یار، تم مر کیوں نہیں جاتے؟

گزشتہ روز شیخ ادریس میرے پاس آیا تو حسب معمول وہ بہت خوش تھا یہ ان ہزاروں لاکھوں احمقوں میں سے ایک ہے جو بلاوجہ خوش رہتے ہیں مجھے اس کا خوش رہنا کبھی سمجھ نہیں آیا کیونکہ نہ وہ کسی اونچے عہدے پر فائز ہے، نہ اس کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہیں، نہ اس کا کوئی بینک بیلنس ہے بلکہ وہ اے جی آفس میں ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ ہے اور اوپر سے یہ بدنصیب رشوت بھی نہیں لیتا۔ سو مجھ سے اس کا خوشی سے تمتماتا چہرہ دیکھا نہیں گیا۔ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج میں اسے خون کے آنسو رلوا کر یہاں سے بھیجوں گا۔ چنانچہ میں نے اس کے بیٹھنے کا انتظار بھی نہیں کیا اور اس سے اس کی خوشی کی وجہ بھی جانے بغیر نہایت سنجیدگی سے پوچھا ’’شیخ ادریس! تم مر کیوں نہیں جاتے؟‘‘

میرے لہجے کی سنجیدگی اور سوال کی گھمبیرتا سے شیخ ادریس تھوڑی دیر کے لئے پریشان سا نظر آیا جس پر مجھے دلی خوشی ہوئی مگر پھر وہ سنبھل کر بولا’’تم کیوں چاہتے ہو کہ میں مر جائوں۔‘‘میں نے جواب دیا ’’کمال ہے تمہیں پتہ ہی نہیں کہ مرنے میں کتنے مزے ہیں۔‘‘ اس دوران شیخ ادریس ایک بار پھر اپنے ہشاش موڈ میں واپس آ چکا تھا، ہنس کر بولا ’’ مجھے تو پتہ نہیں تم بتائو۔‘‘
میں نے کہا ’’یار تم جیسا آدمی جو معاشرے کےلئے بالکل غیر اہم ہے، مرنے کی صورت میں ایک دم اہم ہو جاتا ہے ۔

خاندان والے، محلے والے، دفتر والے اور جان پہچان والے اس روز اس کا ذکر کرتے ہیں، اس کی موت کے حوالے سے اس کے چرچے ہوتے ہیں، لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی اچھائیاں تلاش کرتے ہیں، کیا یہ معمولی بات ہے ؟‘‘میں شیخ ادریس کے چہرے سے واضح طور پر یہ اندازہ نہ لگا سکا کہ میری ان باتوں کے حوالے سے اس کے تاثرات کیا ہیں۔ کیونکہ اس نے نارمل انداز میں پوچھا ’’مرنے کے اور کیا فائدے ہیں؟‘‘میں نے جواب دیا ’’کوئی ایک فائدہ ہو تو بتائوں، جب تم مروگے تو لوگ تمہیں اپنے ہاتھوں سے نہلائیں گے، حالانکہ تم ساری عمر بنکاک جانے کی خواہش کرتے رہے مگر تمہاری وہ خواہش تمہاری غربت کی وجہ سے پوری نہیں ہوئی۔‘‘

میری اس بات سے شیخ کچھ حیران سا ہوا اور بولا ’’مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی، میں نے تو بنکاک جانے کی کبھی خواہش ہی نہیں کی، اور فرض کرو اگر کی بھی ہوتی تو اس کا دوسروں کے ہاتھوں نہلائے جانے سے کیا تعلق ہے؟اس پر میں نے اسے جھاڑ پلائی اور کہا ’’ تم اپنی غمی کو کسی فرضی خوشی سے پورا کرنے کی کوشش نہ کرو۔‘‘

دراصل کسی بات کا جواب نہ دینا ہو تو اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ دوسروں کو دفاعی پوزیشن میں ڈال دو چنانچہ شیخ ادریس پر بھی یہ حربہ کارگر ہوا اور وہ اپنا سوال بھول کر بولا ’’اچھا چھوڑو تم مجھے مرنے کے کچھ مزید فائدے بتائو۔‘‘اس بار اس کے لہجے سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ میری باتوں سے خوفزدہ یا پریشان نہیں ہے بلکہ وہ الٹا ان باتوں کو انجوائے کررہا ہے۔ چونکہ مجھ سے کسی کی خوشی دیکھی نہیں جاتی لہٰذا مجھے اس کے یوں مزے لینے کا دکھ ہوا۔ مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور اسے مرنے پر قائل کرنے کے لئے کچھ مزید سہولتیں دیتے ہوئے کہا ’’تمہیں اچھی طرح نہلانے دھلانے کے بعد تمہیں سفید رنگ کا زیرو میٹر سوٹ پہنایا جائے گا، یہ ون پیس سوٹ عربی اسٹائل کا ہوگااور تم پر بہت جچے گا۔ پھر تمہارے اہل خانہ تمہارے سر ہانے بیٹھ جائیں گے اور تمہارا نام لے لے کر بین ڈالیں گے۔ سچ بتائو تمہیں زندگی میں کبھی اتنی اہمیت ملی ہے؟‘‘ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا نہیں؟

مجھے ایک بار پھر اس کی یہ ہنسی زہر لگی۔ مگر میںنے اپنا دل چھوٹا نہ کیا اور اسے مرنے پر آمادہ کرنے کے لئے اپنی کوشش جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ تمہیں اتنے سال سروس کرتے ہوئے ہوگئے ہیں لیکن تم کار تو کیا موٹر سائیکل بھی نہ خرید سکے۔‘‘ اس پر شیخ ادریس نے اثبات میں سر ہلایا تو میں نے کہا ’’لیکن جب تم مرو گے تو سواری تمہارے لئے کوئی پرابلم نہیں رہے گی، چار لوگ تمہاری چارپائی کو کاندھوں پر اٹھائے تمہیں خود میانی صاحب چھوڑکر آئیں گے بلکہ کئی معززین تمہاری چارپائی کو کاندھا بھی دیں گے۔ کیا تم نے اپنی زندگی میں کبھی اس عزت افزائی کا سوچا ہے؟‘‘۔

میرا خیال تھا کہ میری اس آخری پیشکش پر شیخ ادریس اگر خوشی سے اچھل نہ پڑا تو کم از کم مثبت ردعمل کامظاہرہ ضرور کرےگا مگر بالکل خلاف توقع اس بار اس نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا اور بولا ’’تمہاری بکواس ختم ہوگئی ہے یا ابھی مزید کچھ رہتی ہے؟‘‘۔مجھے اس کی اس بات پر شدید ذہنی دھچکا محسوس ہوا چنانچہ میں نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’میں یہ سب کچھ تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہا تھا کیونکہ تمہاری مفلسانہ زندگی پر مجھے ترس آتا ہے مگر افسوس تم نے میرے خلوص کی قدر نہیں کی۔‘‘یہ سن کر شیخ ادریس نے مسکراتے ہوئے میرے کاندھے تھپتھپائے اور بولا ’’بات یہ ہے کہ مجھے مرنے سے کوئی دلچسپی نہیں، زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور میں اس نعمت کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے جل کر جواب دیا ’’زندگی یقیناً اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے لیکن اس زندگی میں تمہیں اگر کوئی خوش ملی ہو تو وہ بتائو۔‘‘

یہ سن کر وہ بدبخت ایک بار پھر ہنسا اور بولا ’’کوئی ایک خوشی ہو تو بتائوں، میری زبان تو خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی کہ میری دونوں ٹانگیں کام کرتی ہیں، میں اپنے دونوں بازو پوری قوت سے ہلا بلکہ گھما سکتا ہوں، میری آنکھیں خوبصورت مناظر دیکھ سکتی ہیں، میں اپنے سارے کام خود کرسکتا ہوں،میری بیوی بہت اچھی ہے، اللہ نے مجھے اولاد بھی دی ہے اور وہ بہت فرما نبردار ہے، لوگ میری عزت کرتے ہیں، میں اور میرے بچے کبھی بھوکے نہیں سوئے، ہم صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، باقی دکھ اور محرومیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں لیکن میں ان کا گلہ کرنے میں لگا رہوں یا جو کچھ مجھے ملا ہے اس کا شکر اداکروں؟‘‘

مجھے شیخ ادریس پہلے بھی کبھی اتنا اچھا نہیں لگا تھا لیکن آج اس کی یہ باتیں سن کر مجھے اس سے شدید نفرت ہوگئی،مجھ یہ بات دکھ دے رہی تھی کہ جب میں زندگی سے خوش نہیں ہوں تو کسی اور کو خوش رہنے کا کیا حق ہے؟ تاہم ان لمحوں میں ، میں نے محسوس کیا کہ شیخ ادریس کو اپنی زیادتی کا احساس ہوگیا ہے کیونکہ اس نے اٹھ کر مجھے پیار سے گلے لگایا اور کہا ’’میرے دوست میں تمہارا مسئلہ سمجھتا ہوں، اس لئے تمہاری کسی بات کا برا نہیں مانتا بلکہ تمہیں بھی اگر میری کوئی بات بری لگی ہوتو مجھے معاف کردینا۔‘‘

میں اسے معاف کرنا چاہتا تھا مگر اگلے ہی لمحے اس نے ایک ایسی بات کہی جس سے ایک بار پھر میرا دل جل کر کباب ہوگیا۔ اس نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’انسان اگر خوش رہنا چاہے تو اسے روزانہ ایک خوشی بلکہ بہت بڑی خوشی بالکل مفت مل سکتی ہے اور اس طرح کی خوشیاں مجھے روزانہ ملتی ہیں۔‘‘ میں نےبددلی سے کہا ’’مثلاً آج تمہیں کونسی ایسی خوشی ملی ہے کہ جب تم میری طرف آئے تو معمول سےبھی زیادہ خوش نظر آ رہے تھے۔؟‘‘اس پر اس کے چہرے پر نور کی ایک جھلک سی دکھائی دی وہ کہہ رہا تھا ۔میرے دوست یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ مجھے اس کے اظہار کے لئے مناسب الفاظ بھی نہیں مل رہے۔ میں جب آج تمہاری طرف آ رہا تھا کہ اچانک میری نظر اپنے ڈیڑھ سالہ نواسے پر پڑی ، اس نے ابھی چلنا نہیں سیکھا تھا۔ مگر آج وہ اٹھااور میرے سامنے تین چار قدم چلنے کے بعد گر گیا۔ مگر اس کے بعد پھر اٹھا اور چند قدموں کے بعد پھر لڑکھڑا گیا مگر اس نے اپنی یہ کوشش جاری رکھی۔ میں بیان نہیں کرسکتا کہ اسے آج چلتے دیکھ کر مجھے اور میرے سب اہل خانہ کو کتنی خوشی ہوئی، میں اس خوشی میں بازار سے مٹھائی لے کر آیا، ہم اہل خانہ دیر تک اپنی یہ خوشیاں سمیٹتے رہے۔‘‘

مجھے اس کی خوشی کی اوقات پر ہنسی آئی جو میں نے روک لی کیونکہ میں کبھی ہنستا نہیں ہوں، نہ کبھی مسکراتا ہوں کہ ہنسنے اور مسکرانے سے بھی معاشرے کے کھچائو میں کمی آتی ہے۔ اتنے میں شیخ ادریس واپس جانے کے لئے اٹھا، میں نے اسے روکنا چاہا کیونکہ میں ابھی اس کی مزید احمقانہ خوشیوں کےبارے میں جاننا چاہتا تھا۔ بقول اس کے جن کی وجہ سے وہ ہمیشہ خوش اور پرسکون نظر آتا ہے مگر اس نے معذرت کی اور کہا مجھے جانا ہے۔ کیونکہ مجھے ہر جمعے کو مختلف اسپتالوں میں ان مریضوں کی عیادت کے لئے جانا ہوتا ہے جو لاوارث ہیں اور جن کی عیادت کے لئے کوئی نہیں آتا۔ وہ لوگ میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘

یہ سن کر میں نے اسے نہیں روکا، اس احمق شخص کو یقیناً اس کار لاحاصل سے بھی خوشی حاصل ہوتی ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے