عمران آ رہاہے؟

گو تبدیلی کی ہوا دیرسے چلی ہے مگر اب چل پڑی ہے انتخابی گھوڑے پرانے اصطبلوں سےرسّے تڑاکر بنی گالہ کی سبز چرا گاہ کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ فضا مترنم ہے۔ چوہدری فواد جہلمی نے تو خود ہما کو عمران خان کے سر پربیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ رنگ برنگا ایرانی سیمرغ، جو صرف داستانوں اور شاعری میں موجود رہ گیا ہے، آج کل بنی گالہ کےکئی درختوںپر رقص کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ روحانیت کا اثر بھی جاری ہے۔ مخالفوں کے خلاف گھیرا جاری ہے اور عمران کا مستقبل سنہری نظر آ رہا ہے، ایسے میں کیوںنہ سو چاجائے کہ عمران آرہا ہے۔

سیاسی منظر میں تبدیلی سے انتخابی منظر بھی تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ملک کے تقریباً ہر حلقے میں تحریک ِ انصاف کو انتخابی گھوڑے میسر آچکے ہیں جو ریس میں بہترین مقابلہ کریں گے۔ اعداد وشمار کو دیکھا جائے تووہ بڑے حیران کن اور پریشان کن ہیں ۔ وہی ملک جس میں الیکشن اتحاد کا منظر پیش کرتا تھا، اب انتشار کا منظر پیش کرے گا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ کچھ انتخابی نشستیں پہلے ہی فتح ہوچکی ہیں۔ انہیں ہم آسانی کےلئے ’’مفتوحہ‘‘ کہہ دیتے ہیں۔ بلوچستان کی 16،فاٹا کی 12اور شہری سندھ کی 21نشستیں ملا کرتقریباً 50کا بلاک بنتا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں جو کردار بلوچستان گروپ نے ادا کیا تھا، وہی کردار آئندہ الیکشن میں بھی نظر آئے گا۔ مفتوحہ بلاک وہ ہے جہاں آپریشن کے مطابق معاملات مکمل طورپرکنٹرول میں آگئے ہیں وہاں صرف امن و امان ہی کنٹرول میں نہیں آیا سیاست بھی کنٹرول میں آگئی ہے۔

دوسرے بلاک کو ’’مجروحہ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ یہ پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی کا ہوگا۔ یہ پہلے کافی ٹیڑھے ہوتے تھے، مونچھوں پر تائو دیا کرتے تھے، سینہ پھلاکر چلا کرتے تھے مگر ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اورشرجیل میمن کاحال دیکھ کر ان کے مجروح دل نے نئی انگڑائی لی ہے اور اب وہ مکمل طور پر سدھائےجاچکےہیں۔ ان کو تھوڑا بہت مجروح کرنا پڑا اس لئے انہیں مجروحہ کہتے ہیں۔ مجروح گروپ کی دیہی سندھ کی 36نشستوں پر نظر ہے۔ انہیں امید ہے کہ جنوبی پنجاب، خیبرپختونخوا اور ’’اِدھر اُدھر‘‘ سے وہ 15، 16 مزید نشستیں لے کر سینیٹ الیکشن والا منظر دہرانے کی کوشش کریں گے۔ سیاسی شطرنج کے کھلاڑی آصف زرداری اسی لئے سمجھتے ہیں کہ مفتوحہ اور مجروحہ گروپ مل کر آئندہ انتخابات کی گیم بدل دیں گے۔

مشکل صرف ایک بلاک کی طرف سے ہے جسے ’’مقبوضہ‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ اس بلاک پر ن لیگ قابض ہے۔ پنجاب کی 141نشستیں حلق کا وہ کانٹا ہیں جن کا مسئلہ حل کئے بغیر اگلی حکومت بنانا ممکن نہیں۔ مقبوضہ گروپ ان دنوں ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے۔ جنوبی پنجاب کے 10اراکین نے مخدوم خسرو بختیار کی سربراہی میں صوبہ جنوبی پنجاب کے مطالبے پر ن لیگ سے علیحدگی اختیارکرلی۔ کچھ لوگ نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کی وجہ سے پارٹی بدلنا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ نشستوں کو کم سے کم کرنے کے لئے حکومت پنجاب کی کارکردگی پرسنجیدہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ کوشش یہ ہو گی کہ پنجاب میں ن لیگ کی نشستیں آدھی رہ جائیں۔ یوں 70کے قریب نشستیں مقبوضہ رہ جائیں گی جبکہ باقی 70نشستیں مفتوحہ میں شامل ہوجائیں گی لیکن یہ70نشستیں مفتوحہ بلاک کو نہیں بلکہ ’’صادقیہ‘‘ گروپ کو ملیں گی۔ عمران خان کو چونکہ عدالت نے صادق اور امین قراردے دیا ہے اس لئے اسے ’’صادقیہ‘‘ سے بہتر کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ صادقیہ نے 2013میں مجموعی طورپر 35نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ کوشش یہ ہوگی کہ پنجاب میں 60 سے 70 نشستیں ’’مقبوضہ‘‘ سے لے کر ’’صادقیہ‘‘ کو دے دی جائیں یوں صادقیہ بآسانی 100سے زائد نشستوں پر محیط سب سے بڑا بلاک بن جائے گا۔ مفتوحہ اور مجروحہ ساتھ مل گئے تو حکومت کامیابی سے چل جائےگی۔ مفتوحہ کے 50لوگ عمران خان پر بھی احتسابی نظررکھیں گے تاکہ وہ اتنے آزاد نہ ہوجائیں کہ اپنی مرضی کے فیصلے کرتے پھریں۔

فرض کرلیںکہ معلق پارلیمان میں سے صادقیہ گروپ حکومت بنا لیتا ہے، عمران خان وزیراعظم بن جاتے ہیں توکیاوہ حکومت چلالیں گے؟ میرے خیال میں عمران نے 100سے زائد اوورسیز پاکستانیوں کی ایک فہرست بنارکھی ہے جنہیں وہ واپس بلا کر مختلف شعبوںکو ان کے حوالے کریں گے تاکہ وہ ان شعبوں کی اصلاح کریں۔

یہ سب ٹھیک سہی مگر کوئی عمران خان کو جا کر یہ بھی کہے کہ وہ ملک کی معاشی پالیسی کاکوئی نقشہ بھی تو پیش کرے اپنی شیڈو کابینہ کا بھی تو اعلان کرے۔

عمران خان کو چاہئے کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے اپنا پروگرام سامنے لائے تاکہ ابھی سے اس پر بحث و نظر ہو اور جب اس پر عمل کا وقت آئے تو معاملات پہلے سے طے شدہ ہوں اس وقت بحث کا آغاز نہ ہوجائے۔ ’’صادقیہ‘‘ گروپ کو میڈیا کے حوالے سے بھی ازسر نوغور کرنا چاہئے۔ میڈیا اور اینکرز سے مسلسل ناراضی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے تو سمجھ آسکتی ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کی میڈیا سے لڑائی دنیا بھر میں مذاق بن جائے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کی جائے اور مخالفانہ بات کو سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔

عمران خان کو سیاسی لیڈر سے اگر قومی لیڈر بننا ہے تو انہیں خاموشی کا روزہ توڑ کر خارجہ پالیسی اور فوج کے حوالے سے بھی اپنی سوچ کا اظہار کرناچاہئے۔ سول ملٹری تعلقات کیسے بہتر ہوں گے؟ اس پر بھی بات ہونی چاہئے کہ پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ یہی رہا ہے۔ فی الحال ’’صادقیہ گروپ‘‘ کا اس پر کوئی واضح موقف نہیں ہے۔ اسی طرح عمران خان کو اپنی حکومت کے پہلے سو دن کا ایجنڈا بھی سامنے لانا چاہئے۔ وہ ان سو دنوںمیں ’’نیا پاکستان‘‘ کارخ کس طرح متعین کریں گے؟ ان کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ عمران خان کی خدمت میں یہ بھی عرض کرنا چاہئے کہ ان کے حامیوں کی بڑی تعداد پاکستانی مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے، یہ کلاس تیز ترین تبدیلی پر یقین رکھتی ہے۔

مڈل کلاس سب سے زیادہ تیزی سے مایوس بھی ہوتی ہے۔ یہ فوراً سیاسی بے وفائی پر بھی آمادہ ہوجاتی ہے، اس لئے عمران خان کو لمبا ہنی مون پیریڈ نہیں ملے گا اور انہیں جلد از جلد تبدیلی لانا ہوگی۔ دوسری طرف کرپشن اور احتساب کا جو معیار عمران خان اور صادقیہ گروپ نے بنا دیا ہے، اس کا اطلاق ان پر بھی ہوگا۔ عمران خان کواپنی حکومت اور جماعت کو اس قدر شفاف رکھنا ہوگا کہ ایک بھی انگلی ان کی طرف نہ اٹھ سکے اور اگر ایسی انگلیاں اٹھیں تو اخلاقی برتری کا صادقیہ مینار دھڑام سے زمین بوس ہوجائے گا۔

ظاہر ہے کہ اوپر لکھی ہوئی ساری کہانی صرف ایک رخ پر مبنی ہے۔ ن لیگ کی کوشش ہوگی کہ پنجاب کا قلعہ فتح نہ ہو پائے۔ نواز شریف مزاحمتی تلوار اور شہباز شریف مفاہمتی ڈھال سے قلعے کی حفاظت کرتے ہوئے پنجاب سے سو سے زائد نشستیں جیتنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں نظرانداز کرنا مشکل ہو جائے اور وہ مرکزی اور صوبائی سیٹ اپ کے لئے ناگزیر بن جائیں یا پھرہر وقت نئے سیٹ اپ کےلئے خطرہ بنے رہیں۔ یہ ساری فرضی اورتصوراتی باتیں ہیں گو ان میں ماضی کا تجربہ، حال کی تبدیلیاںاور مستقبل کے اشارے شامل ہیں۔ آپ اپنی مرضی کے مطابق اس کہانی میں رنگ بھر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے