فیض آباد دھرنا معاہدہ اور ریاست کی ذمہ داری

فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے ریاست نے احتجاج کرنے والوں سے ایک معاہدہ کیا جس پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری دونوں فریقین پر لازم تھی۔ اُسی معاہدہ کی صورت میں احتجاج کے خاتمہ کا اعلان ہوا لیکن ریاست نے معاہدہ کے تحت جو اقدامات کرنے تھے وہ پورے نہ کیے اور اب ایک بار پھر عدالتوں کی طرف سے احتجاج کرنے والوں کی قیادت کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا رہے ہیں۔ میڈیا میں بیٹھے کچھ مداری بے چینی سے چاہ رہے ہیں کہ جس آگ کو بجھانے کے لیے ریاست کو انتہائی نازک حالات میں وہ معاہدہ کرنا پڑا، وہ حالات دوبارہ پیدا ہو جائیں۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو طعنے دیے جا رہے ہیں اور اشتعال دلایا جا رہا ہے کہ علامہ خادم رضوی اور دوسرے افراد کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا رہا؟؟ کوئی معاہدہ کی بات نہیں کرتا کہ اُس میں کیا کچھ لکھا تھا اور یہ کہ کیا اب حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ معاہدہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے جو مقدمات احتجاج کرنے والوں کے خلاف قائم کیے گئے تھے اُنہیں وعدہ کے مطابق ختم کرایا جائے۔ ریاست کیسے اپنے وعدہ سے پھر سکتی ہے؟؟؟ اگر اس طرح معاہدہ کر کے ریاست وعدہ خلافی کرتی ہے تو پھر کوئی دوسرا ریاست اور ریاستی اداروں پر اعتبار کیسے کرے گا۔کسی کو بھی معاہدہ کے نکات پر تنقید کا حق حاصل ہے لیکن کوئی فریق معاہدہ سے پھر جائے اس کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔ دھرنے کے بعد بہت سے لوگوں نے معاہدہ پر شدید اعتراض کیا۔ اعتراض کرنے والوں میں حکومت کے لوگ بھی شامل تھے۔

ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا گیا کہ فوج اور عسکری قیادت اس معاہدہ میں کیوں شامل ہوئی۔ انہیں اعتراضات اور تنقید کے نتیجے میں محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت نے معاہدہ کی شقوں پر عمل نہیں کیا۔ میں پہلے بھی اس معاملہ پر لکھ چکا ہوں کہ جو سنگین حالات فیض آباد دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے کمزور حکومتی آپریشن اور اُس آپریشن کی میڈیا کے ذریعے انتہائی غیر ذمہ دارانہ تشہیر سے پیدا ہو چکے تھے اُنہیں اگر بروقت قابو میں نہ لایا جاتا تو ایک ایسی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی جس کے بارے میں سوچ کرآج بھی خوف طاری ہو جاتا ہے۔ جس طرح ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں میں پر تشدد احتجاج شروع ہو چکے تھے اُنہیں قابو کرنا حکومت، پولیس اور سول انتظامیہ کسی کے بھی بس میں نہ تھا۔ اگر اُن حالات میں وزیر اعظم نے آرمی چیف سے بات کی اور فوج اور آئی ایس آئی کو حالات کو قابو کرنے کے لیے فیض آباد دھرنے کی قیادت سے معاہدہ کرنے کے لیے کہا تو بہت اچھا کیا کیوں کہ اُن نازک حالات میں وہی بہترین فیصلہ تھا۔ فوج اور آئی ایس آئی نے معاہدہ کر کے ملک بھر سے احتجاج ختم کروایا اور حالات کو معمول میں لانے میں انتظامیہ کی مدد کی وہ نہ صرف بہترین اقدام تھا بلکہ ملک و قوم کے مفاد میں تھا۔

اس معاہدہ نے ایسے حالات جہاں حکومت کی رٹ ختم ہو چکی تھی، حکومتی رٹ کو واپس لانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن امن کی بحالی کے ساتھ ہی میڈیا نے کہنا شروع کر دیا کہ معاہدہ تو حکومت کی طرف سے ہتھیار ڈٖالنے کے مترادف ہے۔ میری حکومت اور فوجی قیادت سے درخواست ہے کہ میڈیا کی سننے کی بجائے ریاست کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس معاملہ کو اچھے طریقے سے ختم کریں۔ جہاں تک سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس معاملہ میں سنے جانے والے کیسوں کا معاملہ ہے تو وہاں جو فیصلہ ہو اُسے سب کو قبول کرنا چاہیے۔ ویسے بھی سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی جو فیض آباد دھرنا کے یہ کیس سن رہے ہیں، وہ دونوں بہت قابل احترام ہیں۔ انہی کیسوں کو سنتے ہوئے جسٹس عیسیٰ اور جسٹس صدیقی نے اسٹبلشمنٹ کے متعلق کچھ سخت ریمارکس دیے۔ ان ریمارکس کے نتیجے میں حیران کن انداز میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کو نوٹس جاری کر دیا۔ جسٹس صدیقی کے خلاف پہلے ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک کیس سنا جا رہاتھا (جو میری معلومات کے مطابق ایک کمزور مقدمہ ہے) کہ اب کونسل نے محترم جج صاحب کو فیض آباد دھرنے کے کیس میں اُن کے اسٹبلشمنٹ کے متعلق ریمارکس پر نیا نوٹس جاری کیا جس نے بہت سوں کو تعجب میں ڈال دیا۔ عدالت میں دیے گئے ریمارکس پر کبھی کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے اس انداز میں کارروائی نہیں کی جس کا جسٹس صدیقی کو سامنا ہے۔

اسی طرح گزشتہ ہفتہ محترم جسٹس فائز عیسیٰ کی بلوچستان ہائی کورٹ میں تعیناتی کے خلاف زیر التو اپٹیشن کو سپریم کورٹ کے کسی بنچ کے سامنے لگائے جانے کی خبر نے بھی بہت سوں کو کافی حیران کیا۔ میری ذاتی رائے میں پاکستان کی عدلیہ میں جسٹس عیسیٰ جیسے باضمیر اور آزاد منش ججز کا موجود ہونا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے