غریب ہی ہیرو کیوں؟

کالم پر ملک اور قارئین کا حق ہے ۔ مناسب نہیں کہ اس میں اپنے قصے کہانیاں لکھی جائیں لیکن چونکہ اب کی بار مجبوری بن گئی ۔ یوں تو ساری زندگی ان خطرات سے کھیلتے کھیلتے گزر گئی ، اس لئے اب دھونس دھمکیوں اور چھوٹے موٹے واقعات کو انجوائے کرنے لگا ہوں ۔ تبھی کبھی دھمکیوں یا اس طرح واقعات کو خبر بھی نہیں بننے دیا لیکن اب کی بار چونکہ میرے سیکورٹی گارڈ نے میرے گھر کی عزت اور حفاظت کی خاطر اپنی زندگی دائو پر لگا کر خون بہایا اور معاملہ پولیس اور پھر میڈیا تک پہنچ گیا ، یوں مجھے بھی اسے ڈسکس کرنا پڑررہا ہے ۔ گزشتہ تین دنوں کےدوران ملاقات کے لئے آنے والوں کی یوں کثرت رہی کہ ٹیلی فون پر بات کرنا بھی ممکن نہیں رہا ۔ اس لئے قارئین کی حق تلفی کرکے اپنے گھر پر حملے کے واقعہ کی تفصیل لکھنے بیٹھا ہوں ۔ وجہ ایک یہ بھی ہے کہ اس واقعہ سے جو سبق مجھے مزید ازبر ہوا ہے وہ آپ لوگوں کے ساتھ بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بہادری دیکھنی ہو تو ا س ملک کے غریب کے ہاں تلاش کرو، وفاداری دیکھنی ہوتو اس ملک کے غریب کے ہاں تلاش کرو اور عزت چاہتے ہو تو اس ملک کے غریب کو عزت دو ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسروں کے شر سے حفاظت چاہتے ہوتو ماں کی دعا کو ساتھ رکھو اور غریب کی بددعا سے بچے رہو۔

میں عموماً گھر لیٹ آتا ہوں لیکن اس رات چونکہ صبح سویرے پشاورمیں ایک میٹنگ میں شرکت کرنی تھی اس لئے منگل اور بدھ کی درمیانی رات گھر جلدیآگیا ۔ گھر پر ڈنر کے بعد میں رات گیارہ بجے پشاور کے لئے نکل گیا۔ رات ایک بجے کے قریب دو بندے جو موٹرسائیکل پر آئے تھے گھر کے سامنے مین روڈ پر منڈلا رہے تھے ۔میرے ہیرو اور سیکورٹی گارڈصحبت خان کے مطابق جب انہوں نے پولیس کی موبائل آتے دیکھ لی تو چلے گئے لیکن موبائل کے چلے جانے کے کافی دیر بعد اچانک دوبارہ نمودار ہوئے اور فوراً موٹرسائیکل گھر کے گیٹ پر روک کر ا ن کے ہاتھ میں موجود رائفل پر جھپٹ پڑے ۔صحبت خان جو میرے سیکورٹی گارڈز میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہیں ، اس رات گیٹ کے باہر پہلی مرتبہ ڈیوٹی دے رہے تھے اور انہوںنے گھر کے چھوٹے گیٹ کو باہر سے تالا لگایا ہوا تھا۔

پستول ان کی کنپٹی پر رکھ کر نامعلوم حملہ آور نے ان سے کہا کہ رائفل چھوڑ اور فوراً تالہ کھول دو لیکن وہ مرد کا بچہ کہاں ایسا کرنے پر تیار تھا۔ انہوں نے جھٹکا دے کر حملہ آور کو پیچھے کی طرف گرا دیا لیکن اس دوران دوسرے نامعلوم شخص نے ان کو پیچھے سے قابو کرکے زمین پر لٹادیا۔ صحبت خان کے بقول رائفل ان کے جسم کے نیچے آگئی جسے حملہ آور اوپر سے کھینچ رہے تھے ۔ حملہ آوروں نے پہلے ان کے سر میں پستول اور پھر اینٹ مار دی جس سے وہ لہولہان ہوگئے لیکن پھر بھی وہ رائفل چھوڑ نے پر آمادہ نہیں تھے ۔ اس دوران ہمت کا مظاہرہ کرکے انہوں نے اپنے جسم کے نیچے آئی ہوئی رائفل میں ایک ہاتھ سے گولی لوڈ کردی ۔

حملہ آوروں نے ان کی ٹانگ میں خنجر دے مارا لیکن صحبت خان کہاں ہار ماننےکو تیارتھے۔ جب حملہ آوروں نے دیکھا کہ اس عالم میں بھی انہوں نے رائفل میں گولی لوڈ کردی تو انہوں نے فوراً ان کے رائفل سے میگزین نکال دی تاہم صحبت خان کی ہمت دیکھئے کہ وہ اس میں لوڈ شدہ دو گولیاں چلانے میں کامیاب ہوگئے ۔ اگرچہ رائفل ان کے سینے کے نیچے تھی اور ان کو اوپر سے دونوں حملہ آوروں نے گھیر رکھا تھا اس لئے وہ ان کا نشانہ تو نہیں لے سکے لیکن گولیاں چلنے کا یہ فائدہ ہوا کہ گھر میں موجود میرے بھائی ، بھتیجا اور دیگر گارڈز فوراً ہتھیاروں سمیت گیٹ کی طرف بھاگ آئے ۔ یوں دونوں نامعلوم حملہ آور ان کے باہر نکلتے ہی فرار ہوگئے ۔ میرے گھر کے بالائی حصے میں رہنے والے محترم بھائی عادل عباسی بھی فائرنگ کی آواز سن کر نیچے آگئے ۔ وہ اور میرے بھائی وغیرہ گاڑی نکال کر زخمی صحبت خان کواسپتال پہنچانا چاہتے تھے لیکن اس وفادار اور بہادر شخص کی وفاداری اور ہمت دیکھ لیجئے کہ لہو لہان ہوکر بھی وہ کہہ رہے تھے کہ نہیں جب تک میرے سپروائزر آکر گھر کی سیکورٹی نہیں سنبھالتے میں اسپتال نہیں جائوں گا اور انہوںنے ان لوگوںکے اصرار اور میرے ٹیلی فون پر غصے کے اظہار کے باوجود اپنی یہ ضد پوری کردی ۔

اس دوران ان کے سپروائزر بھی پہنچ گئے اور مقامی پولیس بھی جس کے بعد انہیں نیم بیہوش حالت میں اسپتال پہنچا دیا گیا ۔ گویا اس روز اگر میرے گھر کی عزت بچ گئی تو وہ صحبت خان کی اس قربانی کی وجہ سے بچ گئی اور میں ان کے اس احسان کو عمر بھر نہیں بھولوں گا۔

میں اگلے روز پشاور میں مصروفیات نمٹانے کے بعد جب واپس آکر ان سے ملا تو اس غیرت مند اور وفادار انسان کے منہ پر بار بار یہ الفاظ تھے کہ سر میں شرمندہ ہوں کہ وہ زندہ بچ نکلے۔ افسوس وہ رائفل سے میگزین نکال چکے تھے ورنہ ان دونوں میں سے کوئی زندہ بچ نہ جاتا ۔

میں ان کو شاباش دیتے ہوئے عرض کرتا رہا کہ آپ میرے ہیرو اور محسن ہیں اور جو کچھ آپ نے کیا وہ شاید سگے بھائی بھی نہ کرسکیں لیکن وہ بار باراس بات پر ندامت کا اظہار کرتے رہے کہ حملہ آور زندہ واپس بھاگ گئے ۔ یہ ہوتی ہے غریب کی وفاداری اور غیرت ۔ جو جان کی قربانی کا رسک لے کر اور خون بہاکر بھی احسان نہیں جتاتا بلکہ الٹا نادم رہتا ہے ۔ دو قبائلیوں کے سوا میرے سارے محافظین ایس ایس جی کے ریٹائرڈ کمانڈوز ہیں اور پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے صحبت خان بھی ان میں سے ایک ہیں ۔ اس روز انہوں نے میرے ساتھ بھی اسی طرح وفاداری نبھائی جس طرح یہ لوگ اس دھرتی کے ساتھ نبھارہے ہیں لیکن میرا یا میرے گھر والوں کا اگر بال بیکا نہیں ہوا اور اللہ نے اس روز صحبت خان کو وسیلہ بنا دیا تو اس کی بنیادی وجہ میری والدہ اور صحبت خان جیسے لوگوں کی دعائیں ہیں ۔ یہی میرا اصل سرمایہ ہیں اور یہی اصل حفاظتی حصار ہیں ۔ اگرچہ بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی ہتھیاروں اور خطرات کے ساتھ گزری ہے ۔

اس طرح کی چیزیں میرے لئے کھیل بن گئی ہیں۔ اگرچہ اور اسی لئے میرے اخراجات کا سب سے بڑا حصہ سیکورٹی کی نذر ہوتا ہے ۔ ان شاء اللہ اگلی مرتبہ ایسی حرکت کرنے والے بچ کر نہیں جائیں گے لیکن ان سب وسائل اور انتظامات کے باوجود دشمنوں کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا اصل حصار میری والدہ اور صحبت خان جیسے لوگوں کی دعائیں ہیں ۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ان چیزوں سے اگر ڈرنا ہوتا تو اس میدان کا چنائو نہ کرتا اور پھر اس میدان میں اس خطرناک خطے اور شعبے کا انتخاب نہ کرتا ۔ اس لئے دشمنوں کو خبر ہو کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے رہیں میں ان شاء اللہ اسی طرح انجوائے کرتا رہوں گا۔ یہ واقعات اگر اسی طرح اللہ پر میرے بھروسے اور غریبوں سے محبت میں اضافے کا موجب بنتے ہیں تو اس سے بڑی غنیمت اور کیا ہوسکتی ہے ۔

جن لوگوں نے خود آکر یا رابطہ کرکے مجھے حمایت اور دعائوں سے نوازا ہے ،میں ان کا بے حد مشکور ہوں ۔ گلگت بلتستان سے لے کر گوادر تک ، کراچی سے لے کر چترال تک ، کابل سے لے کر سری نگر تک جس طرح لوگوں نے رابطے کرکے اپنی تشویش ظاہر کی ، اس نے میرا حوصلہ مزید بڑھا دیا ۔ دوستوں اور صحافتی ساتھیوں کی تو بات ہی کیا ہے ، میرے منع کرنے کے باوجود طاہر خان صاحب کی قیادت میں بعض ساتھی مظاہروں پر بھی اتر آئے ۔

اسفندیا ر ولی خان سے لے کر سراج الحق تک ، مصطفیٰ کمال سے لے کر ثناء اللہ بلوچ اور سرفراز بگٹی تک ، رضا ربانی سے لے کر ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق تک ، مریم نوازشریف سے لے کر آفتاب شیرپائو تک ، مولانا فضل الرحمان خلیل سے لے کر مولانا محمد احمد لدھیانوی تک اور پیر نقیب الرحمان آف عیدگاہ شریف سے لے کر مولانا محمد طیب طاہری تک سینکڑوں سیاسی اور مذہبی رہنمائوں نے آکر یا ٹیلی فون پر جن محبتوں سے نوازا ، ان پر میں ان کا نہ صرف بے حد مشکور ہوں بلکہ والدہ سے ان سب کے لئے خصوصی دعا کی درخواست بھی کی ہے ۔

مجھ سے اگر ہمدردی کا اظہار نہیں کیا یا پھر واقعہ کی مذمت نہیں کی تو صرف پی ٹی آئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت نے ،لیکن میں ان کا بھی مشکور ہوں اور ان کی سلامتی اور صحت کے لئے دعا گو ہوں ۔ کوئی نوٹس نہیں لیا یا رابطہ نہیں کیا تو دو قومی اداروں نے ۔

ایک وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے اور دوسرا آئی ایس پی آر نے لیکن ان سے شکوہ یا شکایت بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ صحافیوں کے تحفظ جیسے غیرضروری معاملات سے شاید ان کا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے