سینیٹ میں بلوچ

”لیز پر آئے وزیراعظم‘‘ جناب شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دو تین دنوں سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے بارے میں فرمایا ”سنجرانی کے لئے ووٹ خریدے گئے۔ ان کی عوام میں عزت نہیں‘‘۔ پہلے تو اس بات پر غورکرنا چاہئے کہ وزیراعظم نے یہ کہاں سراغ لگایا کہ سنجرانی صاحب کے لئے ووٹ خریدے گئے؟ اور عوام میں ان کی عزت نہیں۔ مزید فرمایا ”نیا متفقہ چیئرمین سینیٹ لایا جائے‘‘۔ میں نے یہ سارا کھیل اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا ہے۔ کون سنجرانی صاحب کو ووٹ دے رہا تھا اور بلامعاوضہ دے رہا تھا۔غالباً گزشتہ ساڑھے چار سال کی حکومت نے‘ بقدرِ ضرورت ووٹ حاصل کئے۔ مجھے نہیں پتا کہ انہوں نے ووٹ خریدے یا نہیں؟ لیکن یہ حقیقت تمام باخبر حلقوں کے علم میں ہے کہ پاکستان میں ووٹ کون خریدتا ہے؟ انہوں نے نہ تو خود جا کر اپنے لئے ووٹ مانگے اور نہ وہ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کے سربراہ کے پاس گئے۔

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب محدود ووٹوں پر ہوتا ہے۔ یعنی جو سیاست دان‘ چیئرمین سینیٹ کے لئے‘ مخصوص ووٹوں میں سے اکثریت حاصل کرتا ہے‘ چیئرمین منتخب ہو جاتا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے‘ (ن) لیگ نے بعض وجوہ کی بنا پر‘ چیئرمین شپ کے لئے اپنا امیدوار ہی نامزد نہیں کیا تھا۔ ووٹنگ کے دن‘ سہ پہر تین بجے تک (ن) لیگ ووٹوں کی تلاش میں تراپڑ تراپڑ کرتی پھر رہی تھی۔ بھاگم بھاگ راجہ ظفر الحق امیدوار کی صورت میں سامنے آئے۔ ان کی حمایت میں وزیراعظم میدان میں نکلے یا نہیں نکلے؟ وہ صرف ایک دن پہلے کوئٹہ گئے۔ وہاں کے ووٹروں کو طلب فرما کے‘ واپس پتا نہیں کہاں چلے گئے؟ سارا بوجھ مختلف مقدمات میں الجھے ہوئے ”اصل‘‘ وزیراعظم کے کندھوں پر تھا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنی پارٹی کے تمام ووٹروں کو پابند کر دیا کہ وہ صرف بلوچستان کے‘ حمایت یافتہ پینل کو ووٹ دیں۔ تحریک انصاف کے ووٹروں کی خرید و فروخت نہیں ہوتی۔ جس کی نیت خود فروشی پر مائل ہو‘ وہ کھلی دکانوں پر چلے جاتے ہیں اور قیمت وصول کر کے خاموشی سے‘ سینیٹ کے ہال سے باہر نکل جاتے ہیں۔

بلوچستان کے تمام ووٹروں کے خریدار ( اگر تھے) تحریک انصاف کے سوا‘ باقی سارے ووٹروں کے ساتھ سودے بازیاں کر رہے تھے۔ ایک فریق نے تو دعویٰ بھی کر دیا کہ میں نے پہلے سے‘ ووٹوں کا بندوبست کر رکھا تھا اور میں اپنے دعوے کے مطابق جیت گیا۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ووٹ نہیں ملے۔ (ن) لیگ نے بھی دیگر امیدواروں کی طرح بھاگ دوڑ کی۔ لیکن اس بھاگ دوڑ کا فائدہ؟ کسی کو امیدوار کا ہی پتا نہیں تھا۔ راجہ ظفر الحق کو بڑی تاخیر سے امیدوار بنایا گیا۔ ان کی حمایت کے لئے وقت ہی نہیں تھا۔ حیرت ہے وزیراعظم کو صورت حال کا کچھ پتا نہ تھا۔ اپنی پارٹی کے امیدوار کی مدد کرنا وزیراعظم کا فرض تھا۔ آخری وقت پر خود میاں صاحب کو بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ حیرت یہ ہے کہ ”لیز کے وزیراعظم‘‘ جوکامیاب امیدواروں پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں‘ کیا وہ نااہل وزیراعظم کو بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کتنے ووٹروں سے براہ راست‘ اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ مانگے؟ مجھے تو شبہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ مانگے بھی تھے یا نہیں؟

نو منتخب چیئرمین سینیٹ کو صرف دو پارٹیوں سے رابطہ قائم کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے ووٹ‘ پارٹی پالیسی کے مطابق‘ چیئرمین کے حق میں طے کر دئیے گئے تھے۔ اب صرف پیپلز پارٹی رہ گئی تھی۔ اس کے لئے جو کچھ کیا‘ وہ آصف زرداری نے کیا۔ زرداری صاحب نے کچھ نہیں چھپایا۔ انہوں نے اپنے پرانے اعلانات کے ”چند ٹوٹے‘‘ سنا کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ سینیٹ کے انتخابی نتائج کا بندوبست‘ وہ پہلے کر چکے ہیں۔ وزیراعظم کو شاید علم ہی نہیں کہ ووٹ کیسے مانگے جاتے ہیں؟ اگر ہمت کر کے انہوں نے اپنے امیدواروں کے حق میں مہم چلائی ہوتی‘ تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ووٹروں کی منڈی میں‘ اپنے حصے کا کام نہ کر پاتے۔ میاں نواز شریف بلاوجہ سیخ پا ہو رہے ہیں۔ انہیں صرف دو باتوں پر توجہ دینا چاہئے۔ اوّل یہ کہ وہ مقدمات میں الجھے ہوئے تھے۔ ان کے پاس سینیٹ کے لئے ووٹ مانگنے کا وقت نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کو ووٹ بٹورنے کے گُر ہی نہیں سکھائے تھے۔ وزیراعظم صرف کرائے کے دفتر میں بیٹھے ہیں۔

انہیں معلوم ہے کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی‘ نئی ٹیم آجائے گی۔ غالباً اسی لئے انہوں نے دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کا راستہ کھلا چھوڑ دیا۔ ایک بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وزیراعظم جب کوئٹہ گئے تو انہوں نے اپنے امیدواروں کے لئے واضح الفاظ میں ووٹ نہیں مانگے تھے۔ آخر میں ایک بات کہ جب سے سینیٹ قائم ہوا ہے‘ بلوچستان کو کبھی چیئرمین کا منصب نہیں ملا۔ یہ تو سیاسی ضرورتیں تھیں‘ جن کے تحت بلوچستان کو چیئرمین کا منصب مل گیا۔ نئے چیئرمین پُرعزم بھی ہیں اور کچھ کرنے کے دکھانے کے خواہش مند بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے