ایون فیلڈ ریفرنس: قطری خط سمیت اضافی دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منظور

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس میں قطری شہزادے کے خط سمیت 3 اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کی درخواست منظور کرلی۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف، ان کی صاحبزدای مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران نیب استغاثہ افضل قریشی کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ قطری شہزادے کے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط، برٹش ورجن آئی لینڈ کے خط اور واجد ضیاء کی جانب سے اٹارنی جنرل پاکستان کو لکھے گئے خط کو ایون فیلڈ ریفرنس میں عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

اس درخواست پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دستاویزات پہلے سے موجود تھیں تو انہیں ریکارڈ کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا تھا اور انہیں ریفرنس میں کیوں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

بعد ازاںعدالت نے نیب پراسیکیوٹر کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا تاہم کچھ دیر بعد فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ دستاویزات کوعدالتی ریکارڈ کا حصہ بنادیا۔

[pullquote]’حسن، حسین اور مریم نواز کی جمع کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی تھی‘[/pullquote]

اس سے قبل دوران سماعت نیب کے گواہ واجد ضیاء کا بیان قلمبند کرانے کا سلسلہ جاری رہا، اس دوران انہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حوالے سے بتایا کہ لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق نواز شریف نے 1993 سے 1996 میں لندن میں فلیٹس خریدے جبکہ ملزمان خود اعتراف کرچکے ہیں کہ 90 کی دہائی میں فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا۔

انہوں نے بتایا کہ جب فلیٹس جب فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا گیا تو حسین نواز طالبعلم تھے اور تمام ملزمان مانتے ہیں کہ فلیٹ نمبر 16 صرف نواز شریف کے زیر استعمال رہا اور یہ فلیٹ صرف اس وقت استعمال کیا جب نواز شریف علاج کے لیے برطانیہ گئے۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ ملزمان نے 2 ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائی جبکہ جے آئی ٹی کے مطابق دونوں ٹرسٹ ڈیڈز کا صفحہ نمبر 2 اور 3 ایک جیسا تھا اور ٹرسٹ ڈیڈز پر تاریخیں تبدیل کی گئیں اور ٹرسٹ ڈیڈ پر اووررائٹنگ کرکے 2004 کو 2006 بنایا۔

واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ حسین اور مریم نواز کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات میں بیئرر شیئرز مریم نواز کی تحویل میں ہونے کا ذکر نہیں جبکہ سال 2006 آف شور کمپنیوں سے متعلق قانون سازی کا اہم سال تھا اور نئی قانون سازی کے بعد بیئرر شیئرز کی ملکیت چھپانا ممکن نہیں تھا۔

سماعت کے دوران واجد ضیاء نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوائی گئی، جس میں ریڈلے کی رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی کی طرف سے مریم نواز کو طلب کیا گیا اور ان کی طرف سے 2 ٹرسٹ ڈیڈ جمع کرائیں جو بقول ان کے اصلی تھیں لیکن فرانزک ٹیسٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی تھیں۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ مریم نواز، حسین نواز اور کیپٹن(ر) صفدر نے جعلی دستاویزات پر دستخط کرکے سپریم کورٹ میں انہیں پیش کیا جبکہ حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی یہی کاپیاں عدالت میں پیش کیں۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف اور مریم صفدر کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد

جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ حسن اور حسین نواز کی طرف سے اسٹیفن مورلے سے لی گئی قانونی رائے جامع نہیں تھی اور انہوں نے ٹرسٹ ڈیڈ اور دیگر متعلق دستاویزات کو دیکھے بغیر رائے دی جبکہ اسٹیفن مورلے کی رائے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن ضروری نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی قانونی رائے تفصیلی تھی جبکہ گیلارڈ کاپر نے ٹرسٹ ڈٰیڈ اور متعلقہ دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد رائے تحریر کی۔

دوران سماعت مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ واجد ضیاء اپنی رائے دے رہے ہیں جبکہ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے عدالت میں گفتگو کی گئی، جس پر عدالت نے انہیں بیان ریکارڈ کرانے کے دوران شور نہ مچانے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں بھی واجد ضیاء نے بیان قلمبند کرانے کا سلسلہ جاری رکھا تھا جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کی جانب حاضری سے استثنیٰ کی الگ الگ درخواستیں دی گئی تھیں، جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

[pullquote]احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی[/pullquote]

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔

نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی سے 2 ہفتوں کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 15 فروری کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں 19 فروری کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ریکارڈ سمیت عدالت طلب کیا تھا، جس کے بعد وہ 22 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم بیان ریکارڈ نہیں کراسکے تھے۔

8 مارچ کو احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔

20 مارچ کو احتساب عدالت میں واجد ضیاء کی جانب سے بیان ریکارڈ کرانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا اور انہوں نے نواز شریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا ریکارڈ پیش کیا تھا جبکہ ان کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے