بے شرم اور انتہائی بے شرم

چوہدری منظور احمد پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ہیں‘ قصور سے تعلق رکھتے ہیں‘یہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے‘ میں انھیں کل ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں دیکھ رہا تھا‘ ایشو ڈاکٹر رمیش کمار کی پاکستان مسلم لیگ ن سے پاکستان تحریک انصاف میں آمد تھا‘ اینکر طلعت حسین نے چوہدری منظور احمد سے رائے پوچھی‘ چوہدری صاحب نے فوراً جواب دیا ’’یہ بے شرمی ہے‘‘ دوسرے مہمان وزیر مملکت ڈاکٹر طارق فضل چوہدری تھے‘ یہ بولے ’’یہ صرف بے شرمی نہیں‘ یہ انتہائی بے شرمی ہے‘‘ یہ سن کر میرا قہقہہ نکل گیا۔

مجھے یقین ہے یہ رائے سن کر ڈاکٹر رمیش کمار بھی ہنس پڑے ہوں گے‘ کیوں؟ کیونکہ سیاست میں جو کسر بچ گئی تھی وہ ڈاکٹر رمیش کمارکی وجہ سے پوری ہو گئی‘ ملک میں سیاستدانوں نے ٹی وی پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو بے شرمی اور انتہائی بے شرمی کا ٹائٹل بھی دے دیا‘ اب صرف ماں بہن کی گالی باقی ہے اور مجھے یقین ہے یہ پُل بھی کسی دن عبور ہو جائے گا‘ سیاستدان لائیو شوز میں ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالی بھی دے دیں گے۔

ہم بے شرمی میں آگے بڑھنے سے پہلے ڈاکٹر رمیش کمار کے پس منظر پر روشنی ڈالیں گے‘ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی تھرپارکر کے قصبے اسلام کوٹ میں پیدا ہوئے‘ والد سیتل داس ڈاکٹر تھے‘ یہ چار بھائی اور ایک بہن ہیں‘ تمام بہن بھائی پڑھے لکھے اور خوش حال ہیں‘ چاروں بھائی بھی ڈاکٹر ہیں اور بہن کے خاوند بھی‘ یہ لوگ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کا بزنس کرتے ہیں‘ کمار فیملی نے کراچی‘ حیدر آباد اور میر پور خاص میں ایم آر آئی اور سی ٹی سکین کی لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں۔

ڈاکٹر رمیش کمار بھی اسی کاروبار سے وابستہ ہیں‘ یہ 2002ء میں سیاست میں آئے‘پاکستان مسلم لیگ ق جوائن کی ‘پارٹی نے انھیں خصوصی سیٹ پر ایم پی اے بنوا دیا‘ یہ بلوچستان کے معروف سیاستدان لشکری رئیسانی کے دوست ہیں‘ لشکری رئیسانی 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے‘ ڈاکٹر رمیش کمار نے اپنا ووٹ سندھ سے بلوچستان شفٹ کیا‘ لشکری رئیسانی نے انھیں بلوچستان سے پاکستان پیپلز پارٹی کا سینیٹ کا ٹکٹ لے کر دیا‘ ڈاکٹر رمیش کمار نے الیکشن لڑا لیکن یہ ایک ووٹ سے سینیٹ کی سیٹ ہار گئے۔

لشکری رئیسانی 2013ء کے الیکشنوں سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے‘ لشکری رئیسانی اور میاں شہباز شریف کے درمیان ڈیل ہوئی‘ پاکستان مسلم لیگ ن ڈاکٹر رمیش کمار کو اقلیتوں کی خصوصی سیٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر بنائے گی‘ مشاہد اللہ نے کھل کر رمیش کمار کی مخالفت کی لیکن یہ میاں شہباز شریف کی ڈیل کے سامنے بے بس ہو گئے اور یوں ڈاکٹر رمیش کمار 2013ء میں لشکری رئیسانی کی سفارش پر خصوصی سیٹ پر ایم این اے بن گئے‘ ڈاکٹر رمیش کمار ایک دوسری کہانی سناتے ہیں۔

یہ کہتے ہیں مجھے میاں شہباز شریف نے فون کر کے لاہور میں ناشتے پر بلایا تھا اور کہا تھا ’’ہمیں آپ جیسے انٹیلیکچولز کی ضرورت ہے‘ آپ ہماری پارٹی جوائن کر لیں‘‘ میں پاکستان مسلم لیگ ن میں آیا اور میں پھر لشکری رئیسانی سمیت بلوچستان کے 21 سیاستدانوں کو ن لیگ میں لے کر آیا‘ یہ بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی حکومت کو بھی اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں‘ یہ کہتے ہیں ’’میاں نواز شریف ڈاکٹر مالک کے نام سے بھی واقف نہیں تھے‘ یہ میں تھا جس نے ڈاکٹر مالک کو میاں نواز شریف سے متعارف بھی کرایا اور وزیراعلیٰ بھی بنوایا‘‘ بہرحال قصہ مختصر ڈاکٹر رمیش کمار جون 2013ء سے اپریل 2018ء تک چار سال 9 ماہ پاکستان مسلم لیگ ن کا حصہ رہے۔

یہ پاناما اسکینڈل کے پورے ایشو میں پارٹی اور شریف فیملی کو ڈیفنڈ کرتے رہے‘ یہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان پر کھل کر تنقید بھی کرتے رہے‘ ڈاکٹر رمیش کی اہلیہ ڈاکٹر سویتا کے خلاف اس دوران 64 کروڑ روپے کا اسکینڈل بھی بنا‘ ڈاکٹر سویتا ای پی آئی پروگرام کی ڈپٹی پروگرام منیجر تھیں‘ ڈاکٹر سویتا کی تقرری بھی متنازعہ تھی اور اہلیت بھی‘ ایف آئی اے نے ان کے خلاف انکوائری شروع کی‘ یہ64 کروڑ روپے کی ویکسین کی خوردبرد میں ڈاکٹر سویتا کو گرفتار بھی کرنا چاہتی تھی لیکن پھر یہ ایشو ٹھپ ہو گیا۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے ذرایع کا کہنا ہے ڈاکٹر رمیش کمار نے ایف آئی اے کو مینج کیا تھا‘ چوہدری نثار اس وقت وزیر داخلہ تھے‘ یہ ایف آئی اے کے باس تھے‘ یہ بھی ڈاکٹر رمیش کمار کی مدد کرتے رہے تھے یوں 64 کروڑ روپے کا اسکینڈل فائلوں میں دب کر ختم ہو گیا‘ ڈاکٹر رمیش کمار 2018ء تک اپنی پوزیشن کا خوب فائدہ اٹھاتے رہے لیکن پھر اچانک الیکشن سے تین ماہ قبل ان کا ضمیر جاگا اور یہ پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے‘ یہ نئی پارٹی میںاکیلے ہندو ہیں چنانچہ پارٹی 2018ء کا الیکشن جیتے یا ہارے لیکن یہ پکے ایم این اے ہوں گے۔

ڈاکٹر رمیش کمار نے 7 اپریل کو پریس کانفرنس میں فرما یا ’’ ڈاکٹر رمیش کمار ایک نظریئے کا نام ہے‘‘ یہ درست فرما رہے تھے‘ یہ واقعی ایک نظریہ ہیں اور بدقسمتی سے ہماری پوری سیاست گردن تک اس نظریئے میں دبی ہوئی ہے‘ چوہدری منظور اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے درست فرمایاتھا‘ یہ بے شرمی بلکہ انتہائی بے شرمی کا مقابلہ ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ بے شرمی صرف ڈاکٹر رمیش کمار نے کی؟

پاکستان مسلم لیگ ن میں سو سے زائد ایسے ایم پی ایز اور ایم این ایز ہیں جو 2013ء سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ق میں ہوتے تھے‘ ان میں سے سات وفاقی کابینہ کا حصہ بنے‘ میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد امیر مقام کو کے پی کے کا تقریباً وزیراعلیٰ بنا چکے ہیں‘ یہ کون ہیں‘ کیا یہ 2013ء میں رمیش کمار نہیں بنے تھے؟ دانیال عزیز‘ زاہد حامد‘ کشمالہ طارق اور ماروی میمن کون ہیں‘ مشاہد حسین سید تازہ ترین رمیش کمار ہیں‘ یہ 2002ء سے 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ ق میں رہے۔

یہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل تھے لیکن میاں نواز شریف نے نہ صرف انھیں قبول کیا بلکہ انھیں سینیٹر بھی بنایا اور یہ 2018ء کے الیکشن کے بعد وزیر خارجہ بھی ہوں گے‘ چوہدری منظور احمد نے جس وقت رمیش کمار کو بے شرم قرار دیا عین اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے دوسرے اقلیتی ایم این اے بھون داس نے پاکستان پیپلز پارٹی جوائن کر لی‘ یہ بھی رمیش کمار کے ساتھ 2013ء میں ن لیگ میں آئے تھے‘ چوہدری منظور کو رمیش کمار کی بے شرمی نظر آ ئی لیکن یہ بھون داس کی بے شرمی پر خاموش رہے‘ کیوں؟

طارق فضل چوہدری کو بھی رمیش کمار کی انتہائی بے شرمی دکھائی دی لیکن انھیں مشاہد حسین سید‘ امیر مقام‘زاہد حامد‘ دانیال عزیز‘ ماروی میمن اور کشمالہ طارق کے ساتھ بیٹھتے کبھی شرم نہیں آئی‘ یہ تمام بے شرمیاں حلال ہیں اور ڈاکٹر رمیش کمار کی بے شرمی حرام‘ کیوں؟ اور پیچھے رہ گئی پاکستان تحریک انصاف تو میں روز عمران خان کے حوصلے کو داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔

پاکستان تحریک انصاف بھی کیا پارٹی ہے اور عمران خان بھی کیا لیڈر ہیں‘ ملک میں آج تک عمران خان سے بڑا سیاسی کباڑیہ کوئی نہیں آیا‘ لوٹا ہو‘ بالٹی ہو یا پھر ڈرم ہو عمران خان کے دروازے ہر شخص‘ ہرشائننگ اسٹار اور ہر انقلابی کے لیے کھلے ہیں‘ مجھے یقین ہے یہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ نذر گوندل ‘ صمصام بخاری‘ ڈاکٹر عامر لیاقت‘ بابر اعوان‘ نورعالم‘یار محمد رند اور آخر میں رمیش کمار کے ذریعے اس پھٹے پرانے ملک کو نیا نکور بنا دیں گے۔

یہ لوگ یقینا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں وہ کارنامے سرانجام دیں گے جو یہ پاکستان مسلم لیگ ن ‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور ق لیگ میں نہیں دے سکے تھے‘ یہ عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر اپنی جیبوں سے وہ سارے چاند نکال کر میز پر رکھ دیں گے جو یہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی موجودگی میں طلوع نہیں کر سکے ‘ یہ لوگ واقعی ایک نظریہ ہیں‘ نظریہ ضرورت‘ یہ لوگ اس وقت تک پارٹی میں رہتے ہیں جب تک ان کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں لیکن جوں ہی ضروریات کی فراہمی بند ہوتی ہے یا پھر دکان کی بندش کا خطرہ پیدا ہوتا ہے یہ جمہوریت زادے رمیش کمار اور خسرو بختیار کی طرح پریس کانفرنس کرتے ہیں اور اڑ کر نئے درخت پر جا بیٹھتے ہیں۔

میں رمیش کمار کو ہرگزہرگز ذمے دار نہیں سمجھتا‘ یہ لوگ تو ہیں ہی نظریہ ضرورت ‘ قوم کے گناہگار‘ قوم کے مجرم میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان ہیں‘ یہ لوگ ان ’’نظریاتی‘‘ لوگوں کو پارٹی میں کیوں لیتے رہے‘ ڈاکٹر رمیش کمار 2013ء تک دو پارٹیاں نبھا چکے تھے‘ میاں نواز شریف نے پھر انھیں کیوں لیا‘ خسرو بختیار ن لیگ میں آنے سے پہلے ق لیگ میں تھے‘ یہ وزیر بھی رہے‘ میاں نواز شریف نے انھیں کیوں لیا تھا اور اب عمران خان یہ غلطی کیوں دہرا رہے ہیں؟

یہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف بننے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں‘ یہ لانڈری مشین کیوں بن رہے ہیں؟ میاں نواز شریف ان لوگوں کو لے کر پچھتا رہے ہیں‘ عمران خان بھی پچھتائیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ مہمان پرندے ہیں‘ یہ کسی ایک گھونسلے میں مستقل نہیں رہ سکتے‘ یہ جس دن نئی منڈیر دیکھیں گے یہ اس دن اس پر ہوں گے اور عمران خان بھی میاں نواز شریف کی طرح ان کی بے شرمی پر حیران پریشان بیٹھے ہوں گے۔

یہ لوگ کسی کے نہیں ہیں‘ یہ صرف اور صرف ضرورت کے بچے ہیں‘ یہ ہمیشہ اپنی والدہ کے ساتھ چلتے ہیں‘ عمران خان آج ڈاکٹر رمیش کمار کو اشارہ دے دیں ’’ہم آپ کو ٹکٹ نہیں دے رہے‘‘ یہ پی ٹی آئی سے چھلانگ لگا کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے‘ یہ ٹکٹ کے لیے حضرت امام خادم حسین رضوی کے ساتھ بھی بیٹھ جائیںگے۔

میں چوہدری منظور اور طارق فضل چوہدری سے اتفاق کرتا ہوں‘ ملک میں سیاست بے شرم اور انتہائی بے شرم ہو چکی ہے تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے پارٹیاں بڑی بے شرم ہیں یا پھر پارٹیاں بدلنے والے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے