قائد جمعیت کا دورہ ہزارہ اور کارکنوں کے نام پیغام

2018 انتخابات کا سال ہے خواہش ہے کہ انتخابات بروقت ہو ،صاف شفاف ہو اور پر امن ہو۔ ہرسیاسی جماعت اپنے کارکنوں کو متحرک ، بہی خواہوں کو مطمئن اور مخالفین کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھارہی ہے ۔اپنے منشور اور ترجیحات کا اعلان کر رہی ہیں ، صف بندیاں کی جارہی ہیں .

صف بندیوں کی جب بات آتی ہے تو عام آدمی کا ذہن بغیر سوچے سمجھے سیدھا پی پی پی اور مسلم لیگ کے مقابلے یا پی ٹی آئی کے مقابلے کی طرف چلاجاتا ہے یا ایک ہی قوم قبیلے برادری اور علاقے کے نمائندوں کا آپس میں مقابلہ سمجھ لیا جاتا ہے اور یوں قیام پاکستان کے مقاصد ، آئین پاکستان کے تقاضوں اور قرآن وسنت کی روشنی میں قانون سازی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ،گلی کوچے سے بات شروع ہوتی ہے اورشاہراہوں کو بنانے پر ختم ہوجاتی ہے ،تہذیبوں کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا اور نہ ہی تہذیبوں کی جنگ کو جنگ سمجھا جاتا ہے ، ڈالروں کی قیمتیں کنٹرول میں رکھنے یا بے لگام کرنے کے الزمات تو ایک دوسرے پر دھرے جاتے ہیں ، سود ایسی لعنت کا الزام کوئی کسی پر نہیں لگا تا نا ہی اسے مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔ملک میں دہشت گردی کا رونا تو ہر کوئی روتا ہے تاہم دہشت گردی جن ملکوں کی ضرورت ہے اور جو ممالک دہشت گردی کرواتے ہیں ان کی نشاندہی کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا ۔

کرپشن سے نفرت کا اظہار اور مخالف پر کرپٹ ہونے کا الزام تو لگا یا جاتا ہے لیکن اس بات کرنے والے کا دامن کرپشن کی نذر ہوچکاہوتا ہے ،لسانیت ،قومیت اور عصبیت کے ناپسندیدہ نعرے لگائے جاتے ہیں ، پاکستان کو ترقی دینے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن کرنے والے وہ ہوتے ہیں جن کے بیوی بچے ،کاروبار اور جائدادیں بیرون ملک ہوتی ہیں اس سب کے باوجود عام ذہن ان نمائندوں کو پی پی پی ۔مسلم لیگ ، پی ٹی آئی ، عوامی نیشنل پارٹی ، ایم کیو ایم یا کسی اور جماعت کے مابین مقابلہ تصور کرتا ہے .

اس صورتحال کی وجہ سے 70سال ہونے کو ہیں لیکن اسلام اور غریب آئے روز کمزور سے کمزور ہوتے جارہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو سمجھا جائے کہ اصل مقابلہ قیام پاکستان کے مقاصد کی جد وجہد کرنے والوں اور اس کی راہ میں رکاوٹیں دالنے والوں کے درمیان ہے ،آئین پاکستان کے تقاضوں کو پورا کرنے اور نہ کرنے والوں کے درمیان ہے ،آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے والوں اور اس سے کنارہ کشی کرنے والوں کے پیچ ہے ۔سود کی لعنت قوم پر مسلط کرنے والوں اور اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے والوں کے درمیان ہے ، دہشت گردی پیدا کرنے والے ممالک کے نمک خواروں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والوں کے درمیان ہے ۔کرپشن کرنے والوں اور پاک صاف کردار کے حامل لوگوں کے درمیان ہے .

جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان صاحب آجکل ہزارہ کے دورے پرہیں ۔ہری پور،ایبٹ آباد ، مانسہرہ ، اور بٹگرام میں جے یو آئی کے کارکنوں کو اسی طرف متوجہ کررہے ہیں کہ عوام کو سمجھاجائے کہ ایم ایم اے اور مسلم لیگ کے درمیان فرق کو سمجھیں ،دونوں کو ترازو کے ایک ہی پلڑے میں نہ تولیں ۔مسلم لیگ اور پی پی پی کو الگ نہ سمجھیں یہ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ۔عوام کے سامنے ایسا وسیع منشور پیش کریں جو صرف گلی کوچوں تک محدود نہ ہو بلکہ گلی کوچے ، پانی ،بجلی اور ہسپتالوں سمیت تہذیبوں کی بات بھی کرتا ہو ، ایک ایسا منشور جو پاکستانی عوام کے روشن مستقبل کو صرف روٹی ،کپڑا اور مکان میں مقید نہ کرے بلکہ عوام کے مستقبل کو ایک اسلامی فلاحی ریاست کے ساتھ وابستہ کرے ۔

مولانا صاحب یہی فکر او رمنشور لے کر اپنے کارکنوں میں گئے ہیں ۔امید ہے کہ وہ اپنے مضبوط دلائل اور افہام وتفہیم کی بے پناہ صلاحیت کے باعث جے یو آئی کے کارکنوں کے ولولے کو تازگی اور جوش جذبے کو جلا بخشیں گے اور ان شاء اللہ آئندہ انتخابات میں اسلام پسند قوتوں کی فتح ملے گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے