سندھ: ایک سال میں خواتین پر تشدد کے ایک ہزار سے زائد کیسز رجسٹر

کراچی: حکومتِ سندھ کے محکمہ ترقیِ نسواں کی جانب سے تیارہ کردہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ برس جولائی سے اب تک صوبے میں خواتین کی جانب سے قتل سے لے کر تشدد اور بچوں کی حوالگی کے حوالے سے ایک ہزار 6 سو 43 کیسز رجسٹر کروائے جاچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حکومتِ سندھ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ کیسز خواتین کمپلین سیل اور سندھ میں بینظیر بھٹو سینٹر برائے وومین میں درج کرائے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں 13 مقدمات غیرت کے نام پر قتل کے سامنے آئے جن میں ضلع جیکب آباد سرِ فہرست رہا، جہاں پر ایسے 8 واقعات رونما ہوئے۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ روایت پھیلتی ہوئی میٹرو پولیٹن شہر کراچی تک پہنچ گئی جہاں غیرت کے نام پر قتل کے 3 مقدمات درج کیے گئے۔

حکام کا اس معاملے میں کہنا تھا کہ صوبائی دارالحکومت میں اس طرح کی روایات گزشتہ چند سالوں کے دوران زور پکڑتی جارہی ہیں کیونکہ یہاں پر صوبے کے دیگر علاقوں سے لوگ آکر بس رہے ہیں جبکہ وہ اپن رسم و رواج کو یہاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

علاوہ ازیں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں بھی غیرت کے نام پر قتل کا ایک مقدمہ درج کیا گیا جبکہ ایک مقدمہ بینظیر آباد میں درج کیا گیا۔

اسی طرح خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کے 5 مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں 3 مقدمات جیکب آباد سے جبکہ ایک ایک کیسز بینظیر آباد اور شکارپور سے درج ہوا۔

اسی طرح صوبے میں جنسی تشدد کے 5 کیسز رجسٹر ہوئے جن میں 2 جیکب آباد میں جبکہ کراچی، حیدر آباد اور سکھر میں ایک ایک کیسز رجسٹر ہوا۔

صوبے میں گھریلو تشدد کے 252 کیسز رجسٹر ہوئے جبکہ ایک کیس جیکب آباد سے خاتون کی اسمگلنگ کا کیس بھی رجسٹر ہوا۔

صوبے میں قید کے دوران تشدد کے 18 کیسز، نابالغ کی شادی کے 2 کیسز، غیر قانونی شادی کے 3 کیسز، قتل یا اغوا کے 14 کیسز جبکہ خاتون پر تیزاب پھینکنے کا بھی ایک کیس درج کیا گیا۔

تاہم رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ ادارے کو صوبے میں غیر مسلم لڑکی کو زبردستی مسلمان کرنے اور شادی کرنے کا ایک بھی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔

صوبے میں 75 مقدمات جائیداد سے متعلق خواتین نے درج کروائے جبکہ 107 کیسز متفرق واقعات کے درج ہوئے۔

ایک اعلیٰ سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اس نیٹ ورک کا دائرہ کار سندھ کے تمام اضلاع تک پہنچا رہے ہیں تاکہ خواتین اپنے خلاف ہونے والے مظالم کی رپورٹ درج کروا سکیں اور وہاں متعلقہ حکام جتنی جلدی ہو سکے کارروائی کی جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے