جاگتے کو کیسے جگائیں

جب میں چالیس پینتالیس برس پہلے اسکول میں پڑھتا تھا تو طالبِ علم شناختی کارڈ پر سرکاری بسوں میں دس پیسے کا ٹکٹ لے کر سفر کر سکتا تھا۔پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوراور کنڈیکٹر باوردی ہوتے تھے اور کنڈیکٹر ہر مسافر کو بنا مطالبہ ٹکٹ بھی دیتا تھا۔

مہینے میں ایک بار ٹرانسپورٹ ادارے یا کمپنی کا انسپکٹر بھی دورانِ سفر کسی بھی مسافر کا ٹکٹ چیک کرنے کے لیے سوار ہو جاتا تھا۔وہ نہ صرف بے ٹکٹوں کو پکڑتا بلکہ کنڈیکٹر کسی مسافر سیکرایہ وصول کرنے کے باوجود اسے ٹکٹ دینا بھول گیا ہو تو چیکنگ انسپکٹر مسافر کو ٹکٹ نہ دینے پر کنڈیکٹر کی لاگ بک میں نوٹ بھی لکھتا تھا۔

یہی نظام ریلوے میں بھی لاگو تھا۔بے ٹکٹ مسافر اور سفید وردی والے ٹی ٹی میں آنکھ مچولی جاری رہتی۔ ہتھے چڑھ گیا تو جہاں سے ٹرین روانہ ہوئی ہو وہاں سے اس منزل تک کا واؤچر معہ جرمانہ کٹ جاتا تھا جہاں بے ٹکٹ مسافر کو اترنا مقصود ہوتا۔ہر اسٹیشن پر ٹھنڈے پانی کی بڑی مشین چلتی رہتی جس سے مسافر مفت میں پینے کے لائق پانی سے بوتلیں بھر لیتے۔ہر قلی سرخا تھا اور بازو پر پیتل کی پلیٹ کا لائسنس امام ضامن کی طرح لازم باندھتا تھا۔پلیٹ فارم کے ہر خوانچہ فروش کے لیے سفید گاؤن پہننا اور ٹھیلے یا اسٹال پر وینڈنگ لائسنس نمبر لکھنا لازمی تھا۔ریلوے کی توقیر یوں بھی تھی کہ اسی میں سیاسی قیادت بھی سفر کرتی تھی۔

پی آئی اے تب بیشتر پاکستانیوں کی پہنچ سے باہر تھی۔سب سے زیادہ اندرونِ ملک فضائی ٹریفک کراچی اور ڈھاکا کے درمیان تھی اور دوطرفہ کرایہ کئی برس ڈھائی سو روپے رہا۔ہمارے سوکس ( شہریات ) کے استاد بتاتے تھے کہ پاکستان کے بیرونِ ملک دو سفیر ہوتے ہیں۔ایک وزارتِ خارجہ کا نمایندہ اور دوسرا پی آئی اے کا عملہ۔ان کی یہ بات تب بھی پلے نہ پڑتی تھی۔اب تو بالکل نہیں پڑتی۔

شہر میں کوئی کالی پیلی ٹیکسی بغیر میٹر کے نہیں دوڑ سکتی تھی۔میٹر کی سالانہ انسپکشن ہوتی اور ہر انسپکشن کے بعد میٹر سے لٹکے نئے ٹیگ پر انسپکشن کی تاریخ درج ہوتی تھی۔ زائد یا منہ بولا کرایہ طلب کرنے یا سواری کو بٹھانے سے انکار کی صورت میں ٹریفک پولیس کے سپاہی کے پاس شکائیت سننے اور چالان کاٹنے کا اختیار تھا۔اگر رکشے ، ٹیکسی یا وین کے ڈرائیور کی کسی سے جان جاتی تو وہ یہی ٹریفک پولیس والا تھا جسے سارجنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا۔

گرمیاں شروع ہونے سے پہلے ہی بلدیات کی مچھر مار ڈی ڈی ٹی اسپرے مہم بغیر کسی کے توجہ دلائے شروع ہوجاتی۔سال میں کم ازکم دو بار کتا مار ٹیموں کا نظر آنا یقینی تھا۔گٹروں کی لمبے لمبے بانسوں سے ہفتہ وار صفائی کے لیے کسی شہری کو واویلے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔نالیاں ( بد رو ) کھلی ہوتی تھیں مگر کناروں پر بلدیاتی خاکروب اتوار کے اتوار جراثیم کش چونا ڈالتے تھے۔

محلے میں جو کنگلہ راتوں رات بنگلہ بنا لیتا ، گاڑی اور فریج خرید لیتا۔اس کی چور نگاہیں اور محلے داروں کی گول گول گھومتی پتلیاں بتا دیا کرتی تھیں کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ ایسے نودولتیوں سے غریب محلے دار اور قریب آنے کے بجائے اور فاصلہ رکھ کے ملا کرتے تھے۔

اسکول سے مراد سرکاری یا کرسچن مشنری اسکول تھا۔مشنری اسکول میں داخلہ اسٹیٹس سمبل تھا۔سرکاری اسکول غیر طبقاتی تھے۔مگر تعلیم کا معیار اس سطح کا تھا کہ اگر کوئی بچہ اسکول میں بھی پڑھنے کے باوجود شام کو ٹیوشن لیتا ہے تو ایسے بچے کو غبی طالبِ علم سمجھا جاتا۔یعنی ٹیوشن عیب کا استعارہ تھی۔

غربت زیادہ تھی مگر راشن کارڈ سفید پوشی کا ماہانہ بھرم رکھ لیتا۔کوئی بھی محمود و ایاز راشن شاپ سے آٹا ، چینی ، چاول ، صابن ، تیل ، گھی لے سکتا تھا۔مگر بنیادی طور پر یہ راشن شاپس ادنیٰ اور ادنی متوسط طبقے کے لیے بنائی گئی تھیں۔

مہنگائی کا مطلب تھا کہ کوئی شے سو روپے کے بجائے آج سے ایک سو دس روپے میں مل رہی ہے۔مگر اس ایک سو دس روپے کی شے کو ایک سو بیس روپے کے ہونے میں کم ازکم ایک برس لگ جاتا۔پاکستانی معیشت حجم کے اعتبار سے اتنی بڑی نہیں تھی مگر صنعتی ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔دولت کی طبقاتی تقسیم بھی آج جیسی ہی تھی مگر میری یادداشت میں ڈالر کا مطلب برسوں تک نو روپے اور پاؤنڈ کا مطلب پندرہ سے ساڑھے پندرہ روپے کے درمیان رہا۔

اسٹیفن ہاکنگ کا نظریہ ہے کہ ماضی تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ماضی میں جایا جا سکتا ہے الا یہ کہ آپ یادوں کی چاند گاڑی میں سوار ہو کر گھوم لیں۔البتہ حال کے ذریعے مستقبل ضرور بدلا جا سکتا ہے۔اس تھیوری کو میں نے ابھی ابھی دو جگہ منطبق ہوتے بچشم دیکھا۔

گذشتہ برس جب کراچی میں بوہری فرقے کا مہینے بھر کا عالمی اجتماع ہوا تو سب سے گنجان کاروباری و ٹرانسپورٹ مرکز صدر میں ایمپریس مارکیٹ اور اس سے متصل سڑکوں اور گلیوں کو تجاوزات اور غیر قانونی پارکنگ سے ایسے صاف کردیا گیا کہ ایک رو کی سڑک میں سے تین رو اور دریافت ہو گئیں۔

دوکانیں جب پانچ پانچ فٹ اندر ہو گئیں تب پتہ چلا کہ صدر میں چلنے کے لیے فٹ پاتھ بھی ہوتے ہیں۔ابلتے گٹر قصہِ پارینہ ہوگئے ، صبح شام باوردی خاکروب اور ان کی گاڑیاں تلاش کرتیں کہ کہیں کوئی کچرا یا پان کی پیک پھیلی نظر نہ آجائے۔کوئی چوک ٹریفک پولیس سے خالی نہ تھا۔یکطرفہ ٹریفک یکطرفہ ہی چل رہا تھا۔بسیں ٹریفک سارجنٹ کی گالی پر نہیں بلکہ خود بخود مقررہ اسٹاپ پر رک رہی تھیں۔

دوسرا منظر پچھلے ہفتے بھر دیکھا جب پاکستان سپر لیگ کے فائنل میچ کی میزبانی کا بار کراچی نے اٹھایا۔نیشنل اسٹیڈیم کو جانے والے تمام راستوں پر تمام متعلقہ محکموں کے کارکنان تندہی سے کام کرتے رہے۔کوئی اسٹریٹ لائٹ بجھی ہوئی نہیں تھی۔ہر شاہراہ پر کچرا خود کار طریقے سے اٹھانے والی گاڑی کی برقی جھاڑو گھوم رہی تھی۔کسی موٹر سائیکل سوار کو جرات نہیں تھی کہ وہ ٹریفک کو روکنے والے عارضی آہنی جنگلوں کو ہٹانے یا اولانگھنے کی کوشش کرے۔پولیس بہت تمیز سے سنیپ چیکنگ کر رہی تھی۔

کل جب پی ایس ایل فائنل سے فراغت ملی تو لوگ ویسے ہی ہو گئے جیسے کے ہیں اور ریاستی ادارے بھی ہفتے بھر کی مستعدی سے چڑھنے والی تھکن اتارنے کے لیے پہلے کی طرح چادر تان کے سو مرے۔ٹریفک سارجنٹ ایک بار پھر سائیڈ پر ہوگیا یہ سوچ کر کہ موٹر سائیکل سوار بدتمیز لونڈوں اور ویگنوں کے جاہل ڈرائیوروں کے منہ کیا لگنا۔
مطلب اس پورے باتصویر خطبے کا کیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ ہم چاہیں تو انھی وسائل و مسائل کے ہوتے بھی پہلے کی طرح سب بہتر کر سکتے ہیں۔مگر ہم بحیثیت ریاست یا قوم اب صرف ٹاک شو ہی کرنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوتے کوجگانابہت آسان ہے جاگتے کو کیسے جگائیں…

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے