ماہ کے اوائل میں سیالکوٹ کے ایک گاؤں چک 5/77 آر میں چند مسلح افراد نے ایک گرجا گھر میں موجود لوگوں پر حملہ کیا جس میں خواتین سمیت سات افراد زخمی ہوئے۔ مقامی مسیحی افراد کے مطابق حملہ کرنے والے زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

یہاں رہنے والے 40 سے زیادہ مسیحی گھرانوں کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں میں شامل افراد کی جانب سے انھیں بدترین نتائج کی دھمکیاں مل رہیں ہیں جبکہ پولیس بھی انھیں صلح صفائی کا مشورہ دے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا تو انھیں مجبوراٌ علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔

ان تمام واقعات میں جو قدر مشرک ہے وہ یہ کہ خصوصاٌ توہینِ رسالت کے مقدمات میں الزام ایک شخص یا افراد کے ایک گروہ پر عائد ہوا تاہم اس کے نتیجے میں درجنوں خاندانوں کو جان بچانے کے لیے اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ ایسا کب اور کیوں ہوتا ہے؟
بھاگنا تو سب کو پڑتا ہے.

لاہور میں ہونے والے حالیہ واقعے میں متاثرہ مسیحی برادری کے ایک مقامی شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حالات اس قدر جلد بدل رہے تھے کہ ان کے لیے انتظار کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
ان کے محلے میں واقع بابا بندوق شاہ نامی دربار سے ملحقہ ایک مسجد سے اعلان کر کے بتایا گیا کہ پطرس مسیح نامی 18 سالہ لڑکا مبینہ طور پر گستاخی کا مرتکب ہوا ہے لہٰذا اسے مقامی لوگوں کے حوالے کیا جائے۔

بابا بندوق شاہ نامی دربار سے ملحقہ ایک مسجد سے اعلان کر کے بتایا گیا کہ پطرس مسیح نامی 18 سالہ لڑکا مبینہ طور پر گستاخی کا مرتکب ہوا ہے

’اس کے بعد ایک بہت بڑا گروہ لڑکے کے گھر کی طرف آ گیا۔ گھر والے شاید پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ لوگوں نے ان کے گھر پر دھاوا بولا۔‘
پولیس موقع پر پہنچی اور حالات کو مزید کشیدگی سے وقتی طور پر بچایا گیا تاہم لوگ بضد رہے کہ وہ وہاں سے نہیں جائیں گے جب تک لڑکے کو ان کے حوالے نہیں کیا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ مسیحی برادری کے چند بزرگوں نے لوگوں سے بات کی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اگر اس لڑکے سے اس قسم کی غلطی سرزد ہوئی ہے تو اس کو ضرور پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔

’ہجوم میں سے ایک شخص بولا کہ اگر کی بات نہ کرو، اس ہی نے گستاخی کی ہے۔ اسے ہمارے حوالے کرو۔ ہم اس کو چیر کے اس میں سے گزر جائیں گے۔ اس قدر غصہ پایا جاتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے آنے سے انھیں کافی حوصلہ ہوا اور پولیس نے اپنے تئیں حالات کو قابو میں کرنے کی بہت کوشش بھی کی تاہم مشتعل افراد ان کی بات ماننے پر راضی نہیں تھے۔

مشتعل ہجوم ایک کھلے میدان میں جمع ہو گیا جہاں جذباتی انداز میں تقاریر کی جانے لگیں۔ ’آہستہ آہستہ ان میں سے کئی افراد کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور پٹرول کی بوتلیں نظر آنے لگیں۔ انھیں مسلسل جوش دلایا جا رہا تھا۔ ہمیں لگا کہ ہمارے گھر جلا دیے جائیں گے۔

دریائے راوی کے کنارے پر واقع دھیڑ کے اس علاقے میں مسیحی برادری کے ہزار سے زیادہ گھر ہیں جو سنہ 1980 کے اوائل سے یہاں آباد ہیں
’پھر پولیس نے خود ہمیں کہا کہ بہتر ہے کہ آپ جتنا جلد ہو سکے یہاں سے نکل جائیں اور کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔ جس کے ہاتھ جو آیا اس نے سنبھالا اور نکل لیا۔‘

دریائے راوی کے کنارے پر واقع دھیڑ کے اس علاقے میں مسیحی برادری کے ہزار سے زیادہ گھر ہیں جو سنہ 1980 کے اوائل سے یہاں آباد ہیں۔ تاہم متاثر صرف وہ علاقہ ہوا جہاں پطرس مسیح کا گھر واقع تھا۔ وہاں سے کم از کم 150 کے قریب گھر خالی ہو گئے۔

بابا بندوق شاہ کے دربار میں موجود ایک شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ مسجد سے اعلان کر کے مسیحی برادری کے لوگوں کو ’خبردار‘ کیا گیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے واضح طور پر یہ بتا دیا تھا کہ ان کا باقی افراد سے کچھ لینا دینا نہیں، انھیں صرف پطرس مسیح چاہیے۔‘

پطرس مسیح کو پولیس نے تین چار روز میں گرفتار کر لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد اسے جیل بھیج دیا گیا۔ تاہم دھیڑ کے باسی ڈرتے ڈرتے ایک دو روز میں واپس لوٹنا شروع ہوئے اور وہ بھی مقامی علما کی جانب سے یقین دہانی کروائے جانے کے بعد کہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

تاہم واپس لوٹنے والے افراد اب بھی خوف زدہ ہیں۔

[pullquote]معاملہ بہت نازک ہوتا ہے[/pullquote]

دھیڑ کے باسی مسیحی برادری کے ایک صاحب کا جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہنا تھا کہ وہ اب بھی بچوں کو اکیلے باہر نہیں جانے دیتے اور انتہائی ضرورت کے علاوہ خود بھی گھر سے باہر جانے سے اجتناب کرتے ہیں۔

’یہ معاملہ ہی اتنا نازک ہے۔ انھوں نے جو افواہیں پھیلا دی ہیں جس نے بھی سنی ہوں گی، چاہے اسے سچ معلوم ہو یا نہیں، کوئی بھی جذباتی ہو کر ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘

مسیحی برادری کے ایک شخص جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی بچوں کو اکیلے باہر نہیں جانے دیتے
کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو شہر ہی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ وہ کب واپس لوٹ پائیں گے، انھیں خود بھی معلوم نہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایسے ہی ایک مسیحی شخص نے بتایا کہ محلے کے چند افراد نے انھیں دھمکیاں دیں ہیں کہ اگر وہ واپس لوٹے تو انھیں مار دیا جائے گا۔

’میں بہت مشکل میں ہوں۔ کبھی کسی رشتہ دار، کبھی کسی دوست کے پاس ٹھہر رہا ہوں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ کہیں کرائے پر گھر لے لوں، مگر میں واپس نہیں جا سکتا۔ معلوم نہیں کون ذاتی عناد کے لیے مجھے نقصان پہنچا دے اور پھر میرے بچے روتے نہ رہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے چند مولانا حضرات دوست ہیں جنھوں نے انھیں واپس گھر چھوڑ کر آنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور پولیس نے بھی ساتھ دینے کا کہا ہے۔

’وہاں لوگوں نے جو نفرت پھیلائی ہے مجھے اس سے خوف آتا ہے۔ میرے دوست ایک بار تو مجھے چھوڑ آئیں گے لیکن بعد میں میری حفاظت کون کرے گا؟‘

[pullquote]کہانی ایک جیسی ہے[/pullquote]

عدم تحفظ کی کچھ ایسی ہی فضا فیصل آباد کے علاقے الٰہی آباد میں بھی دیکھنے کو ملی۔ تھانہ صدر فیصل آباد میں درج رپورٹ کے مطابق ایک خاتون سمیت چھ افراد پر دہشت گردی اور توہینِ رسالت کے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
منور شہزاد نامی ایک شخص نے ان پر الزام لگایا کہ ان افراد نے انھیں مبینہ طور پر نعت سننے اور دیوار پر مبارک کلمات لکھنے سے روکنے کی کوشش کی جس کے دوران جھگڑا بھی ہوا۔

انھوں نے مزید کہا کہ مسیحی برادری کے افراد نے اسی رات اندھیرے میں مدعی اور ان کے بھائیوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ان کے دو بھائی زخمی ہو گئے۔ مقدمات درج کرنے کے بعد پولیس نے دو افراد کو گرفتار کر لیا تاہم علاقے میں کشیدگی کی وجہ سے مسیحی برادری کے کئی خاندانوں کو ایک بار پھر گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

سیالکوٹ میں ہونے والے واقعے میں ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے لیس افراد کے ایک گروہ نے چک 5/77 میں واقع ایک چرچ کی دیوار تعمیر کرتے ہوئے مسیحی افراد پر حملہ کیا۔ ضلع ساہیوال کے تھانہ نور شاہ میں درج واقعہ کی رپورٹ کے مطابق حملے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد زخمی ہوئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گذشتہ برس اکتوبر میں اپنے ایک فیصلے میں لکھا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ توہینِ رسالت کے قوانین کو مزید سخت کرے اور اس میں غلط الزام لگانے والے کے لیے بھی وہی سزا تجویز کی جائے جو مجرم کے لیے رکھی گئی ہے

تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مدعی مقدمہ شفیق مسیح نے بتایا کہ ’سات افراد زخمی ہوئے ان میں خواتین بھی شامل تھیں تاہم کچھ کی چوٹیں دیکھ کر پولیس نے کہا کہ ان کا میڈیکل نہیں بنتا۔‘

ان کا کہنا تھا ملزمان اس زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جس پر چرچ تعمیر کیا گیا تھا۔ تنازع زمین کا تھا۔ ’وہ کہتے تھے کہ یہ زمین سات مرلہ سکیم کے تحت ان کو الاٹ کی گئی تھی جبکہ حکومت کافی عرصہ پہلے ہی سات مرلہ سکیم ختم کر چکی تھی اور ہمارے پاس اس زمین کی رجسٹری بھی موجود ہے۔‘

شفیق مسیح کا کہنا تھا ملزمان بظاہر با اثر لوگ ہیں۔ ’وہ لوگ اب بھی ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ تمہیں جان سے مار دیں گے۔ اب ہم نے سوچا ہے کہ ہم علاقے کے ایم پی اے کے پاس جائیں گے اور مدد کی اپیل کریں گے۔

’بہت سے لوگ دھمکیوں سے خوفزدہ ہیں اور اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو بہت سے لوگ اپنے گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔‘

[pullquote]سب کیوں بھاگیں؟[/pullquote]

لاہور مںی دھیڑ کے واقعہ میں متاثر ہونے والے شخص نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ جس شخص پر الزام لگتا ہے اسے گرفتار کیا جائے اور اس سے تفتیش کی جائے۔

’اگر وہ قصور وار ہے تو اسے سزا بھی دی جائے، مگر اس کے کردہ نا کردہ گناہ کی سزا سب کو کیوں دی جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 30 سال سے زیادہ عرصہ میں دھیڑ میں کبھی اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور وہ امن سے یہاں پر رہتے رہے ہیں تاہم اب وہ یہاں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔

’کہیں جا بھی نہیں سکتے اور کیوں جائیں۔ یہ ہمارے گھر ہیں اور یہاں ہی رہنا ہے ہم نے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کچھ مواقع پر الزامات لگانے والوں کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ’اس طرح مسیحی گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور ہم ان کے خالی گھروں پر قبضہ کر لیں گے۔‘

تاہم ان کے اس الزام کی آزادانہ تصدیق یا تردید ممکن نہیں اور ایسی کوئی بات پولیس کی تفتیش میں سامنے نہیں آئی تاہم توہینِ رسالت کے تحت درج زیادہ تر مقدمات میں یا تو مقدمات سالہا سال چلتے رہتے ہیں یا چند مقدمات میں ملزمان بری بھی کر دیے گئے ہیں۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مسیحی بستی جلانے اور سانحہ جوزف کالونی کے 115 ملزمان کو ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا تھا.

[pullquote]تحفظ کیوں نہیں مل پاتا؟[/pullquote]

پاکستان کے موجودہ قوانین کے مطابق غلط الزام عائد کرنے والے کے لیے سزا موجود ہے تاہم وہ محض چھ ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گذشتہ برس اکتوبر میں اپنے ایک فیصلے میں لکھا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ توہینِ رسالت کے قوانین کو مزید سخت کرے اور اس میں غلط الزام لگانے والے کے لیے بھی وہی سزا تجویز کی جائے جو مجرم کے لیے رکھی گئی ہے۔

سینیٹ آف پاکستان کی ایک کمیٹی نے اس عدالتی حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کو حال ہی میں تجاویز پیش کیں۔
اس کمیٹی کے رکن سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ کمیٹی قانون میں تبدیلی کی بات نہیں کر رہی بلکہ اس کے غلط استعمال کو روکنے کی تجویز دے رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کمیٹی کو اسلامی نظریاتی کونسل کی اپنی پرانی ایک دستاویز مل گئی تھی جس میں انھوں نے غلط الزام لگانے والے کے لیے بھی اسی سزا کے تعین کی سفارش کی ہوئی تھی۔
کونسل نے یہ بھی تجویز کیا تھا کہ الزام لگانے والا شخص دو گواہان پیش کرے گا اور اگر نہیں کر سکتا تو وہ حلفاٌ بیان دے گا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔

’اس کی منطق بہت سادہ سی ہے۔ فرض کریں اگر کوئی ایک شخص کسی پر گستاخی کا الزام لگاتا ہے تو وہ کچھ نہ کچھ الفاظ ہوں گے اور پھر اگر وہ الزام غلط ثابت ہو جاتا ہے تو اس طرح الزام لگانے والا دوہری گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ کافی سنگین ہے۔‘
ان کا کہنا تھا توہینِ رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے سے ایسے واقعات پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے جہاں پورے کے پورے محلے کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ’اس طرح لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں گے۔‘

[pullquote]بشکریہ بی بی سی اردو[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے