جنگ رہے اور امن بھی ہو

زیر نظر کالم‘ عالمی امور کے ایک ماہر کے تجزیے سے اخذ کردہ ہے۔ اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ روایتی جنگوں میں مقابلہ آرائی اب ردّی پتوں کی طرح ہوچکی ہے۔ اس میں عہدِ حاضر کی چار بڑی طاقتوں کی باہمی کشمکش اور مقابلہ آرائی تو موجود ہے لیکن ایٹمی تصادم کا دور دور تک پتا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔

”نئی عالمی مسابقت کی بساط پر ایشیا‘ خاص طور پر بھارت ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرا ہے۔ اس بساط کے ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی تو دوسری طرف چین اور روس ہیں۔ ان عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کے درمیان‘ بھارت ایک عظیم طاقت بننے پر کمر بستہ ہے۔

بھارت امید رکھتا ہے کہ آنے والے دنوں میں‘ وہ ایک خوش حال اور طاقتور ملک بن کر دنیا کے تمام کونوں میں‘ اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ڈوکلام پر چین اور کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کشمکش نے‘ نئی دلّی کو اپنے آپشنز واضح کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تیزی سے تبدیلی ہوتی دنیا میں‘ یہ کشمکش بھارت کی ترقی کے ارتقائی مراحل پر کچھ سوال اٹھاتی ہے۔ تاریخی اور جغرافیائی معروضات نے‘ اس کی حکمت عملی اور تزویراتی مقاصد کو‘ ایک مخصوص جہت دی ہے۔ برصغیر میں اس کا حجم‘ اس کی وسیع آبادی اور ثقافتی تنوع‘ اس کی عالمی حیثیت بننے کی ترغیب دیتے ہیں؛ تاہم یہ کبھی دنیا کے دیگر علاقوں پر اپنا سیاسی تسلط قائم نہیں کر پایا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ موریا‘ گپتا اور مغل ادوار کے علاوہ کبھی بھی‘ سیاسی طور پر بھارت ایک متحد ملک نہیں رہا۔ مغل دور کے بعد انڈیا برطانوی تسلط میں چلا گیا۔ برطانوی استعمار نے بھارتی تاریخ پر دو اثرات مرتب کیے۔ ایک نو آبادیاتی نظام اور دوسرا قوم پرستی۔ نو آبادیاتی نظام کے دوران‘ جہاں نسل پرستی کا فروغ اور استحصال دیکھنے میں آیا‘ وہاں اس نے جدید شہری ریاست کی بنیاد بھی رکھی۔ گاندھی جی کی قیادت میں‘ عدم تشدد کی تحریک بیدار ہوئی۔ بھارت کی قوم پرستی کو‘ مسلم قوم پرستی کا چیلنج درپیش ہوا جس کی قیادت محمد علی جناحؒ نے کی۔ انہوں نے مذہبی شناخت کی بنیاد پر‘ ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ ان دونوں قوموں کے درمیان تنائو سیاسی رنگ اختیار کر گیا یہاں تک 1947ء میں بھارت اور پاکستان کی ریاستیں وجود میں آئیں۔

1947ء کے بعد سے بھارت کے تین بڑے سیاسی جغرافیائی مقاصد سامنے آئے۔ ان میں سے دو مقاصد وہی ہیں جو تمام ریاستیں رکھتی ہیں:

سیکورٹی اور خوشحالی۔ بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی1.3 بلین آبادی کا تحفظ کرے۔ جدید ریاست بننے کے لیے اپنی کثیر آبادی کو غربت کی زنجیروں سے بھی نجات دلائے؛ تاہم تیسرا ہدف منفرد اور غیر معمولی ہے۔ اس کا تعلق بھارت کے ماضی سے ہے۔ یہ اپنی قدیم روایات کے مطابق‘ خطے کی تہذیب پر اثر انداز ہونے کا عزم رکھتا ہے۔ یہ ہدف اسے چین‘ امریکہ اور روس سے مختلف ریاست بناتے ہیں۔ ان اہداف کے حصول کے لیے ایک عظیم حکمت عملی درکار ہے۔ اس کے لیے بھارت کو اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ فوجی‘ سیاسی اور معاشی ترقی پر صرف کرنا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے طویل عرصے سے جاری غیر جانبدار تحریک سے وابستگی کو ترک کر کے‘ عالمی سیاسی اکھاڑے میں ایک فریق بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

اب یہ علانیہ طور پر امریکی کیمپ میں ہے۔ تمام عالمی طاقتیں حلقے میں اپنا تسلط چاہتی ہیں۔ تاریخی طور پر کسی ریاست کے لیے ماضی کا بوجھ اٹھا کر عظیم طاقت بننا‘ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بھارت علاقائی بالادستی ضرور چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اسے ایشیائی بحر الکاہل پر اپنا اثر قائم کرنا ہو گا۔ یہاں اس کا تنائو خطے کی دیگر طاقتوں سے ہے۔ بھارت نے اپنی ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ غیر دوستانہ برتائو روا رکھا۔ ماضی میں اس کا اہم حریف پاکستان‘ امریکی الائنس میں شامل تھا۔ آج بھارت‘ امریکی الائنس میں ہے تو پاکستان‘ چین کے کیمپ میں ہے۔ اس طرح تنائو کی لکیر واضح ہو چکی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اب تک بھارت علاقائی بالادستی قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اگرچہ خطے کی چھوٹی ریاستیں‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا اس کے اثرکے سامنے مزاحمت نہیں کر سکتیں۔ آج کل یہ ریاستیں بھی چین کی طرف ہاتھ بڑھا رہی ہیں۔ جہاں تک اس کے روایتی حریف اور جوہری طاقت‘ پاکستان کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف طاقتور فوج رکھتا ہے بلکہ بیجنگ کے ساتھ کھڑا ہے۔ چنانچہ بھارت اس پر اپنا اثر جمانے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے؛ تاہم نیپال‘ بھوٹان اور مالدیپ کافی مدت سے بھارت کے سائے میں زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

اس وقت نیپال‘ بھارت کے سائے سے نکل کر چین کی طرف بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ آنے والے عشروں میں بھارت کی حکمت عملی سہ جہتی ہو گی۔ اس کا تعلق امریکہ‘ چین اور پاکستان سے ہو گا۔ انہی ممالک کے ساتھ‘ بھارتی رویہ یا ردعمل ایشیا میں طاقت کے توازن کے خدوخال طے کرے گا۔ ان ممالک کے باہمی تعلقات پر تبدیل ہوتے ہوئے عالمی معروضات یقینا اثر انداز ہوں گے۔ پاکستان کے ساتھ ثقافتی یکسانیت کے باوجود‘ بھارت اس کا روایتی حریف مانا جاتا ہے۔ یہ ریاستیں ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں؛ تاہم ان کی دشمنی نئی نہیں۔ اس کا تعلق نو آبادیاتی دور سے ہے۔ ان کے درمیان تنائو کا تعلق صرف کشمیر سے نہیں بلکہ اس میں نظریاتی اور تیزی سے گہرے ہوتے ہوئے مذہبی معروضات بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں اور یہ مذہبی عوامل دو طرفہ ہیں۔

اگرچہ جوہری ڈیٹرنس کے بعد تنائو میں کمی آنی چاہیے تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان پر الزام ہے کہ وہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو ہوا دیتا ہے۔ عموماً یہ بات مانی جاتی ہے کہ بھارت اپنی فوجی طاقت سے‘ پاکستان کو ڈرانے میں ناکام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی افسران بھی غیر فوجی ذرائع استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان پراکسی دستوں کے دو طرفہ استعمال سے جوہری تصادم کے خطرے سے بھی بچا جاتا ہے۔ اس جنگ کی آنچ اتنی دھیمی رکھی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے سرحدیں پار کرنے تک نوبت نہیں آتی۔

اگرچہ اس کا تاثر ضرور دیا جاتا ہے لیکن یہ صورتحال امن اور خوشحالی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ نئی دلّی میں چین کو ایک جارح طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خیا ل کیا جاتا ہے کہ چین‘ پاکستان کے میزائل پروگرام میں عملی تعاون کرتا ہے۔ چین‘ پاکستان میں سی پیک منصوبے پر 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت اس سرمایہ کاری کو ایک اہم تزویراتی چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک بھارت جنگوں میں چین بہت حد تک غیر جانبدار رہا۔ اور پھر اپنے سے پانچ گنا بڑی معیشت رکھنے والے ملک کے ساتھ‘ براہ راست معاشی اور تزویراتی ٹکرائو کے نتائج‘ بھارت کے حق میں نہیں ہوں گے۔ پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے بھارت کے ہاتھ میں کچھ پتے موجود ہیں لیکن ایسے پتے چین کے ساتھ تنائو کی بساط پر دستیاب نہیں؛ تاہم امریکہ اور اس کے اتحادی‘ بھارت کو چین کی حد بندی تک محدود رکھنے کی پالیسی کا ایک اہم مہرہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت یہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اگر امریکہ کو بھارت کے ساتھ کھڑا دیکھا جائے تو چین کومحدود کرنا کوئی مشکل دکھائی نہیں دیتا؛ تاہم یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے۔ اس وقت امریکہ واحد عالمی طاقت ہے۔ چین اس کا حریف ہے لیکن پیچیدگی یہ ہے کہ چین اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ تاریخ میں کبھی دو ریاستوں کے درمیان اس حجم کی تجارت کی مثال نہیں ملتی۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی مفادات اور بھارتی مفادات میں دو ٹوک مماثلت موجود نہیں ہو گی۔ امریکہ‘ پاکستان کے ساتھ بھی مفادات رکھتا ہے۔ اس دوران امریکہ‘ ایران کے خلاف دشمنی رکھتا ہے۔ ایران‘ بھارت کے قریب آتا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میںروس اور امریکہ کے درمیان تنائو سرد جنگ کے دور کی یاد دلاتا ہے لیکن بھارت‘ روسی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ آخرمیں بھارت کے پاس دستیاب وسائل اس تصادم سے گریز کرنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ جب تک بھارت معاشی خوشحالی حاصل نہیں کرتا‘ یہ اپنے عزائم سے دستبردار ہو جائے تو بہتر ہے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے