تینوں غیر نظریاتی

ہمارے ایک دوست یونیورسٹی میں استاد ہیں، اکثر اوقات سماجی موضوعات پر تحقیق میں مصروف رہتے ہیں، پچھلے سال لاہور کے حلقہ این اے 120میں ضمنی الیکشن سے چند روز قبل اس ناچیز نے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’تینوں میں کوئی فرق نہیں‘‘ اس کالم میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن)، تحریک ِ انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے قول و فعل میں تضاد سے جمہوری نظام کمزور ہو رہاہے، تینوں جماعتوں میں اصولوں کی خاطر ڈٹ جانے کی ہمت نہیں لیکن تینوں میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہتی ہیں اور اگر آپ ایک پر تنقید کریں تو وہ آپ کو دوسرے کا ’’زرخرید‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔

اس کالم میں یہ بھی کہا گیا کہ جو کچھ نواز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ ہوچکا، وہ دنیا نے دیکھ لیا کہیں تیسرے کا انجام بھی انہی دونوں جیسا نہ ہو۔ اس کالم کے شائع ہونے پر میر ے دوست پروفیسر نے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ کئی دن سے اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ این اے 120میں ووٹروں کے نظریاتی رجحانات پر تحقیق کر رہا ہے اور اسے یہ جان کر حیرت ہوئی ہے کہ پاکستان کے دل لاہور میں قومی اسمبلی کے اس حلقے کے اکثر ووٹروں کو اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے نظریے کا کچھ علم نہیں، وہ یا تو کسی کی نفرت اور محبت کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں یا اسے ووٹ دیتے ہیں جو ان کے گلی محلے کے مسائل حل کرتاہے اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو پیسے لے کر ووٹ دیںگے۔

ہمارے دوست کی یہ تحقیق ایک خالص تدریسی سرگرمی تھی لہٰذا لوگوں نے ان کے ساتھ کھل کر بات کی۔ پروفیسر صاحب نے این اے 120کے ایک ایسے خاندان سے بھی ملاقات کی جس کے تین افراد نے مسلم لیگ (ن) ، ایک نے تحریک ِ انصاف اور ایک نے پیپلزپارٹی کو ووٹ بیچا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ووٹ کیوں بیچتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ بڑی جماعتیں پیسے والوں کو اپنا ٹکٹ دیتی ہیں تاکہ وہ حکومت میں آ کر مزید پیسہ بنائیں، تو پھر ہم پیسے کیوں نہ کمائیں؟ ہمارے پروفیسر دوست کا خیال تھا کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر جمہوریت کو مضبوط نہ کیااور نظریاتی لوگوں کو اہمیت نہ دی تو اگلے چند سال میں یہ جماعتیں مزید کمزور ہوجائیں گی اور ان کی جگہ نئی جماعتیں آجائیں گی۔ میں نے ازرا ہِ تفنن پوچھا کہ کیا ہر طرف پاک سرزمین پارٹی چھا جائے گی؟ تو دوست نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی پارٹیوں کا انجام مسلم لیگ (ق) سے مختلف نہیں ہوسکتا لیکن بڑی جماعتوں کے کمزور ہونے سے علاقائی، لسانی اور فرقہ وارانہ جماعتیں مضبوط ہوں گی۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کمزورکرنے میں ریاستی اداروںکا اہم کرداررہا ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پابندی لگائی گئی۔ جنرل ضیاءالحق نے پیپلزپارٹی کو کمزورکرنے کے لئے غیرجماعتی انتخابات کرائے۔ ان غیرجماعتی انتخابات کے بطن سے سے محمد خان جونیجو نے ایک نئی مسلم لیگ پیدا کرلی لیکن جنرل ضیاءالحق کو یہ مسلم لیگ بھی نہ بھائی اور انہوں نے جونیجو حکومت برطرف کرکے مسلم لیگ (ن) کے قیام کی راہ ہموار کی۔ جب مسلم لیگ (ن) سے دل بھر گیا تو جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) بنا ڈالی اور اب نون اور ق لیگ میں سے ایک اور جماعت نکال کر کوئٹہ میں کھڑی کردی گئی ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس نئی کنگز پارٹی کا مقام وہی ہوگا جو 1990 میں ن لیگ اور 2002میں ق لیگ کا تھا۔ اسی قسم کا ایک انقلاب بہت جلد پنجاب میں بھی آنے والا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اندر بے چینی عروج پرہے۔

پچھلے چند ماہ میں نواز شریف کے ہم نوائوں نے قوم پر ایک نئے مزاحمتی بیانیے کی دھاک بٹھائی اوردعوے کئے کہ نواز شریف کا بیانیہ ایک انقلاب کی نوید بن چکا ہے۔یہ بیانیہ دراصل پاکستان کی فوج اور عدلیہ پر مختلف نوعیت کے الزامات پر مشتمل تھا۔ جب بھی کسی نے نواز شریف کو یاد دلایا کہ ماضی میں آپ خود بھی فوج اور عدلیہ کے ساتھ مل کر جمہوریت کے خلاف سازش کرتے رہے ہیں، تو نواز شریف کے حامیوں نےایسے گستاخوں کو انتہائی غلیظ گالیوں سے نوازااور ثابت کیاکہ وہ گالی گلوچ میں تحریک ِ انصاف والوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ افسوس کہ اس گالی گلوچ بریگیڈ کی قیادت ایک خاتون کے پاس ہے۔ جس کسی نے بھی خاتون سے گزارش کی کہ سیاسی بیانیہ سازشی مفروضوں کے بجائے ٹھوس سیاسی حکمت ِ عملی کو سامنے رکھ کر بنایا جائے تو اسے بوٹ پالشیا اور بابا رحمتے کا وظیفہ خوار قرار دیا گیا۔

جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میڈیا پر یہ کہا کہ انہوں نےاپنے وزرا کو ہدایت کی ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی نہ کریں تو ناگواری کا اظہار کیاگیا۔ پھر اسی شریف آدمی کو قومی اسمبلی کے فلور پر یہ کہنا پڑا کہ ہم ایوان میں ججوں کاکنڈکٹ زیربحث لائیں گے۔ ایک طرف ججوں پرالزامات لگائے جارہے تھے، دوسری طرف اعلیٰ فوجی افسران سے رابطے کئے جارہے تھے۔ جب فوجی قیادت نے واضح کر دیا کہ وہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے، تو پھر شاہد خاقان عباسی کو چیف جسٹس کے پاس بھیج دیاگیا۔ اس ملاقات کے بارے میں سپریم کورٹ کااعلامیہ سامنے آچکا ہے لیکن ایک اعلامیہ وہ ہے جو آپ کو صرف اور صرف اس ملاقات کے بارے میں عام لوگوں کی مسکراہٹوں میں نظر آئے گا۔ ان مسکراہٹوں کے پیچھے آپ کو ایک بہت بڑے بیانیے کی عمارت زمین بوس ہوتی نظر آئے گی کیونکہ اس عمارت کی بنیادیں نظریاتی طور پر بہت کمزور تھیں۔ نظریاتی لوگ صبح صبح ججوں کو سازشی مہرے قرار دے کر شام کو اپنا بندہ ان سے ملاقات کے لئے نہیں بھیجتے۔

اس ملاقات کی ٹائمنگ نے اسے غیرمعمولی بنا دیا ہے لیکن اس غیرمعمولی ملاقات کے نتیجے میں کوئی سیزفائر ہو جائے تو یہ خوش آئند ہوگا۔ اس ملاقات نے شہباز شریف کو صحیح اور نوازشریف کو غلط ثابت کیا۔ اداروں سے محاذ آرائی کی پالیسی ناکام ہوچکی اب اگر نواز شریف اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کررہے ہیں تو اس کا خیرمقدم کیا جاناچاہئے۔ انہوں نےاعتراف کیا کہ میموگیٹ اسکینڈل میں پیپلزپارٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست گزار بننا غلطی تھی۔ انہیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ جنرل راحیل شریف کی ناراضی کے خوف سے 2015میں آصف زرداری کے ساتھ لنچ منسوخ کرنا بھی غلط تھا۔

مشرف کو پاکستان سے فرار کرانا بھی غلطی تھی،نیوز لیکس میں پرویز رشید اور طارق فاطمی کو ان کے عہدوں سے ہٹانا بھی غلطی تھی۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کوبھی اعتراف کرلینا چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا راستہ روکنے کےلئے صادق سنجرانی کی حمایت ایک غلطی تھی اور عمران خان بھی مانیں کہ پاکستان کی ’’سب سے بڑی بیماری‘‘ کے نامزد امیدوار برائے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دے کر انہوں نے یوٹرن لیا۔ عمران خان پاور پالیٹکس کر رہے ہیں، زرداری اور نواز شریف بھی یہی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نظریاتی نہیں لیکن سب کو نظریاتی کہلوانے کا شوق ہے۔ زرداری اور عمران کو چاہئے کہ کم از کم نواز شریف کو اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت کی حمایت کریں تاکہ ہم یہ تو کہہ سکیں کہ ہمارے دوست ’’نظریاتی‘‘ نہ سہی ’’انسانیت نواز‘‘ ضرور ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے