گوانتانامو: ان کا اور ہمارا

باراک حسین اوباما نے 2008ء کے الیکشن میں یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ صدر بننے کے بعد وہ بدنامِ زمانہ گوانتانامو قیدخانہ بند کردے گا۔ تاہم صدر بن چکنے کے بعد وہ ایسا نہیں کرسکا۔ بالآخر مئی 2011ء میں اس نے ایک پانچ نکاتی فارمولا دیا جس کے تحت گوانتانامو سے بہت سے

لوگوں کو آزاد کرایا گیا یا دیگر قید خانوں میں منتقل کرکے قانون کے دائرے کے اندر لایا گیا۔ یہ پانچ نکاتی فارمولا کچھ یوں تھا:
1۔ وہ لوگ جن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، انھیں فوری طور پر آزاد کیا جائے؛

2۔ وہ لوگ جن پر ان کے اپنے ممالک میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، انھیں وہاں منتقل کیا جائے؛

3۔ وہ لوگ جن پر عام امریکی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، انھیں امریکا منتقل کرکے عام قوانین کے تحت ان پر مقدمہ چلایا جائے؛

4۔ وہ لوگ جو امریکی افواج کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہیں، ان پر امریکی فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے؛

5۔ باقی رہے وہ لوگ جو القاعدہ کے ‘ہارڈ کور’ ارکان ہیں اور جنھیں نہ ان کے اپنے ممالک لینے پر تیار ہیں، نہ ہی ان پر عام امریکی عدالتوں میں یا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

اس مؤخر الذکر کیٹگری کا معاملہ لٹکا رہا اور یہ بدستور گوانتانامو میں ہی قید ہیں۔

اس پانچ نکاتی فارمولے کے تحت گوانتانامو سے بہت سے افراد کو نکالا گیا اور یا تو انھیں آزاد کیا گیا، یا ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ اس فارمولے پر بہت تنقید کی جاسکتی ہے اور کی جاچکی ہے لیکن اس نے کسی حد تک گوانتانامو کے بڑے شر کو کنٹرول کرنے میں مدد دی۔

ہم نے پاکستان میں پہلے تو ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کا معاملہ کسی بھی قانون سے ماورا رکھنے کی کوشش کی۔ لمبی جدوجہد کے بعد بالآخر جب مقتدر قوتوں نے لاپتہ افراد کے معاملے کو قانون کے تحت لانے کی بات مان لی تو نتیجہ "تحفظِ پاکستان آرڈی نینس” کی صورت میں سامنے آیا۔ اس آرڈی نینس کو بعد میں پارلیمنٹ نے منظور کرکے "ایکٹ” کی صورت بھی دے دی۔ اس پورے قانون کا جائزہ لے چکنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

"بندہ ہمارے پاس ہے؛ کیوں ہے؟ کہاں ہے؟ کب تک رہے گا؟ ہم سے نہ پوچھا جائے۔”

یعنی اس قانون کا سارا زور صرف اس بات پر تھا کہ "تحویل” کو قانونی طور پر جائز مان لیا جائے اور اس کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے، نہ ہی مقدمہ، سزا یا بریت کی بات کی جائے۔

پھر اے پی ایس کا سانحہ ہوا اور اس کے بعد ہم نے دستور میں ترمیم کرکے فوجی عدالتوں کے ذریعے سویلین کے مقدمات نمٹانے کا اختیار بھی مان لیا۔ جواز یہ دیا گیا کہ سول عدالتوں سے "دہشت گرد” بری ہوجاتے ہیں کیونکہ ججز ان کو سزا دینے سے ہچکچاتے ہیں اور یہ کہ سول عدالتوں میں وقت بہت لگتا ہے۔ تین سال ہوگئے ہیں۔ اب ذرا دم لے کر پیچھے مڑ کر دیکھیے اور معلوم کرنے کی کوشش کیجیے کہ ان تین سالوں میں کتنے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے اور ان مقدمات میں کتنے مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ ہاں یہ مت پوچھیے کہ کیا سب مقدمات میں سزائیں ہی ہوئی ہیں یا کسی کو بری بھی کیا گیا؟

لاپتہ افراد کا معاملہ بدستور قانون کے دائرے سے ماورا ہے۔ فاٹا اور پاٹا میں جو قید خانے بنائے گئے ہیں، ان کے متعلق ہماری عدالتوں کے پاس اختیار ہی نہیں کہ وہ پوچھ سکیں کہ وہاں کون، کیوں قید ہے اور کب تک قید رہے گا؟ فاٹا میں تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کا دستوری اختیار بھی نافذ العمل نہیں ہے اور فاٹا کے عوام کےلیے دستوری حقوق کے نفاذ کا سوال قانونی طور پر اٹھتا ہی نہیں ہے۔

گوانتانامو یقیناً بدترین قید خانہ ہے لیکن ہمیں کم از کم یہ معلوم ہے کہ وہاں کتنے افراد قید کیے گئے ہیں اور کتنے رہا کیے گئے؟ فاٹا کے انٹرنمنٹ سنٹر کے متعلق یہ سوال پوچھنا غداری کے زمرے آتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے