جنیوا میں عاصمہ کا ذکر

اب تو موسمیاتی ماہرین نے بھی کہہ دیا کہ جو گرمیاں شروع ہورہی ہیں وہ معمول سے زیادہ آگ برسائیں گی۔ سیاست کی تپش الگ ہے۔

کراچی میں گرمیوں کی ایک تعارفی جھلک اس ہفتے ہم نے دیکھی لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں اب تک وسطی یورپ کی رخصت ہوتی ہوئی سردیوں کے سائے میں بیٹھا ہوں گو میں یہی کوئی چار پانچ دن پہلے کراچی واپس آچکا ہوں۔ البتہ دو ہفتے ایک بالکل مختلف دنیا اور ایک بالکل مختلف موسم میں جذباتی طور پر انتہائی مصروف وقت گزار لینے کے بعد پاکستان کے بدلتے ہوئے حالات اور اس کے دائمی دکھوں سے سمجھوتہ کرنے میں ابھی کچھ اور وقت لگ سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جتنے دن میں پاکستان سے باہر رہا میں نے خود کو بریکنگ نیوز کے ہیجان سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ یہ دوسری بات ہےکہ میرے اس دورے کا مقصد ہی یہ تھا کہ میں بنیادی انسانی حقوق کی عالمی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں کی جانے والی گفتگو میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نمائندگی کروں۔ اسکا کچھ ذکر میں ابھی کروں گا۔

یوں مجھے تین دنوں کے لئے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا جانا تھا۔ جنیوا میں تین بار پہلے بھی جاچکا ہوں اور اس خوبصورت شہر سے شناسائی ہے۔ میرے لئے یہ موقع اس لئے بھی مبارک ٹھہرا کہ میری چھوٹی بیٹی شمالی اٹلی کے شہر ملان کے مضافات میں رہتی ہے۔ ملان سےجنیوا کا چار گھنٹے کا ریل کا سفر اتنا پرکشش ہے کہ سیاحتی بیاض میں اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یورپ کی دو بڑی جھیلوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ریل الپس کے اونچے پہاڑوں کو سرنگوں کے راستے عبور کرتی ہے۔ سو میں پہلے اپنی بیٹی کے پاس گیا۔ وہاں سے ریل میں بیٹھ کر جنیوا گیا اور ریل ہی سے واپس ملان آیا۔ جنیوا اقوام متحدہ کی کئی تنظیموں کا صدر مقام ہے اور خاص طور پر انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے کمیشن کے دفاتر یہی ہیں۔ اور ہاں، آپ کو اقبال کا وہ شعر یاد نہیں آیا کہ

[pullquote]تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا[/pullquote]

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائےیہ اس زمانے کی سوچ ہے جب پہلی جنگ عظیم کے بعد جنیوا میں لیگ آف نیشنز قائم کی گئی تھی کہ عالمی امن کی حفاظت کی جائے۔ دوسری جنگ عظیم نے لیگ آف نیشنز کو ناکام کردیا اور اس ناکامی کی راکھ سے، دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے جنم لیا۔ جنیوا میں لیگ کے لئے جو عالیشان عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں وہ اب اقوام متحدہ کی تحویل میں ہیں۔

میں نے اقوام متحدہ کی عمارتوں کے احاطے میں دفتری اوقات کے دو دن گزارے۔ ان دنوں انسانی حقوق کی کونسل کا سالانہ اجلاس جاری تھا اور بہت چہل پہل تھی۔ ایسے موقعوں پر کئی ملکوں کے باغی گروہ جنیوا میں ڈیرہ ڈالتے ہیں اور مختلف تحریکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ میں پہلے اس تقریب کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے میرا اپنا تعلق بھی تھا۔ یہ عاصمہ جہانگیر کے لئے ایک یادگاری اجتماع تھا جس میں کئی ملکوں کے نمائندے موجود تھے۔ میں نے وہاں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نمائندگی کی کہ عاصمہ جس کی روح رواں تھیں۔ یہ ایک باوقار تقریب تھی جو ایک خاص انداز میں منعقد کی گئی۔ ایک چھوٹے روسٹرم کے سامنے، ایک کشادہ لابی میں حاضرین کھڑے تھے۔ پہلا خطاب جنیوا میں پاکستان کے مستقل مندوب یعنی سفیر فاروق عالم نے کیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ڈپٹی ہائی کمشنر کیٹ گلمور عاصمہ کو یاد کرکے کافی جذباتی ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ ان راہداریوں میں مجھے اب بھی عاصمہ کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ آپ سوچئے، عاصمہ نے اقوام متحدہ کے لئے اتنی محنت سے کتنے کام کئے۔ وہ مذہبی آزادی کے لئے اقوام متحدہ کی تفتیش کار تھیں۔پھر انہوں نےدنیا کے مختلف ملکوں میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کا جائزہ لیا جب ان کا انتقال ہواتو وہ ایران میںانسانی حقوق کی صورتحال کی تفتیش کررہی تھیں۔ جہاں ہم موجود تھے وہ ایک اور ہی دنیا تھی۔ شیشے کی دیوار سے جنیوا کی جھیل کا منظر بھی نگاہوں میں تھا۔ اور تب میں نے سوچا کہ اس عالمی سطح پر اپنے آپ کو منوا لینے والی عاصمہ کیسے ہم لوگوں کے ساتھ بلوچستان اور ملک کے دوسرے دوردراز علاقوں میں لمبی مسافتیں طے کرکے مفلوک الحال اور مظلوم افراد کے درمیان بیٹھ کر ان کی باتیں سنا کرتی تھیں۔ میں نے اپنی گفتگو میں امرتیا سین کے کہے ہوئے چند جملے دہرائے۔

نوبل انعام یافتہ امرتیاسین دنیا کے ایک معروف دانشور ہیں اور انہوں نے کچھ یہ بات کی تھی کہ عاصمہ کے کام اور ان کی صلاحیت کو پرکھنے کے لئے ہمارے پاس کوئی پیمانہ ہے ہی نہیں۔ میں نے عاصمہ کی باغ و بہار شخصیت کو بھی یاد کیا۔ وہ اپنے مہمانوں کی دل کھول کر تواضع کرتی تھیں اور نقلیں تو کمال کی اتارتی تھیں۔ تقریب کے بعد کئی سفارت کاروں سے بات ہوئی جن سے عاصمہ کا کچھ نہ کچھ تعلق رہا تھا۔ ہاں، ایک اور چھوٹی نشست میں، میں نے پاکستان کے شہزاد احمد کے ساتھ شرکت کی۔ شہزاد انٹرنیٹ کی عملداری میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے مسائل کی نگرانی کرنے والی ایک تنظیم سے منسلک ہیں۔ ہم نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

کہنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے کالم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ اب تو بہت سال گزر گئے جب میں جنگ کے سنڈے میگزین کے لئے اپنے ’’سفر نامچے‘‘ لکھا کرتا تھا۔ یہاں ادھر ادھر بھٹکنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ البتہ ایک دو باتیں کہنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ ایک تو یہ کہ ریل کے سفر سے اپنے بچپن کا رومانس یورپ جاکر پھر جاگ جاتا ہے۔ لیکن یورپ میں ریلوے کے نظام نے ایک نیا جنم لیا ہے۔ قدم قدم پر ٹیکنالوجی کا جادو حیران کرتا ہے۔ تیز رفتار ٹرینوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

اٹلی میں ہم نے اس ریل میں بھی سفر کیا جس کی رفتار 300کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچتی ہے۔ ایک اور بات۔ یورپ میں آس پاس کے ملکوں بلکہ دنیا سے جڑے رہنے کا احساس قائم رہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اجنبی جانے پہچانے لگتے ہیں۔ زبانوں کی الگ الگ پہچان کے باوجود سب ایک ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ موسم کا بھی سرسری ذکر ہوجائے۔ مارچ کے مہینے میں بھی باہر نکلتے وقت بڑے کوٹ اور جسم پر پوشاک کی کئی تہوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن جلد ہی بہار کا موسم اپنا رنگ دکھانا شروع کردے گا۔ ایک یاد یہ بھی ہے کہ میں جنیوا سے ملان آرہا تھا تو جب ایک لمبی سرنگ سے ریل نکلی تو گرتی ہوئی برف نے مسافروں کو حیران کردیا۔

اچھا بھی بہت لگا۔ تقریباً سارا وقت تو میں نے اٹلی میں گزارا لیکن جنیوا کی ایک خاص بات ایسی ہے کہ جس کا تجربہ مجھے کسی دوسرے یورپی شہر میں نہیں ہوا۔وہ یہ کہ جب آپ کسی ہوٹل میں قیام کرتے ہیں تو یہ ہوٹل کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آپ کو قیام کے پورے عرصے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک پاس بناکردے کہ آپ کسی بھی ٹرام یا بس پر مفت سفر کرسکیں۔ یہ پاس جھیل پر چلنے والی ان لانچوں کے لئے بھی ہوتا ہے کہ جن کا تعلق پبلک ٹرانسپورٹ سے ہو۔ پورے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک جال بچھا ہے۔ میں نے اپنے پاس کا بہت استعمال کیا اور انگریزی کی وہ کہاوت ذہن میں رہی کہ کہیں پہنچنے سے بہتر یہ ہے کہ خوشگوار اور پرامید سفر جاری رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے