”پیغامِ پاکستان” اوراہلِ صحافت کی رائے

28 مارچ بروز سوموار اوآرای ” آرگنائزیشن فار ریسرچ اینڈ ایجوکیشن ” کے زیرِ اہتمام ” پیغامِ پاکستان” بیانیہ پر میڈیا سے وابستہ لوگوں کی رائے جاننے کے لیے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔ سیمینار کے میزان معروف کالم نگار جناب خورشید ندیم تھے۔ شرکاء میں کئی معروف نام ڈاکٹر قبلہ ایاز (چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)، سبوخ سید، اعزاز سید ، ارشاد محمود ، وسی بابا، آصف خورشید، عمر چیمہ اور سلیم صافی سمیت میڈیا سے تعلق رکھنے والے کئی افراد موجود تھے۔ نقابت کے فرائض سبوخ سید نے ادا کیے۔
پیغام پاکستان بیانیے پر مختلف لوگوں نے اپنا اپنا نقطہِ نظر پیش کیا اور الگ الگ تجاویز دیں، جو کچھ یوں ہیں۔

1۔ خورشید ندیم (ممبر اسلامی نظریاتی کونسل/ کالم نگار)
خورشید ندیم نے پیغام پاکستان بیانیہ / فتویٰ پر روشنی ڈالی ، جسکے اہم نکات یہ تھے:
ا۔ تمام مسالک کے علماء نے مل کر چند اہم نکات پر اتفاق کیا ، علماء کے اِن نکات کے اندر مزید کچھ باتوں کو شامل کرکے اِسے باقاعدہ کتابی شکل دے دی گئی۔
2۔ جہاد ریاست کا اختیار ہے ، کسی فرد یا گروہ کا نہیں۔
3۔ کفر کا فتویٰ دینا (فیصلہ کرنا) ریاست کا حق ہے ۔
آپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پیغامِ پاکستان بیانیے کو ایک تقریب اور کتابی شکل سے آگے نہ بڑھایا جاسکا اور نہ ہی یہ میڈیا میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرسکا ۔ اِسے عملی طور پر ”نافذ” کرنے کے لیے آپ نے میڈیا نمائندگان سے عملی تجاویز دینے کو کہا۔

2۔ قبلہ ڈاکٹر ایاز (چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)
آپ نے پیغامِ پاکستان فتویٰ کی تیاری کے مراحل پر تفصیلی روشنی ڈالی ، اور بتایا کہ اسے اسلامی نظریاتی کونسل، سول و عسکری حلقوں اور علماء کے بھرپور تعاون سے تیار کیا گیا۔
آپ نے تجاویز دیں کہ:
1۔ دینی مدارس کا نصاب اسی فتویٰ کی روشنی میں بدلا جائے۔
2۔ اسے یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا جائے۔
3۔ اسے مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے ”نیکٹا” کی خدمات حاصل کی جائیں۔
4۔ پاکستان کے آئین میں شامل کرکے ، اِس کی شقوں کو قانون قرار دیا جائے۔

3۔ ذوالفقار چیمہ ( کالم نگار/ سابقہ حکومتی عہدیدار)
آپ نے سرکاری مشینری کی نااہلی ، سول ملڑی تعلقات کی ناہمواری اور میڈیا میں عدم پذیرائی کو پیغام پاکستان فتویٰ پر عملدرآمد میں حائل بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ آپ نے یہ تجاویز دیں:
1۔ پرائیوٹ گارڈز اور گن مینز پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
2۔ بے روز گار نوجوان سنجیدہ مسئلہ ہیں ، اُنھیں روزگار دے کر دہشتگرد بننے سے بچائیں۔
3۔ علماء اور سیاسی جماعتیں خود کو مکمل غیر مسلح کریں۔

4۔ ۔ عمار مقصود ( دانشور)
آپ کی تجاویز کچھ یوں تھیں:
1۔ میڈیا سنجیدہ کردار ادا کرے ، اور اس فتوے سے اختلاف کرنے والوں کو میڈیا پر آن ائیر نہ کرے۔
2۔ ”لابنگ” کے جدید طریقہِ کار کو استعمال کرکے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

5۔ عمر چیمہ (سینئر صحافی جیو نیوز)
آپ نے پیغامِ پاکستان بیانیہ کو نوجوان نسل تک پہنچانے اور اسے مزید قابلِ عمل بنانے کے لیے ” ریسرچ” کی تجویز بھی دی۔ آپ کے مطابق کسی مسئلے کو میڈیا میں پذیرائی تب ہی مل سکتی ہے ، جب اُسے عوام میں پذیرائی ملے۔

6۔ حافظ طاہر خلیل ( سینئر رپورٹر روزنامہ جنگ)
1۔ آپ کے مطابق یہ بیانیہ صرف علماء کا بیانیہ ہے ، اسے قوم کا بیانیہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ” پولیٹیکل آنر شپ ” ملے۔
2۔ سیاسی جماعتیں اس بیانیے کو اپنے منشور میں شامل کریں۔

7۔ وسی بابا ( ڈائریکٹر “ہم سب” ویب سائیٹ )
وسی بابا نے اس فتوے کے پیچھے مخصوص ہاتھ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ہاتھ ہٹ جائے گا تو یہ فتویٰ پھر محض کتاب بن کررہ جائے گا۔ وسی بابا نے فتوے کو ” پولیٹیکل آنر شپ ” دینے کی تجویز دی۔

8 اعزاز سید (سینئر صحافی جیو نیوز)
پیغامِ پاکستان بیانیہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے ، ایک جو خارجہ پالیسی سے جُڑا ہو اور دوسرا داخلی معاملات سے۔
آپ نے تجویز دی کہ ریاست اور متعلقہ ادارے اگر افغانستان اور کشمیر میں کسی بھی متحارب گروپ کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو پھر اس بیانیہ کو پذیرائی ملے گی، وگرنہ اِس پر صرف نشستیں ہی ہوتی رہیں گی عمل درآمد نہیں۔

9۔ رانا قیصر (ایکسپریس نیوز)
آپ کے مطابق یہ فتویٰ افغانستان کی حکومت کی خواہش پر دلوایا گیا ، لیکن اس کا فائدہ ہمیں تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم سوچ کے محاذ پر جنگ کی تیاری کرلیں ۔ ہم نے سوچ کے محاذ پر قوم کی درست سمت میں رہنمائی کرنی ہے۔ اس مقصد کے لیے سول اور عسکری اداروں کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

10۔ علی شیر (روزنامہ ”نئی بات ” )
علی شیر صاحب نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کا کام ”کام ”کرنا ہوتا ہے مذاق کرنا نہیں۔ محض فتوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ، یہی فتاویٰ مشرف دور میں بھی آتے رہے۔ آپ نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اس پر قانون سازی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
آپ نے کچھ یوں تجاویز دیں:
1۔ فتویٰ کو قابلِ عمل بنایا جائے، محض پڑھنے کے قابل نہیں۔
2۔ سول ملٹری لیڈر شپ ایک پیج پر آئے۔
3۔ سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں مہم چلائی جائے۔

11۔ پروفیسر طاہر ملک ( صحافی ، پروفیسر نمل یونیورسٹی)
آپ نے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ اس فتوے میں ریاست کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ، ریاست اسے فتوے کو ”اپنی پالیسی” قرار دے کر عمل کروائے۔
آپ نے سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے ذریعے پریشر ڈیولپ کرنے کی تجویز بھی دے۔

12۔ قلبِ علی (ڈان نیوز)
فتویٰ پر دستخط کرنے والی بیشتر مذہبی قوتیں اسے اپنی مجبوری قرار دے رہی ہیں۔ ایک طرف ریاست امن کی بات کرتی ہے دوسری طرف نقیب اللہ کے قاتل کو تحفظ دے کر بندوق کلچر کو فروغ دیتی ہے۔
پیغامِ پاکستان بیانیے پر عمل درآمد تب ہی ممکن ہے جب اسے قانون کا حصہ بنا کر ہر خاص و عام پر لاگو کردیا جائے۔

13۔ نادر عباس ( اسائنمنٹ ایڈیٹر ” ڈان ٹی وی ” )
آپ نے پیغامِ پاکستان بیانیے کی مقبولیت کے لیے سیاسی جماعتوں اور حکومت کو اسے مکمل طور پر اپنانے کو کہا۔ آپ کے مطابق سیاسی اداروں کی عدم دلچسپی سے یہ بیانیہ ماضی کے فتوؤں کی طرح ایک فتویٰ بن کر رہ جائے گا۔

14۔ حاجی نواز رضا (انچارج شعبہِ مذہبی امور ”نوائے وقت”)
آپ نے بیرونِ ملک سے آنے والی فنڈنگ کی کڑی مانیٹرنگ کی تجویز دی۔ آپ کے مطابق بیرونی فنڈنگ روک کر دہشتگردی اور انتہاء پسندی پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اور یہی پیغامِ پاکستان بیانیہ کا بنیادی مقصد ہے۔

15۔ جواد فیضی ( اینکر پرسن پی ٹی وی نیوز)
جواد فیضی نے یہ تجاویز دیں:
1۔ پیغامِ پاکستان بیانیہ کے چھوٹے چھوٹے نکات بنا کر بینرز کی صورت میں لگایا جائے۔
2۔ باقاعدہ نصاب کا حصہ بنا کر تمام تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے۔

16۔ ارشاد محمود ( تجزیہ کار / ایکٹیویسٹ )
آپ نے بیانیے کے تمام نکات سے اتفاق کیا مگر، اس کے عملدرآمد پلان کو نامکمل اور غیر جمہوری قرار دیا۔
آپ نے ” نیریٹو ڈرائیورز” کو پوری طرح سے ” ایڈریس ” کرنے کی تجویز دی۔ اور اس میں علاقائی قوتوں کو شامل کرنے پر بھی زور دیا۔

17۔ آصف محمود ( قانون دان / اینکر پرسن / کالم نگار)
آصف محمود نے پیغامِ پاکستان بیانیہ کو حکومت کی غیر سنجیدہ اور رسمی کاوش قرار دیا۔
آپ نے تجاویز دیں کہ:
1۔ ریاست فرقہ وارانہ عناصر کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی چھوڑ دے۔
2۔ ملک کے فتاویٰ سسٹم کو ریگولرائز کیا جائے۔

18۔ یونس قاسمی (لکھاری)
یونس قاسمی نے علماء کو ٹی وی پروگرامات میں بُلا کر اس فتوے پر قوم کو رہنمائی دینے کی تجویز پیش کی۔

19۔ آصف خورشید ( ماہرِ بین الاقوامی امور)
آصف خورشید صاحب نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ پیغامِ پاکستان بیانیہ کی حیثیت فتوؤں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اسے ایوانِ صدر سے توثیق اور پذیرائی ملی ہے۔ اس فتوے کی روشنی میں پرامن اور انتہاء پسندی سے پاک ، پاکستان کے لیے:
1۔ کالعدم تنظیموں میں اس بیانیے کے متعلق ورکشاپس کرائی جائیں۔
2۔ اُن کے کارکنوں کو ملک دوست سرگرمیوں میں شامل کیا جائے۔

20۔ اُسامہ بن نسیم کیانی ( کالم نگار روزنامہ ” پرل ویو” راولاکوٹ/اسلام آباد)
راقم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ دریاؤں کو بند باندھ کر کبھی روکا نہیں جاسکتا، بلکہ اُن کا رُخ بدلا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کالعدم یا مذہبی تنظمیں جو ایک طاقت بن چکی ہیں ، اُن کی طاقت کو وطن دوست سرگرمیوں میں استعمال کریں ۔ مثلا” حافظ سعید کو فلاحی کاموں ، علامہ امین شہیدی کو علمی و سماجی سرگرمیوں اور مولانا لدھیانوی کو سیاست اور پالیسی میکنگ کی سرگرمیوں میں پوری آزادی دے کر ”پیغامِ پاکستان” پر عمل درآمد کرایا جائے۔

21۔ صابر حسین (چیف ایڈیٹر گلگت ٹوڈے)
صابر حسین نے ” پیغامِ پاکستان” کو نیک اقدام قرار دیتے ہوئے ، اسے گلگت کی فرقہ وارانہ فضا کے لیے ایک خوشگوار بادل قرار دیا۔
آپ نے تجویز دی کہ اس سارے عمل کو شفاف بنایا جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز کا موقف سامنے لایا جائے تاکہ سی پیک کی طرح ”پیغامِ پاکستان” شکوک و شبہات میں نہ گھر جائے۔

22۔ سلیم صافی ( اینکر پرسن / کالم نگار جیو نیوز)
سلیم صافی نے ” پیغامِ پاکستان ” بیانیہ کے عوامل اور تیاری کے مراحل پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ آپ کے مطابق حکومت اس کی مرکزی تقریب سے آخری روز تک بے خبر رہی ۔ اور سیاسی بنیادوں پر حمایت نہ ہونے کے باعث یہ عوام کا بیانیہ نہیں بن سکا۔
آپ نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں۔
1۔ اس معاملے پر دو قومی لیڈروں نواز شریف اور عمران خان کی رائے جانی جائے اور ان کا انٹرویو کیا جائے تاکہ معاملہ میڈیا میں کھل کر آئے اور عوام تک پہنچے۔
2۔ سیاسی جماعتیں دل بڑا کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور اس بیانیے کو اپنا بیانیہ سمجھ کر اپنائیں۔
کیونکہ یہی بیانیہ ہی پاکستان کے تحفظ ، بقاء اور ترقی کا ضامن ہے۔

23۔ سبوخ سید ( سینئر صحافی / جنگ گروپ )
سبوخ سید نے مذہبی انتہاء پسندی ، کفر کے فتوؤں کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی انتہاء پسندی ، غدار ، ایجنٹ اور ملک دشمن جیسے القابات پر بھی شقیں شامل کرنے کی تجویز پیش کی۔

آخر میں جناب خورشید ندیم اور قبلہ ڈاکٹر ایاز نے تمام شرکاء کا قابلِ عمل تجاویز دینے پر شکریہ ادا کیا۔ آپ نے اعتراف کیا کہ منزل ابھی دور ہے، اور اس کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں بھی درپیش ہیں ، مگر اس کا حل یہی ہے کہ آگے بڑھا جائے ، کوشش جاری رکھی جائے جب تک یہ بیانیہ پاکستان کے آئین کا حصہ نہ بن جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے