ایک خونی دن کی روئداد

چھٹی والے دن مرغی خریدنے کے لئےقریباً ایک فرلانگ پیدل چلنے کے بعد میں ایک مرغیوں کی دکان کے سامنے کھڑا تھا۔ دوکان اور سڑک کے درمیانی ’’رقبے‘‘ میں تہہ در تہہ کیچڑ تھا، جو قریباً دلدل کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ اس دلدل کو عبور کرنے کے لئے اینٹوں کا ’’پل‘‘ بنایا گیا تھا۔ یعنی ایک ایک قدم کے فاصلے پر ایک ایک اینٹ اس کے پائوں پر پڑتی ہے ۔ بہرحال میں نے اللہ کا نام لیا اور پوری احتیاط سے اینٹوں پر قدم دھرتے ہوئے ’’پل ‘‘ کے دوسری طرف پہنچ گیا۔ دوسری طرف ایک پختہ عمر کے بزرگ لوہے کی کرسی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ان کے بائیں جانب مرغیوں کے تین چار دڑبے تھے اور ان کے برابر میں خون سے لتھڑا ہوا ایک بڑا سا ڈرم تھا۔ اس بزرگ نے سفید قیمتی کپڑے کا استری شدہ کرتا اور دھوتی پہنی ہوئی تھی ۔ میں اس دکان میں داخل ہونے والا غالباً پہلا گاہک تھا کیونکہ چھٹی کے دن کی وجہ سے ابھی صبح کے ہنگامے اپنے عروج پر نہیں تھے اور یوں بھی جب میں نے مرغی کے نرخوں پر سودے بازی کی کوشش کی تو اس بزرگ نے نرمی سے کہا بابو جی’’بونی‘‘کر رہا ہوں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا میں نے آپ کو بالکل جائز نرخ بتائے ہیں، سو میں نے اس بزرگ کے کہنے کو صادق اور امین مانا اور دڑبے میں سے ایک پسند کی کوئی مرغی تلاش کرنے لگا ۔ اوپر تلے دھرے دڑبوں میں سفید پروں والی کتنی ہی مرغیاں جگہ کی تنگی کی وجہ سے ایک دوسرے میں دھنسی ہوئی تھیں۔ ان دڑبوں میں پانی کا ایک کٹورہ اور ایک کٹورے میں ان مرغیوں کے چگنے کے لئے دانہ پڑا ہوا تھا۔

مرغیوں کے اس جھرمٹ میں دو ایک مرغ بھی تھےمگر ان بیچاروں نے اپنی ’’رعایا ‘‘کے ’’حقوق‘‘ کیا پورے کرنے تھے ۔ کہ ان ڈربوں میں تو پر پھڑپھڑانے کی گنجائش نہیں تھی۔ یہاں بیشتر مرغیوں کی گردنوں پر سے بال غائب تھے۔ چنانچہ گردن کے اس حصے سے ان کی چمڑی نظر آ رہی تھی یا تو یہ بال کسی بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے تھے یا ماحول میں ایک دوسرے کو چونچیں مار مار کر انہوں نے ایک دوسرے کا یہ حال کر دیا تھا اور یا پھر مشفق و مہربان دکاندار نےیہ بال خود اکھاڑے تھے تاکہ جب ان کی گردنوں پر چھریاں چلیں تو ان بے زبانوں کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ میں نے ان میں سے ایک درمیانے سائز کی مرغی پسند کی او ربز رگ سے کہا کہ وہ اسے جلدی سے تیار کردے۔ بزرگ نے دڑبے کا دروازہ کھولا اور اس مرغی کو پروں سے کھینچ کر باہر لے آیا۔

دڑبے میں تھوڑی دیر کے لئے ایک شور برپا ہوا مگر پھر خاموشی چھا گئی۔البتہ دکاندار کے ہاتھوں میں لٹکی ہوئی مرغی ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر دکاندار نے اسے اس کے پروں سے باندھ رکھا تھا اور لکڑی کی ایک میز پر اس طرح رکھ دیا تھا جیسے وہ کوئی جامد چیز ہو۔ دودھیا کپڑوں میں ملبوس بزرگ نے اس میز کی دراز سے ایک چولا نکالااور جو خون کے دھبوں سے بھرا پڑا تھا اور اسے اپنے سفید براق ایسے کپڑوں کے اوپر پہن کر ایک ہاتھ سے مرغی کو فضا میں معلق کیا اور دوسرے ہاتھ سے چھری مرغی کے حلق پر پھیر دی۔اب یہ نورانی سا بزرگ ایک خونخوار بزرگ کی صورت میں میرے سامنے تھا۔ مرغی کی گردن پر چھری پھرتے ہی خون کی ایک دھار اس بزرگ کے چولے پر پڑی۔ جس پر پہلے سے کئی مرغیوں کے خون کے دھبے موجود تھے۔ مرغی کے حلق سے تھوڑی دیر کے لئے غوں غاں کی آواز بلند ہوئی تھی پھر یہ آوازمدہم پڑتی چلی گئی البتہ اس کا جسم دکاندار کے ہاتھ میں پھڑکتا رہا ۔ دکاندار نے اس پھڑکتے ہوئے جسم کو قریب پڑے ہوئے ڈرم میں پھینک دیا اور اس کے ٹھنڈے ہونے کے انتظار میں دوبارہ کرسی پر بیٹھ کر حقے کے کش لگانے لگا۔

وہ کرسی پر بیٹھ کر حقے کے کش لگا رہا تھا اور خالی ڈرم میں مرغی پھڑک رہی تھی۔ وہ اپنا سر اور جسم ٹین کے ڈرم کے ساتھ پٹکتی اور اس سے جو ردھم پیدا ہورہا تھا وہ غلام افریقہ کے ڈرم کی تھاپ سے ہم آہنگ تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈرم سے آنے والی آوازیں بند ہو گئیں۔ مرغی نے تڑپنا پھڑکنا بند کر دیا تھا چنانچہ دکاندار نے ڈرم میں ہاتھ ڈالا اور اس کی لاش کو ٹانگ سے پکڑ کر میز پر رکھ دیا اور پھر منٹوں میں اس کی کھال اتار کر اس کی بوٹیاں بنائیں اور پھر انہیں پولیتھین کے لفافے میں بند کر کےلفافہ میرے حوالے کر دیا اس کے بعد وہ ایک کپڑے سے خون آلود چھری صاف کرنے لگا پھر اس نے خون کے دھبوں سے بھرا ہوا چولا اتار کر دوبارہ سفید براق ایسا کرتا پہن لیا۔ جس پر خون کی ایک چھینٹ بھی نہیں تھی ۔ اس کا آٹھ نو سالہ پوتا اس کے لئے گھر سے ناشتہ اور آج کا اخبار لے کر آیا تھا ۔ اب وہ ناشتے کے ساتھ ساتھ کشمیر، عراق ، شام ، فلسطین اور برما میں مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں ایک لاتعلقی کے ساتھ پڑھ رہا تھا ۔ میں نے اخبار سے منسلک ادبی صفحے پر ایک چھچھلتی سی نظر ڈالی جس میں کسی قاری نے پوچھا تھا کہ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
والا شعر کس شاعر کا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے