صحافیوں کا بہیمانہ قتل آخرکب تک!

ہر انسان امید کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ باپ اس امید سے جیتے ہیں کہ میرا بیٹا جوان ہوکر میرے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔ بیٹا اس امید سے جی رہا ہوتا ہے کہ اگر مجھ پر کوئی کڑا وقت آئے تو میرا بابا میرے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ سماج میں کوئی ناانصافی ہو تو وہاں کے بزرگوں پر لوگوں کی نظر یں جمی ہوتی ہیں کہ وہی حل و عقد کے حامل افراد ہی بیداری کا مظاہرہ کرکےمعاشرے کے سخت معاملات کی گھتیاں سلجھا دیں گے اور آپس کی الجھنوں کو ختم کردیں گے۔ جب معاشرے کے اندر موجود افراد بھی مختلف مصلحتوں کے شکار ہوتے ہیں تو لوگوں کی نظر یں عدالتوں پر ہوتی ہیں کہ اگر ہم عدالت کی طرف رجوع کریں گے تو ہماری مشکل حل ہوجائے گی۔ اسی امید سے لوگ جی رہے ہوتے ہیں۔

بسااوقات سماج کے اندر انصاف سے عاری اور اختیار واقتدار کے نشے میں مست افراد مکمل معاشرے کے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں اور ہر ایک کو اپنے اشاروں پر چلانے کے درپے ہوتے ہیں۔ اس سے بھی مشکل یہ کہ جب ایسے مست افراد جب زیادہ تعداد میں ہوجاتے ہیں تو ان کی باقاعدہ لابیاں وجود میں آتی ہیں جو پورے معاشرے کو اپنے اشاروں پر نچانے کے کی سعی بلیغ میں مصروف ہوتی ہیں۔ جو بھی حرف حق بلند کرے اس کا گلا دبا دیا جائے تاکہ کوئی بھی ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرائت نہ کرے۔ ایسے میں سماج میں موجود افراد کی حیثیت بے روح جسم کی مانند ہوجاتی ہے۔ ان پر جو کچھ ہوجائے وہ آہ آہ کی صدائیں بلند کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ بالخصوص اگر ایسے افراد مالی حوالے سے کمزور ہو اور فیملی بیک گراونڈ بھی ذرا کمزور ہو تو ایسوں پر جتنا ظلم ہو وہ اسے مقدر کے کندھے پر ڈال کر سہتے رہنے کو ہی اپنی زندگی کا ایک لاینفک حصہ سمجھتے ہیں۔ یوں پورا معاشرہ ظالم و جابر افراد کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔

ایسے کڑے وقت میں صنف صحافت سے منسلک اور ملک و ملت اور پوری انسانیت اور بالخصوص معاشرے کے ضعیف طبقے کے ترجمان بن کر اپنی جان ہتھیلیوں پر لیے ظالم و جابروں کے خلاف سینہ تان کر ایک صحافی نکل آتا ہے۔ یہ مردہ ضمیروں کو جھنجوڑتا ہے، بے حس جسموں میں نئی روح پھونکتا ہے، ناامیدیوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے افراد کے لیے امید کی کرن بن کر ابھرتا ہے، بے سہاروں کا سہارا بنتا ہے، مسلک و مکتب اور قوم و قبیلے کی تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار ہوکر وہ تن من دھن کی قربانی دینے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ اب اس کا سب سے بڑا خطرہ حاکم وقت کو ہوتا ہے کیونکہ سماج کے لوگوں تک عدل و انصاف بہم پہنچانا اور ظلم و جور کا خاتمہ کرنا اس کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔جب صحافی میدان میں اتر کر ظالم طبقے کے مظالم سے پردہ چاک کرتا ہے، ایسے افراد کی آواز بن کے ابھرتا ہے جن کی باتوں کی کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی، جب وہ ظالم و جابر حکمرانوں کے مظالم کی قلعیاں کھول کے رکھ دیتا ہے تو مدت مدید سے مختلف پردوں میں چھپے ان ظالم و جابر افراد کے چہروں پر بدنما داغ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عام و خاص کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے۔لہذا ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے صحافت سے منسلک اس ہراول دستے کا راستہ روک لیا جائے۔ خواہ اس مقصد کے لیے اس مقدس صنف سے تعلق رکھنے والے کسی فرض شناس صحافی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔ جسے حیات ابدی سے ہمکنار کرنے والی کتاب قرآن مجید نے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔

آر ایس ایف کی 2017کی رپورٹ کے مطابق آزادی صحافت میں 180 ممالک کے مابین پاکستان کا درجہ 139رہا۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں پر ہونے والے پے درپے حملے پچھلے چار سالوں میں نہایت افسوسناک ہے۔پاکستان میں پچھلے 16سالوں میں 117صحافی قتل ہوئے جن میں سے صرف تین کیسز کی عدالت میں سماعت ہوسکی۔(دنیا نیوز،18اکتوبر2017) یہ ایوان اقتدار پر براجماں حکمران طبقے کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ جب عوام کے ترجمان صحافی یہاں محفوظ نہیں تو غریب عوام تو دور کی بات۔

نوائے وقت کے نمائندے ذیشان بٹ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ 27مارچ کو سیالکوٹ کے علاقے سمبڑیاں میں دکانداروں کے تقاضے اور فریاد پر اپنے فرائض منٖصبی نبھانے اور حکام بالا تک ان دکانداروں پر ناحق ٹیکس عائد ہونے کی شکایتیں پہنچانے کی خاطرموقع پر پہنچ گئے۔جب اس نے خطرے کو بھانپ لیا تو فوری پولیس کو فون کیا جس کی آڈیو سن کر ہر آنکھ اشکبار ہوتی ہے۔بے باگ انداز میں ن لیگ کے رہنما چیئرمین عمران اسلم چیمہ تک لوگوں کی فریاد لے کر گئے۔ اسلم چیمہ نے ان کی فریاد کی فریاد رسی کرنے کی بجائے طیش میں آکر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آتشین اسلحے سے حملہ کرکے ذیشان بٹ کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ ان کی آڈیو ریکارڈنگ ان کی مظلومیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہم نہ ذیشان بٹ کے حسب و نسب کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کے مکتب و مسلک سے واقف ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ ان پر ظلم ہوا ہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہر باضمیر انسان کے ضمیر کی آواز ہے۔

حضرت علی ؑ کےفرمان کے مطابق حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتی ہے جبکہ ظلم کے ساتھ نہیں۔بیٹو! ہمیشہ ظالم کا مخالف اور مظلوم کا حامی رہا کرو!”اسی طرح پوری انسانیت کو درس حریت دینے والے آپ کے صاحبزادے حضرت امام حسینؑ کے فرمان کے مطابق ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھوگے اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی۔میں ظالم کے ساتھ زندہ رہنے کو اپنے لیے ننگ و عار جبکہ ان کے مقابلے میں جان دینے کو اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں۔” ذیشان تو بھی بہت خوش نصیب تھے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اپنی جان فدا کردی اور اپنے پیشے سے خیانت نہیں کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک حکمران طبقہ اپنے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے ذیشان جیسے حق گوئی کرنے والے صحافیوں کی جانوں سے کھیلتے رہیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے