چینی سے زخموں کا علاج

کچھ میٹھا ہو جائے’۔ انڈیا اور پاکستان میں یہ جملہ عام ہے کہ کھانے کے بعد کوئی میٹھی چیز یا ڈیزرٹ ہو۔ ہر خوشی کے موقعے پر مٹھائی کھلانے اور منھ میٹھا کرنے کی بات کی جاتی ہے۔

اس کے برعکس تکلیف دینے کے موقعے پر ہم ایک دوسرا جملہ ‘زخموں پر نمک نہ چھڑکو’ کہتے ہیں۔ یعنی ایک خوشی کے اظہار کے لیے ہے تو ایک تکلیف کے لیے ہے۔

اگر ان دونوں جملوں کو ملا کر اس طرح کہا جائے کہ ‘زخم پر شیرنی ڈال دو’ اور میٹھے سے زخم بھرنے لگیں تو وہ کسی مرہم سے کم نہیں۔

شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ شکر سے زخم کیسے بھر سکتے ہیں تو سنیے کہ سائنسدان کچھ اس طرح کا تجربہ کر رہے ہیں جس کی مدد سے وہ اینٹی بائیوٹکس کے بجائے شکر سے زخموں کو بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں اس سمت میں کامیابی بھی نظر آئی ہے۔

زمبابوے کے موزز مرانڈو برطانیہ میں نرسنگ کا کام کرتے ہیں اور انھوں نے ہی زور شور سے زخم بھرنے کے لیے اینٹی بایوٹکس کی جگہ شکر کے استعمال کی مہم شروع کر رکھی ہے۔

مرانڈو کا بچپن غریبی اور دکھ کی کہانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دوڑنے یا کھیلنے کے دوران انھیں چوٹ آتی تھی تو ان کے والد ان کے زخموں پر نمک ڈال دیتے تھے۔ لیکن جب ان کے پاس پیسے ہوتے تو وہ نمک کے بجائے زخم پر شکر ڈال دیا کرتے تھے۔

مرانڈو کو اب بھی یاد ہے کہ چینی ڈالنے سے زخم جلد بھر جایا کرتے تھے۔

بعد میں موزز مرانڈو کو 1997 میں برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ میں نرس کے طور پر ملازمت ملی جہاں انھوں نے محسوس کیا کہ زخم بھرنے کے لیے چینی کا استعمال نہیں کیا جاتا جس کے بعد انھوں نے زخموں کو بھرنے کے لیے چینی یعنی شکر کے استعمال کا فیصلہ کیا۔

مرانڈو کے ابتدائی تجربات کامیاب تھے اور اب اینٹی بایوٹکس کی جگہ چینی کے استعمال کی ان کی تجویز کو سنجیدگی سے لے لیا جا رہا ہے۔

انھوں نے برطانیہ کی وولور ہیمپٹن یونیورسٹی میں زخم بھرنے میں شکر کے کردار پر تحقیق کی اور اس کے لیے گذشتہ ماہ انھیں ایوارڈ دیا گیا۔

شکر سے زخم بھرنے کے اس نسخے کو دنیا کے بہت سے ممالک میں ہاتھوں ہاتھ لیا جا سکتا ہے۔ بہت سے غریب افراد جو اینٹی بائیوٹکس کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے ان کے زخموں کے لیے شکر مرہم کا کام کر سکتا ہے۔

اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال سے اس کے اثرات کم ہو رہے ہیں اور جراثیم میں اینٹی بائیوٹکس سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔

مرانڈو کا کہنا ہے کہ شکر کا استعمال بہت آسان ہے۔ ہمیں صرف اپنے زخموں پر شکر ڈالنا ہے اور زخم پر پٹی باندھ لینی ہے۔

شکر کے دانے زخموں میں موجود نمی کو جذب کر لیتے ہیں جس سے بیکٹیریا پیدا ہوتے ہیں۔ بیکٹیریا کی عدم موجودگی میں زخم جلد بھر جاتے ہیں۔

موزز مرانڈو نے لیب میں شکر اور زخم بھرنے کے تعلق سے تجربہ کیا۔

لیکن بڑی فارما کمپنیاں اس تحقیق کو فروغ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اگر لوگ زخم پر شکر استعمال کرنے لگے تو پھر کون ان کی مہنگی اینٹی بائیوٹکس خریدے گا؟

موزز مرانڈو کہتے ہیں بوٹسوانا کی ایک خاتون کا زخم پانچ سال سے نہیں بھر رہا تھا اور داکٹروں نے پاؤں کاٹنا تجویز کر دیا تھا پر اس خاتون نے مرانڈو کو خط لکھا اور انھوں نے اسے زخموں پر شکر ڈال کر پٹی باندھنے کی صلاح دی جس کے نتیجے میں ان کا زخم ٹھیک ہو گیا اور پاؤں بچ گیا۔

امریکی ڈاکٹر نے سب سے پہلے شکر سے کتے کا علاج کیا تھا

مرانڈو نے ابھی تک برطانیہ میں 41 افراد پر شکر کے اثرات کا تجربہ کیا ہے۔ انھوں نے اپنی تحقیق بین الاقوامی میڈیکل کانفرنسز میں پیش کی ہے جسے ڈاکٹروں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ مزید امید افزا بات یہ ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو بھی اس سے فائدہ پہنچا ہے۔

امریکہ کی الی نوا یونیورسٹی میں مویشیوں کی ڈاکٹر میرن میکمائیکل بھی شکر سے زخم بھرنے کا کام کر رہی ہیں۔

انھوں نے سنہ 2002 سے ہی زخم بھرنے کے لیے شکر کا استعمال شروع کیا تھا اور سب سے پہلے ایک کتے کا علاج کیا تھا۔ میرن نے شہد سے بھی زخم کا علاج کیا ہے لیکن یہ نسخہ نسبتاً مہنگا ہے۔

برطانوی سائنسدان شیلا میک نیل ذرا الگ تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قدرتی طریقے سے بنے شکر سے ہمارے جسم کے خلیات میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ شکر کی موجودگی میں جسم کا فروغ تیز ہوتا ہے۔

شیلا جس قدرتی شکر کی بات کرتی ہیں وہ ہمار جسم خود ہی بناتا ہے اور اسے لیب میں تیار کرنے کی صلاحیت انسانوں میں نہیں آئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے