ضیاء الحق زندہ ہے ؟

چار اپریل کا حساب چکانا آسان نہیں ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ دن ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے ہر ہر سال منایا جاتا ہے اور گڑھی خدا بخش میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اپنی جماعت کے کرشمہ ساز بانی کی میراث کو سنبھالے رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔ ایک بار پھر یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کی سیاست کے افق پر کیسے ایک شعلہ سا لپکا اور ڈوب گیا لیکن اب تو بھٹو کی پھانسی کو 39سال گزر گئے۔ دنیا کو تو جتنا بدلنا تھا وہ بدل گئی۔ خود پاکستان کی موجودہ آبادی کی اکثریت کی پیدائش اس سانحے کے بعد کی ہے۔ سو اب ہمارے لئے ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کی نظر میں بھٹو کی کیا اہمیت ہے؟ آپ یہ سوچئے کہ کیا کسی یونیورسٹی کے کیمپس پر آج کی سیاست کے تناظر میں بھٹو کا ذکر ہوتا ہو گا یا نہیں۔

اس کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے کہ پاکستان کی تاریخ باقاعدہ طور پر کہاں کہاں اور کیسے پڑھائی جاتی ہے اور وہ جو تاریخ سے سبق سیکھنے کا معاملہ ہے تو وہ تو بہت دور کی بات ہے۔ تاریخ سے واقفیت پہلی شرط ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ چار اپریل جیسے دن جب میڈیا میں منائے جاتے ہیں تو چند باتوں کا اعادہ ہو جاتا ہے۔ ٹاک شوز میں ایک دوسرے سے الجھنے والے سیاسی ترجمان ان تضادات کی بھی کچھ نشاندہی کر دیتے ہیں جو بھٹو کی شخصیت کا حصّہ تھے۔ ایک مختصرزندگی میں بھٹو نے کتنا طویل سیاسی سفر طے کیا اور منظرنامہ کتنی تیزی سے تبدیل ہوتا رہا اس کی ایک جھلک دیکھنے کو مل جاتی ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ چار اپریل کا تعلق صرف بھٹو کی پھانسی سے نہیں ہے۔

ایک بڑا حوالہ ضیا الحق کے مارشل لاکا ہے اور اتنا ہی اہم حوالہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا ہے کہ جس نے بھٹو کو موت کی سزا سنائی۔یوں کلاسیکی داستانوں کی مانند ایک تکون کا تاثّر ابھرتا ہے یعنی ایک فوجی آمر، اعلیٰ عدالت اور اپنے وقت کا سب سے بڑا اور عوام کے ایک بڑے طبقے میں مقبول سیاستدان… کیونکہ بھٹو کی دی جانے والی سزا کو اب عدالتی قتل مانا جاتا ہے اور اس فیصلے کو اب نظیر کے طور پر بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی ایسی عدالتی کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں بھٹو وہ واحد بڑی شخصیت تھا کہ جس کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ یہ دوسری بات ہے کہ نہ جانے کتنے قتل کس کس کے کہنے پر کئے جا چکےہیں اور کسی نہ کسی اہم رہنما نے خود بھی شاید کوئی قتل کیا ہو، اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو جیسی سیاسی شخصیت بھی اب دوبارہ پیدا ہوتی دکھائی نہیں دیتی، البتہ یہ ہم جانتے ہیں کہ ہر نیا لیڈر جو چھا جانا چاہتا ہے اپنے دل میں بھٹو بننے کی تڑپ رکھتا ہے، رہا فوجی آمر کا کردار تو یہ بھی ظاہر ہے کہ اب کوئی ضیاالحق یا کوئی مارشل لا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

اگر ایسا ہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب ہماری سیاست میں بھٹو کی پھانسی جیسے سانحے اور ایک طویل مارشل لاکی تاریکی جیسے عذاب کی کوئی گنجائش نہیں ہے، دوسرے الفاظ میں کیا ہم اس زمانے کی گرفت سے آزاد ہو چکے ہیں؟بدھ کے دن یعنی چار اپریل کو میرا ذہن ایسے ہی سوالات میں الجھا رہا، تب مجھے وہ دن بھی یاد آئے جن کی میں کسی حد تک بہ طور ایک صحافی گواہی بھی دے سکتا ہوں۔ واقعات کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں، بس یہ بتا دوں کہ ضیا الحق کے پورے دور میں مجھے کراچی کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا موقع ملا اور میں نے پوری کوشش کی کہ ماحول کے اضطراب اور بے چینی کی سچّی عکاسی کر سکوں، ادب بلکہ شاعری سے شغف نے کافی سہارا دیا کیونکہ کھل کر بات کرنا تب بھی مشکل تھا پھر ایسے دن بھی آئے جب سینسرشپ نافذ کی گئی، ایک وقفہ ایسا بھی تھا جب اخبارات کو بھٹو کا نام لکھنے کی بھی اجازت نہ تھی۔

مجھے اس کا ایک توڑ یوں ملا کہ امریکہ کے سیاہ فام رہنما مارٹن لوتھر کنگ کو چار اپریل کو قتل کیا گیا تھا، سو میں نے ان کا ذکر اس طرح کیا کہ پڑھنے والے سمجھ گئے کہ اشارہ کس کی طرف کیا گیا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ کی وہ تقریر کہ ’میرا بھی ہے اک خواب‘ ہمارے حالات کے مطابق تھی۔ یہاں میں یہ بھی آپ کو بتائوں کہ اس سال چار اپریل کو کنگ کے قتل کو پورے پچاس سال گزر گئے اور امریکہ میں اس کا کافی چرچا رہا۔ سیاہ فام امریکی شہریوں کی جدوجہد ان پچاس سالوں میں کئی کامیابیاں حاصل کرچکی ہے اور ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بھی بن چکا ہے لیکن کنگ کے خواب کی تعبیر ابھی ادھوری ہے۔ کنگ کی شخصیت اور اس کی تحریک کے بارے میں نہ جانے کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور ان کی پچاس سالہ برسی کے موقع پر چند نئی کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ یہ وہ محاذ ہے علمی اور فکری بیداری کا کہ جس پر ہماری پسپائی ایک المیہ ہے۔ یہ شکایت میں کر چکا ہوں کہ تاریخ کو جاننے اور سمجھنے کی ہم میں کتنی کم سکت ہے اور اسی لئے ہمارے اجتماعی ذہن نے ضیاالحق کے مارشل لا اور بھٹو کے سیاسی سفر کے مضمرات پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج کے حالات کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ سب اپنی اپنی رائے جوش و خروش سے دے کر جانب داری کو سچّائی کی دلیل سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ کئی باطل خیالات ہماری سوچ کو آلودہ کر رہے ہیں۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھٹو کی پھانسی سے منسلک حالات و واقعات کا کوئی رشتہ آج کے زمانے سے قائم نہیں ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ ضیا الحق نے بھٹو اور پیپلز پارٹی کی سیاست پر حاوی ہونے کیلئے مذہب کی سیاست کو فروغ دیا۔ پھر افغان جہاد میں پاکستان کی شرکت نے پورے معاشرے کو مذہبی انتہاپسندی اور تعصّب کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ اس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ یہ جان کر دل نہیں بہلتا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم جیت چکے ہیں یا جیت رہے ہیں کیونکہ معاشرے میں نفرت اور قدامت پرستی کی جڑیں گہری ہیں۔ بھٹو کی ابتدائی سیاست نے جن لبرل خیالات اور روشن خیالی کو اس معاشرے میں ایک نئی قوّت دی تھی اس میں اضافہ تو دور کی بات ہے، اس کی مراجعت دکھائی دے رہی ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ بچیوں کی تعلیم کیلئے ملالہ یوسف زئی کی تحریک کو اس کے اپنے ملک میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بے شمار لوگ اسے مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں اور اس طرح وہ انجانے میں یا شاید جان بوجھ کر طالبان کے نظریات کی حمایت کرتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت بھی اور حکمراں بھی سیاست میں مذہبی انتہاپسندی کی ملاوٹ کو قبول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہت کچھ ہم دیکھ چکے ہیں اور لگتا ہے کہ بہت کچھ دیکھنے کو باقی ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جو لڑکیوں کی تعلیم، عورتوں کی آزادی اور روشن خیالی کو پاکستان کے نظریہ سے انحراف سمجھتے ہیں، یہ نہیں جانتے کہ ان کے اذہان میں جو فصل پک چکی ہے اس کے بیج ضیا الحق نے بوئے تھے اور اب یہ انکشاف کیا جا چکا ہے کہ دراصل وہی مغرب کی سازش تھی کہ جس نے پرتشدد انتہاپسندی اور قدامت پرستی کو فروغ دیا۔ میں انکشاف کی بات اس لئے کر رہا ہوں کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ امریکہ کے دورے کے آخری دن اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘کو ایک طویل انٹرویو دیا جس میں انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سعودی عرب نے سرد جنگ کے زمانے میں جو مسلمان ملکوں میں مساجد اور مدرسوں کو خطیر رقوم دیں اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ اور اس کے دوست ممالک مسلمان ملکوں میں سوویت یونین کے اثرو رسوخ کو روکنا چاہتے تھے۔ ضیا الحق کی پالیسیوں کا یہ پہلو جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کی سمجھ میں آ رہا تھا۔ آپ دیکھیں کہ جو سازش اس زمانے میں کی گئی وہ کتنی کامیاب ہوئی لیکن ان معنوں میں نہیں کہ اس ملک اور اس معاشرے کو آگے بڑھنے کا راستہ دکھائی دینے لگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے