میں آئین ہوں

میری عمر 45سال ہے،والدین نے میرا نام پاکستان کا آئین رکھا تھا۔ مجھے اس دنیا کے سامنے لانے سے پہلے آئین سازوں نے دنیا بھر کے آئین پڑھے، برطانیہ کی پارلیمانی روایات، بھارت کی فیڈریشن ،امریکہ کے صدارتی نظام اورا سکینڈے نیویا کی سوشل ڈیموکریسی کے مثبت پہلوئوں سے میری شکل ترتیب دی گئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے تصورات کے مطابق جمہوریت اور اسلام کے ملاپ سے ملک کو چلانے کا نسخہ بنایا گیا۔اس سے پہلے مسئلے بہت تھے۔ ملک کے اندر اسلام خطرے میں رہتا تھا، صوبائی خودمختاری کے نام پر مشرقی پاکستان الگ ہو چکا تھا، قومیتّوں کا مسئلہ تھا، انسانی حقوق طے کرنا تھے اور اداروں کی تشکیل کرنا تھی تاریخ کے بڑے ناموں عبدالحفیظ پیرزادہ، پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود ، کئی ججز اور قانون دانوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں میری ساخت کے ایک ایک پہلو پر غور کیا ،قومیتوں کا مسئلہ حل کیا، اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے ملک کے تمام قوانین کا اسلام کی نظرسے جائزہ لینے پر سب مکاتب فکر کے علماء کا اتفاق ہوا اور یوں پہلی دفعہ میری صورت میں پاکستان کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا۔

میرے بنانے والوں نے مجھے بہت بارعب اور بااختیار بنایا۔آرٹیکل 6کے ذریعے میری مونچھوں سے طالع آزمائوں کو ڈرانا مقصود تھا، سر پر میرے گھنے بال میری طاقت کی علامت تھے۔میری عمر ابھی 4سال ہی تھی کہ مجھے بنانے والے سیاست دان آپس میں دست وگریباں ہو گئے ،سیاست کا اتفاق رائے ٹوٹا تو جنرل ضیاء الحق مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے آ گئے، انہیں میری مونچھوں اور آرٹیکل 6کی تلوار سے سخت بیر تھا، میری مونچھیں آٹھویں ترمیم کی قینچی سے کاٹ ڈالیں اور مجھے دس سال کے لئے معطل کرکے جیل کی کوٹھری میں بند رکھا۔ 1988ءکے الیکشن کے بعد مجھے ہوش آنے لگا ،پارلیمان بحال ہوئی، جمہوریت کا ڈنکا بجنے لگا تو میں نے شعور کی آنکھ کھولنی شروع کی مگر سول ملٹری آویزش کب ختم ہوتی ہے؟ 1999ءمیں پھر سے جنرل پرویز مشرف نے آ قبضہ کیا۔ جنرل مشرف کو میرے گھنے بال بہت برے لگتے تھے۔

انہوں نے مجھے گنجا کرنے کی کوششیں دس سال جاری رکھیں اور آج میرے سر پر بال نہیں ہیں تو اسکی وجہ جنرل مشرف کا دس سالہ دور تھا جس میں اختیارات کی منتقلی اور نظام میں اکھاڑ پچھاڑ کے نام پر میری جھاڑ پونچھ کرکے رکھ دی گئی۔یوں میری 45سالہ زندگی میں سے 20سال تو مارشل لاء لے گئے گو میری عمر 45سال ہے مگر میرا تجربہ صرف 25سال ہے۔ اس لئے ہر ڈاکٹر ائن، ہر بیانیہ مجھ میں غلطی نکالتا ہے بجائے اس کے کہ میری تعمیل کی جائے مجھ کو اپنے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود بدلتے نہیں اپنے مائی باپ آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اصلی بابا، سگا باپ میں ہوں مگر یہاں ہر کوئی بابا اور باپ بننے میں لگا رہتا ہے اصلی اور سگا ہی اصل باپ ہو سکتا ہے اور وہ میں ہوں،میں سرد و گرم موسموں سے گزرتا رہتا ہوں کبھی میرا طوطی بولتا ہے تو کبھی میری زبان بندی کرکے حوالہ زنداں کر دیا جاتا ہے کبھی پوری قوم متحد ہو کر میرے سائے میں کھڑی ہوتی ہے اور کبھی مجھے رکاوٹ سمجھ کر مجھ پرطنزکے پتھر برسائے جاتے ہیں مگر جو کچھ میرے ساتھ اب ہو رہا ہے پچھلے 45سال میں کبھی نہیں ہوا۔میری تشریح کا کامل اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، اسے ہی میرے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کی اجازت ہے۔

تقریباً نصف صدی میں بڑے بڑے عظیم جج اور نامور فاضل چیف جسٹس میری گتھیاں سلجھاتے رہے جسٹس یعقوب علی خان، جسٹس انوارالحق ، جسٹس افتخار چودھری، جسٹس دراب پٹیل ،جسٹس سعید صدیقی، جسٹس محمد حلیم اور جسٹس ناصر اسلم زاہد جیسے نکتہ دان جج صاحبان بھی آئین کے وہ خفیہ احکامات دریافت نہ کر سکے جو آج کل دریافت ہو رہے ہیں۔ افتخار چودھری اپنے تمام تر عدالتی تحرک اور رعب و دبدبے کے باوجود اسپتالوں اور دفاتر کا دورہ نہ کر سکے بند کمرے میں ہی بیٹھے احکامات دیتے رہے یہ سنہری دور تو اب آیا کہ مجھ آئین سے وہ اختیارات نکالے جا رہے ہیں جن کا علم خود آئین بنانے والوں تک کو نہ تھا، یہ ہیں میرے اسرار اور میری طاقت !!آئین سازوں نے مجھے سبز اور سفید رنگ کا عوامی لباس پہنایا تھا، بڑے چائو سے اس میں انسانی آزادیوں کا احترام کیا گیا عدلیہ کو آزادی اور اختیار دیا گیا مگر ساتھ ہی ساتھ عوام کے نمائندے وزیراعظم کو ملک کا چیف ایگزیکٹو بنایا گیا۔

انتظامیہ کو اختیار تھا کہ وہ کسی جج کے احتساب کے لئے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھیج سکتی تھی۔ جسٹس افتخار چوہدری کے مقدمے کے بعد عملی طور پر حکومت کا یہ اختیار ختم ہو گیا ہے گویا کوئی بھی شخص آئین میں حاصل حق کے باوجود چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا احتساب نہیں کر سکتا، اسے ہٹا بھی نہیں سکتا بلکہ اسے ہٹانے کا آئینی طریقہ کار ایک طرح سے معطل کر دیا گیا ہے، بالکل اسی طرح جب مجھے بنایا گیا تو طے ہوا تھا کہ وزیر اعظم فوج کا سربراہ بنائے گا اور وہ اسے گھر بھی بھیج سکے گا مگر جنرل مشرف کے واقعے کے بعد آرمی چیف کو گھر بھیجنے کی آئینی شق عملاً مردہ اور متروک ہو چکی ہے۔ دوسری طرف دیکھیں کہ وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے لئے مجھ آئین میں دو طریقے درج ہیں ایک عدم اعتماد اور دوسرا وزیر اعظم کا استعفیٰ ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیر اعظم اور چیف ایگزیکٹو کو ہٹانے کے لئے آرٹیکل 184استعمال ہوا جو کہ رٹ پٹیشن کرنےکے لئے آئین میں شامل کیا گیا تھا یعنی میرا مذاق اس طرح اڑایا گیا ہے کہ میرے چیف ایگزیکٹو کو تو عدلیہ گھر بھیجے گی لیکن چیف ایگزیکٹو اپنے ماتحت اداروں عدلیہ اور فوج کے سربراہوں کو گھر نہیں بھیج سکتا۔ ایں چہ بوالعجبی است….

اب میری اٹھارہویں ترمیم پر اختلاف کے بہانے مجھ پر سوال اٹھائے جاتے ہیں حالانکہ میری تعمیر و تشکیل میں ماضی کے آئینی اور قانونی تجربات کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ 1935کے انڈیا ایکٹ کو سامنے رکھاگیا، 1947ء کے علیحدگی کے حکم نامے پر غور کیا گیا، قراردادِ مقاصد کو مجھ میں سمویا گیا، 1956ء کے آئین کو اس کے پس منظر میں جانچاگیا، آخر کیا ہوا تھا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت ہونے کے باوجود انہوں نے مغربی پاکستان سے برابری کی بنیاد قبول کر لی تھی پھر یہ آئین کیوں منسوخ ہوا۔ ایوب خان کے صدارتی نظام کے محاسن اور نقائص سے بھی سیکھا گیا اور یوں میری یعنی آئین پاکستان کی تشکیل ہوئی۔ سو مجھ پر تنقید کرنے والو!!

میری سنہری تاریخ دیکھ لو میں اِدھر ڈوبتا ہوں تو اُدھر سے جا نکلتا ہوں۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال دستوری حکومت کے حق میں تھے۔ دستوری یا آئینی حکومت ہی ملک کو آگے لے جا سکتی ہے۔ مجھے کام کرنے سے روکنے والے بے نام ہو جاتے ہیں اور میری حفاظت کرنے والے پھانسی پا کر اور جیل جا کر بھی نام پاتے ہیں۔ میرے قدموں میں جھکنے والے محترم قرار پاتے ہیں اور میرے خلاف چلنے والے کبھی مفرور اور کبھی مجرم قرار دیئے جاتے ہیں۔ میں آئین ہوں، آئین۔ اس ملک میں میری ہی حکومت چلنی ہے چھیڑ چھاڑ کرنے والے جان لیں کہ ایک دن آپ کو اس جرم پر سزا ملے گی۔ اگرچہ جرنیلوں، ججوں اور حکمرانوں نے مجھ پر حلف اٹھایا ہے، قسم کھائی ہے تو میری فرمانبرداری کیوں نہیں کرتے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے