کراچی بدل گیا ہے لیکن ….

کافی عرصہ بعد کراچی جانا ہوا تھا لیکن مختصر قیام کے باوجود کافی حد تک ایجوکیٹ ہوکر واپس لوٹا۔ جاتے ہوئے فاروق ستار صاحب جہاز میں ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے اور دوران سفر کراچی اور ایم کیوایم کی حالت پر خوب گپ شپ ہوئی ۔ ان کے دست راست کامران ٹیسوری ہوٹل ملنے آئے اور اپنے موقف سے آگاہ کیا۔بہادر آباد گروپ کے روح رواں اور بھائیوں جیسے دوست فیصل سبزواری کافی عرصے بعد گلےشکوئو ں سے بھرپور مگر طویل گپ شپ ہوئی ۔

عزیز دوست اوربھائی مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی مہمان نوازی سے بھی مستفید ہوا اور پاک سرزمین کے حالات کے علاوہ پاک سرزمین پارٹی کے حال اور مستقبل پر بھی خوب بات ہوئی۔ وسیم اختر صاحب سے کے ایم سی کے معاملات پر گفتگو کا موقع ملا۔ شاہی سید صاحب کے گھر ان کے چٹکلوں اور وہاں پر موجودہ اسفندیار ولی خان کی سنجیدہ گفتگو سے مستفید ہوا ۔ حسب عادت شاہد آفریدی لالہ نے گھر پُرتکلف کھانا رکھا جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور صاحب اور ایک چینل کے مالک کا کراچی سے متعلق نقطہ نظر سننے کو ملا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ ادریس بختیار اور مظہر عباس جیسے آئیڈیل اور کراچی کے نبض شناس صحافیوں نے کراچی کی سیاست کے اسرارورموز سمجھادئیے۔ نجم سیٹھی صاحب کی مہربانی سے چیئرمین باکس میں وزیراعظم پاکستان، کور کمانڈرکراچی لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا،کورکمانڈر پنڈی لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا ، ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید اور جی او سی 25ڈویژن ملیر میجر جنرل زاہد محمودکے ساتھ بیٹھ کر پی ایس ایل کے فائنل سے لطف اٹھایا۔

دلچسپ امر یہ تھا کہ صرف میجر جنرل زاہد محمود اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل اسلام آباد یونائیٹڈ کے حامی تھے جبکہ ان کے علاوہ چیئرمین باکس میں بیٹھے ہوئے باقی سب لوگ پشاور زلمی کے ساتھ تھے۔البتہ وزیراعظم صاحب اور کورکمانڈر صاحب نے آخری وقت تک یہ ظاہر ہونے نہیں دیا کہ ان کی ہمدردیاں کس ٹیم کے ساتھ ہیں ۔جب پشاور زلمی کی پوزیشن خراب ہونے لگی تو مفتاح اسماعیل صاحب اپنی نشست پر کھڑے ہوکر مجھ پر طنز کے تیر چلانے لگے ۔ پشاور زلمی کی ٹیم ہار کے قریب ہوئی اور مفتاح صاحب نے میرے ساتھ طنز بھری ہمدردی کا اظہار کیا تو جواباً عرض کیا کہ فکر نہ کریں۔ ہمیں نوازشریف صاحب نے رستہ دکھا دیا ہے۔ ہم پشاور والے بھی میچ کا فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے ۔

ہماری ہار کا مطلب یہ ہوگا کہ وزیراعظم یا کسی اور کے اشارے پر امپائر اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ مل گیا ہے ۔ ہم ہار نہیں مانیں گے اور اپنا مقدمہ عوام یعنی تماشائیوں کے پاس لے جائیں گے جہاں ہماری یعنی پشاور زلمی کی اکثریت ہے ۔ اس پر پورے باکس میں زوردار قہقہہ لگا اور مفتاح اسماعیل صاحب کا محبت بھرا طنز بھی اختتام کو پہنچا۔ یہاں کورکمانڈر جنرل شاہد بیگ مرزا اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید نے اگلے روز دفتر آکر ملنے کا حکم دیا ۔ اگلے روز دونوں سے ان کے دفاتر میں الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں نے کراچی اور سندھ سے متعلق بعض ایسے چشم کشا حقائق بتائے کہ میں حیرت زدہ رہ گیا۔

عسکری حوالوں سے کراچی کا کنٹرول اس وقت ان فوجی افسران کے پاس ہے جو مغربی محاذوں پر طالبان کے ساتھ جنگ کو بھی کمانڈ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاچکے ہیں ۔ میجر جنرل زاہد محمود تو باجوڑ آپریشن کے موقع پر ایک ٹانگ سے بھی محروم ہوگئے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ معذوری انہوں نے اپنے عزم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دی اور پہلے سے بہتر انداز میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں ۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کراچی کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، اس کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا اورمیجر جنرل محمد سعید منطقی انجام تک پہنچا رہے ہیں بلکہ اس میں ایک کی بے انتہا شرافت اور دوسرے کی دانشوری کا رنگ بھی شامل ہوگیاہے اوریوں ماضی کی بنسبت عسکری ادارے زیادہ عوامی انداز میں کام کرتے نظر آرہے ہیں ۔

کراچی کو امن لوٹانے میں عسکری اداروں کی منصوبہ بندی اور قربانیوں کا کلیدی کردار لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کشادہ دلی کے لئے مشہور کراچی کے باسیوں نے پہلے جس طرح دہشت اور وحشت کا بہادری کے ساتھ سامنا کیا اور اب جس طرح سیکورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ، وہ رویہ بھی کراچی کی روشنیوں کو لوٹانے میں بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔ ان لوگوں کی صفوں میں کتنی نفرتیں بانٹی گئیں لیکن وہ آج بھی محبتوں کو بانٹنے والے ہیں ۔ لسانی بنیادوں پر ان کو تقسیم کرنے کی کتنی سازشیں ہوئیں لیکن ان کی وطن پرستی دیکھ لیجئے کہ پشاور اور اسلام آباد کی ٹیموں کے مابین میچ کو دیکھ کر وہ پشاور اور اسلام آباد والوں سے زیادہ پرجوش تھے۔شاہد آفریدی کی تصویر کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہوئے اردو بولنے والے یہ نہیں سوچ رہے تھے کہ شاہد آفریدی پختون ہے اور کامران اکمل کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے ہوئے پختون یہ ذہن میں ہی نہیں لارہے تھے کہ وہ پنجابی ہے۔

کافی دنوں بعد گیا تھا اس لئے کراچی بہت حسین اور وہاں کے دوست پہلے سے زیادہ پیارے لگ رہے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی بہت بدل بھی گیا ہے ۔ پہلی مرتبہ کراچی کو خوف کے سایوں سے مکمل آزاد دیکھا ۔ پہلی مرتبہ کراچی کی روشنیوں کو لوٹتے دیکھا اور پہلی مرتبہ یہ محسوس ہوا کہ اس شہر کا مالک اب کوئی بھی ہوسکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کا بانی ہر گز نہیں ۔وہ شہر جو قائد متحدہ کی قدآدم تصویروں سے ڈھکا رہتا تھا ، کرکٹ کے کھلاڑیوں کی تصاویر سے سجا نظر آیا ۔ نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان زندہ باد کے نعرے تو بہت گونجے لیکن جئے الطاف کا نعرہ کسی زبان پر نہیں آیا۔ تاہم ان حسین یادوں کے ساتھ ساتھ میں کراچی سے ایک خوف بھی ساتھ لایا ہوں۔ یہ وہی خوف ہے جو قبائلی علاقوں میں ملٹری آپریشنز کی کامیابی کے بعد ان علاقوں کے دورے کے بعد میں ساتھ لایا کرتا تھا۔ وہ خوف یہ ہے کہ اگر جلد ازجلد سویلین اداروں کو فعال بنا کر معاملات ان کے سپرد نہ کئے گئے تو سیکورٹی فورسز اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا ہوسکتے ہیں ۔

بدقسمتی سے پورے سندھ میں سویلین اداروں کی حالت بدستور ابتر ہے اور چونکہ ہر معاملے میں فوج ، رینجرز اور عسکری خفیہ ادارے ڈرائیونگ سیٹ پر آگئے ہیں اس لئے سویلین ادارے نہ صرف تماشائی بنے ہوئے بلکہ ان کے اہلکار بھی عوام اور عسکری اداروں کے مابین فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یوں اگر اب عسکری اداروں نے تمام تر توجہ سویلین اداروں کی بحالی میں تعاون پر مرکوز نہ کی تو نتائج الٹ سکتے ہیں ۔ دوسرا سنگین مسئلہ سیاسی بے چینی کا ہے ۔ کراچی جس قدر امن وامان کے حوالے سے استحکام کی طرف لوٹا ہے اس قدر اسے سیاسی بے یقینی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ امر تو یقینی ہوگیا ہے کہ نہ متحدہ قائد واپس لوٹیں گے اور نہ ایم کیوایم دوبارہ ماضی جیسی قوت بن سکے گی لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ متبادل سیاسی قیادت کس کی ہوگی ۔المیہ یہ ہے کہ سیاسی قوتیں خود کچھ کرنے کی بجائے سیاسی مستقبل کے لئے بھی عسکری اداروں کی طرف دیکھنے لگی ہیں ۔

ہر گروہ کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے لائن لے رہا ہے لیکن ہر گروہ یہ شکوہ بھی کررہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی عنایتیں اس کے مخالف گروپ پر ہورہی ہیں ۔ مثلاً پی ایس پی کو اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا سمجھا جارہا ہے لیکن انہیں شکوہ ہے کہ زیادہ سرپرستی ایم کیوایم کے دونوں گروپوں کی ہورہی ہے ۔ فاروق ستار گروپ پر الزام ہے کہ وہ زیادہ قریب ہے لیکن ان کے گروپ کو شکوہ ہے کہ اس کے مقابلے میں بہادر آباد گروپ کی سرپرستی ہورہی ہے ۔ یہی شکایت بہادر آباد گرو پ کو ہے ۔ عام تاثر یہ ہے کہ باقی ملک کی طرح کراچی میں بھی پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا جارہا ہے لیکن اب پی ٹی آئی کو شکایت ہے کہ اس سے زیادہ چہیتی پیپلز پارٹی بن گئی ہے۔ جماعت اسلامی اور اے این پی کو شکوہ ہے کہ بانی متحدہ کو للکار ا انہو ں نے لیکن اب پھل بھی بانی کے جانشینوں کو کھلایا جارہا ہے ۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنی اپنی بقا کی جنگ میں لگ گئی ہیں جبکہ سندھ اور بالخصوص کراچی کے دیرینہ مسائل کسی کے ایجنڈے میں سرفہرست نہیں ۔ بلکہ یہ مسائل کسی سیاسی جماعت یا گروہ کے ایجنڈے میں شامل ہی نظر نہیں آتے۔

وہ مسائل اور محرومیاں نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں ۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر سندھ اور بالخصوص کراچی کی سیاسی قیادت اسی طرح اپنی اپنی بقا کی جنگ میں مگن رہی اور یہاں کے مسائل جوں کے توں رہے تو مستقبل میں کوئی دوسرا قائد تحریک سامنے آسکتا ہے اور ایم کیوایم کی بجائے نوجوان اپنے لئے کسی اور پلیٹ فارم کو تشکیل دے کر علم بغاوت بلند کرسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے