امریکا اور پاکستان کا اپنے سفیروں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا امکان

واشنگٹن: امریکا اور پاکستان کی جانب سے انکار کے باوجود دونوں ممالک ایک ایسے سفارتی تنازع پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں، جس کے تحت سفارت کاروں کی نقل و حرکت کو سختی سے محدود کیا جاسکتا ہے۔

اس بارے میں ڈان کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی حکام کو بتایا گیا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے اور دیگر شہروں میں قائم قونصل خانوں کے سفارتکار بغیر اجازت 40 کلو میٹر سے زیادہ دور سفر نہیں کرسکیں گے۔

اس حوالے سے واشنگٹن میں قائم پاکستانی سفارتخانے اور اسلام آباد میں وزارت خارجہ کو ایک خط بھیجا گیا، جس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ اگر کچھ معاملات حل نہیں ہوتے تو ان پابندیوں کا اطلاق یکم مئی سے ہوجائے ہوگا۔

تاہم اس حوالے سے جب ڈان نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا تو ان کے ترجمان نے بتایا ’ وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ہے‘۔

ترجمان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آیا مستقبل قریب میں ان پابندیوں کا اطلاق ہوسکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ اس وقت اس بارے میں کچھ اعلان نہیں کرسکتے‘۔

دوسری جانب پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان کی جانب سے بھی اسی طرح کا جواب سامنے آیا، جس میں انہوں نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں، جبکہ سفارتخانے کو مستقبل کی پابندیوں کے بارے میں کوئی اطلاع بھی موجصول نہی ہوئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک روز قبل امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان ہیتھر نوریٹ کا کہنا تھا ’ اس معاملے پر میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے‘۔

اس حوالے سے ڈان کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ مارچ کے وسط میں پاکستان کو ایک نوٹیفکیشن موصول ہوا تھا اور اس کے بعد سے اسلام آباد اور واشنگٹن میں دونوں اطراف سے اس معاملے پر متعدد مرتبہ تبادلہ خیال کیا گیا۔

تاہم پاکستان اور امریکی حکام نے اس بات کو واضح کیا کہ اس نوٹس کا گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں امریکی ملٹری اتاشی کی جانب سے ٹریفک سگنل بند ہونے کے باوجود گاڑی گزارنے سے ایک نوجوان ہلاک جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا تھا۔

اس نوٹیفکیشن کے مطابق سفارتکاروں کو 25 میل کی حدود سے باہر سفر کرنے کے ارادے پر کم از کم 5 روز قبل اجازت لینے کے لیے درخواست دینے کی ضرورت ہوگی۔

اس کے علاوہ پاکستانی ہم منصب کے ساتھ تبادلہ خیال میں امریکی حکام کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان میں اسلام آباد کی جانب سے پہلے ہی امریکی سفیروں پر اس قسم کی پابندی عائد کی گئی ہے، جس کے مطابق انہیں قبائلی علاقوں یا کراچی کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے اعتراض کیا گیا کہ یہ پابندیاں نہیں ہیں بلکہ امریکی سفارتکاروں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی اقدامات یقینی بنانا ہے جبکہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بھی اپنے سفیروں کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)، کراچی اور سیکیورٹی تحفظات والے حصوں میں سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ اگر امریکی سفارتخانہ ان علاقوں میں سیکیورٹی انتظامات سے مطمئن ہوتا ہے تو فاٹا اور دیگر علاقوں میں امریکی سفیروں کے لیے سفری پابندیاں ہٹائی جاسکتی ہیں۔

ادھر واشنگٹن میں موجود سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے یہ انتباہ ایک بڑے ویزا تنازع سے منسلک ہے کیونکہ گزشتہ ماہ پاکستان کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا تھا، جس میں شکایت کی گئی تھی کہ پاکستانی سفیروں کو 2 برس کا ویزا جاری ہوتا ہے جبکہ امریکی سفارتکاروں کو ایک سال کا ویزا ملتا ہے، جس کے باعث تین سالہ تعیناتی کی مدت میں انہیں ہر سال ویزے کی تجدید کرانی پڑتی ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے شکایت کی گئی تھی کہ پاکستان دیگر امریکی حکام اور تاجروں کو ویزا جاری کرنے میں بھی کافی محدود رہتا ہے، ساتھ ہی خبر دار کیا تھا کہ پاکستانی حکام اور شہریوں کو بھی اس چیز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر امریکا کا 5 سال کا ویزا دیا جاتا لیکن امریکی حکام اور تاجروں کو پاکستان کے لیے صرف سنگل انٹری ویزا دیا جاتا، جس کی مدت 3 ماہ ہوتی۔

خیال رہے کہ حال ہی میں امریکا کی جانب سے پاکستانی حکام کے لیے قلیل مدتی ویزا شروع کیا گیا، یہاں تک کہ وزیر داخلہ احسن اقبال اور سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کو اپنے حالیہ دورے کے دوران ایک ماہ کا ویزا جاری کیا گیا۔

اسی حوالے سے ڈان کو ملنی والی معلومات کے مطابق 5 برسوں سے زائد کے عرصے میں امریکا کی جانب سے 40 ہزار غیر تارکین وطن ویزا جاری کیے گئے جبکہ اسی دوران اسلام آباد نے 60 ہزار امریکیوں کو ویزے جاری کیے، تاہم ان ویزا میں سے 60 فیصد ویزا ایسے شہریوں کو جاری کیا گیا جو پاکستانی نژاد امریکی شہری تھے اور وہ یہاں اپنے اہل خانہ سے ملنے آئے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے