ٹیکس فری جنت کے رہائشی

پاکستان میں ایک بار پھر لوگوں اور اداروں کو ٹیکس دینے پر آمادہ کرنے کے لیے ایک اور رعایتی سکیم کا اعلان ہوا ہے۔ جس کے تحت انکم ٹیکس کی انتہائی شرح پینتیس فیصد سے کم کر کے پندرہ فیصد کر دی گئی ہے۔ جس کی ماہوار آمدنی ایک لاکھ روپے تک ہے اسے کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔

سادہ مزاج وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے امید ظاہر کی ہے کہ نئی ٹیکس ترغیبات سے ٹیکس دینے والوں کی تعداد بارہ لاکھ کاغذی اور سات لاکھ عملی ٹیکس دھندگان سے بڑھ کر تیس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

تاہم اس خوشخبری کا پہلا اثر تو یہ ہوا کہ ٹیکس سے مستثنٰی آمدنی کی حد چار لاکھ روپے سالانہ سے بڑھا کر بارہ لاکھ روپے سالانہ ہوتے ہی سات لاکھ رجسٹرڈ عملی ٹیکس دھندگان میں سے پانچ لاکھ بائیس ہزار افراد موجودہ ٹیکس نیٹ سے نکل گئے۔

گویا آج کی تاریخ میں اکیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف دو لاکھ اٹھہتر ہزار شہری اور ادارے انکم ٹیکس ادا کرنے کے قابل ہیں کہ جن کی اعلانیہ آمدنی بارہ لاکھ روپے سے اوپر ہے۔

نئی ٹیکس سکیم کے مطابق اب قومی شناختی کارڈ کا نمبر ہی ہر شہری کا نیشنل ٹیکس نمبر تصور کیا جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صبح ہی صبح میرے گھر کی صفائی کے لیے آنے والی ماسی رقیہ کو بھی ٹیکس کا سالانہ گوشوارہ جمع کرانا ہوگا۔

کیونکہ وہ بھی ان ساڑھے چار کروڑ پاکستانی شہریوں میں شامل ہے جن کے پاس نادرا کا قومی شناختی کارڈ عرف ٹیکس نمبر ہے۔

یہ الگ بات کہ جب میں نے ماسی رقیہ سے پوچھا کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے تو اس نے بڑی سچائی سے بتایا کہ شناختی کارڈ والے کہتے ہیں کہ میں پاکستان میں پیدا ہوئی، میرا پچھلا صاحب سمجھتا ہے کہ میں پنجاب سے آئی ہوں، میرا گھر والا کہتا ہے کہ ہم خان پور کے ہیں اور ماں کہتی ہے کہ ہم لوگ چک ایک سو اٹھارہ کے پیدائشی ہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کر لو کہ میں کہاں کی ہوں۔

اور یہ صرف ان پڑھ ماسی رقیہ کی نہیں ہم سب کی کہانی ہے۔ جیسے ڈومیسائل کے حساب سے میں رحیم یار خان کا ہوں، رہائش کراچی میں ہے، طبقہ مڈل کلاس ہے، فلیٹ کی کاغذی قیمت پونے چار لاکھ مگر سٹیٹ ایجنٹ کا کہنا ہے کہ یہ پچھتر لاکھ میں بک سکتا ہے۔ کار بیوی کے نام پر ہے، بجلی پانی، گیس اور پراپرٹی ٹیکس کے بل اب تک پرانے مالک مکان کے نام پر آتے ہیں۔

کاروباری آمدنی ویسے تو ماشااللہ اچھی خاصی ہے لیکن بینک کے قرض کی شکل میں اجاڑا ہی اجاڑا ہے۔

پھر بھی یہ معجزہ ہی تو ہے کہ مجھے ہر سال اپنے ضدی بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں یورپ کی سیر کرانا پڑتی ہے اور کہیں بچے احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہو جائیں انہیں ایسے سکول میں بھیجنا پڑ رہا ہے جس کی ماہانہ فیس بیس ہزار روپے سے کم نہیں۔ اللہ جانتا ہے جس مشکل سے گزارہ ہو رہا ہے۔ اس پر مزید ظلم کہ ہر حکومت بہانے بہانے ہم جیسے مجبوروں کو ٹیکس نیٹ میں بھی لانا چاہتی ہے۔ جبکہ میں سوچ رہا ہوں کہ لگے ہاتھوں خود کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر کروا لوں۔

ویسے تو اکیس کروڑ کے اس ملک میں قاعدے سے کم از کم ساڑھے چار سے پانچ کروڑ افراد کو ٹیکس دینا چاہیے مگر نئی ٹیکس اصلاحات کے بعد صرف سوا دو سے ڈھائی لاکھ افراد ہی براہِ راست ٹیکس دیں گے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ جو جتنا صاحبِ حیثیت ہے وہ اتنا ہی لاچار و مجبور ہے تو پھر ڈھائی لاکھ افراد سے بھی ٹیکس لینے کی کیا مصیبت پڑ گئی۔

پچھلے ساٹھ برس کے دوران گیارہ بار مختلف ناموں سے ٹیکس اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن نہ اپنی جیت نئی ہے نہ ان کی ہار نئی۔ ہم پاکستان کے لیے جان تو دے سکتے ہیں ٹیکس ہرگز نہیں۔ یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اس کے۔ موا ٹیکس بیچ میں کہاں سے آ گیا۔

اگر اس پر عملی اتفاق ہو چکا کہ یہ ملک عملاً ٹیکس فری ہے تو پھر اسے باضابطہ طور پر پاناما، کیمن آئی لینڈ، سوئٹزر لینڈ، برمودا اور جرسی کی طرح ٹیکس جنت قرار دینے میں کیا اڑچن ہے۔

پہلی مسلمان ایٹمی طاقت تو ہم ہیں ہی۔ پہلی مسلمان ’ٹیکس ہیون‘ بننے کا اعزاز بھی کیوں نہیں؟ اگر مرنے کے بعد بھی ٹیکس فری جنت میں ہی رہنا ہے تو اس فانی زندگی سے ہی کیوں نہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے