کشمیر میں احد التمیمی نہیں ہے

مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے ساتھ ہمارا دلی، مذہبی اور جذباتی لگاو ہے ۔ اس لئے عموما دوستوں کو ساتھ غیر رسمی ملاقاتوں میں بھی یہی دونوں مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں ۔ دونوں مسائل میں بہت حد تک مماثلت کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گلوبل ایکٹرز مسئلہ کشمیر کی نسبت فلسطین پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔

اسی سنگین مسئلے پر بحث کرتے ہوئے ایک دوست نے جواب دیا:ہمارے پاس بیت المقدس نہیں ۔ اس پر اپنی میں نہ مانوں والی روش پر چلتے ہوئے ہم نے حجت کی کہ ’’اس کا یہ مطلب کہ ہمارا خون ارزاں ہے ؟‘‘ جذباتی باتیں ، خون نہیں مفادات ،یہ انسانی حقوق کے نعرے صرف دلکش باتیں ہیں۔ تو فلسطین سے بنجر ویران گولے سے دنیا کے کیا مفادات وابستہ ہیں؟ فلسطین سے50 زائد اسلامی ممالک سے تمام دنیا کے مفادات وابستہ ہیں ۔ لیکن ہم بھی تو مسلمان ہیں اور ہمارے وکیل اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہم نے اس بار اپنے تئیں عقلمندی کی انتہا کر ڈالی ۔ لیکن جواب میں توقع کے برعکس ایک طویل دلدوز قہقہہ سن کر ہم سوچ میں پڑ گئے کہ مفادات کی پیمائش کیونکر ہو؟

کچھ روز قبل فلسطین میں پرامن احتجاج کرنے والوں پر اسرائیلی قبض افواج نے گولی چلا کر ۔۔۔۔ لوگوں کو شہید کر دیا ، اس کے اگلے روز کشمیر میں قابض بھارتی افواج نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں نہتے جوانوں پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں20 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ فلسطین میں قتل عام پر فورا ایران ترکی برطانیہ سمیت کئی ممالک کے سربراہوں کے بیانات آ گئے ، اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام پر ترکی کے رجب طیب اردگان کے علاوہ کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا ۔

گذشتہ ہفتے ایک بار پھر بھارتی زیر انتظام کشمیر اور فلسطین میں قتل عام ایک ایک دن کے وقفے سے کیا گیا گذشتہ سات دہائیوں سے کشمیر اور فلسطین ایک سے حالات کا شکار ہیں ۔ لیکن عالمی سیاسی منظر نامے پر دونوں مسائل کی تفہیم بالکل مختلف انداز میں ہے اور اسی طرح عالمی رد عمل بھی مختلف۔ 31 مارچ ہفتے کے روز فلسطین میں پرامن احتجاج کرنے والوں پر اسرائیلی قبض افواج نے گولی چلا کر درجن سے زائد لوگوں کو شہید کر دیا ، اس کے اگلے روز کشمیر میں قابض بھارتی افواج نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں نہتے جوانوں پر گولی چلائی جس کے نتیجے میں سترہ کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ فلسطین میں قتل عام پر فورا ایران ،ترکی ،برطانیہ سمیت کئی ممالک کے سربراہوں کے بیانات آ گئے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں قتل عام پر ترکی کے رجب طیب اردگان کے علاوہ کوئی فوری ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ دو تین روز بعد اقوام متحدہ کے سربراہ کا ایک پھسپھسا سا مذمتی بیان آ گیا تھا ۔

مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کی عمر ایک سی ہے اور قابض طاقتوں کے ہتھکنڈے بھی ایک سے لیکن بہت سے پہلووں میں فلسطین سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔

مثلا : دونوں مسئلوں کی عمریں ایک ہونے کے باوجود فلسطین میں شہادتوں کی تعداد کشمیر سے کئی گنا کم ہے ۔سوال یہ ہے کہ جانوں کی اتنی بے پناہ قربانی دینے کے باوجود ہم نے حاصل کیا کیا ؟

کشمیر کے برعکس فلسطین نے آج تک اپنا مقامی (indigenous ) امیج برقرار رکھا ہے جبکہ تحریک کشمیر کو ہمیشہ بیرونی مداخلت یا دراندازی کی تحریک کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے ۔

سب سے اہم پہلو ہے مسئلہ کی اقوام عالم میں تشہیر و تسلیم ہے جس میں فلسطین ہم سے کئی گنا آگے اور کامیاب ہے ۔پی ایل او کی مبصر حیثیت سے ہی سہی اقوام متحدہ کی رکنیت بہت بڑی کامیابی ہے ۔ قطع نظر اس بات کہ کہ فلسطینی عوام کی پی ایل او کے بارے میں رائے کیا ہے ۔ اسرائیل کا پی ایل او کے ساتھ معاہدہ کرنا پی ایل او کو فلسطینیوں کا نمائندہ تسلیم کرنا ہے ، مزید برآں کہ فلسطین میں جب بھی تشدد کی کوئی نئی کارروائی ہوتی ہے تو بڑی طاقتوں کا اس پر واضح ردعمل سامنے آتا ہے جبکہ کشمیر اس سب سے بھی محروم ہے ۔ حالانکہ ہمارا مستقل وکیل اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے ۔ پھر ایسا کیا ہوتا ہے کہ ہم اپنی آواز دنیا تک پہنچا نہیں پاتے؟ اگر دیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر کی عالمی سطح پر تشہیر کی ذمہ داری ریاست کے آزاد حصوں پر عائد ہوتی ہے لیکن تقسیم کشمیر کے فورا بعد کشمیر کا ایک حصہ بھارت کے قبضے میں چلا گیااور آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کر لیا کہ مسئلہ کشمیر کی تشہیر کی ذمہ داری پاکستان کے نازک کاندھوں پر ہے اور پھر تب سے نہ پاکستان وکالت کر پایا اور نہ کشمیری ڈھنگ کا رول ادا کر سکے۔

پاکستان کی کشمیر پالیسی بلنڈرز کی تاریخ ہے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستان نے جس طرح کشمیر کا کیس لڑا اس کے بارے میں شیخ عبداللہ لکھتے ہیں کہ’’ ایسا لگتا ہے کہ ان کی عقل و خرد عین موقع پر جب تصفیہ تقریبا ان کی گرفت میں ہو جاتا ، گھاس چرنے چلی جاتی تھی ‘‘چلیں یہ تو ”غدار” شیخ عبداللہ کا قول ہے لیکن ایوب خان کی کشمیر کے پانیوں کے لئے تڑپ سے لے کر شملہ معاہدہ تک پاکستان کی کشمیر پالیسی کی ناکامیوں کا مجموعہ ہے ۔

2016 میں انڈیا نے کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو پاکستان نے مسئلہ کشمیر کی تشہیر کے لئے22 رکنی وفود سولہ ممالک میں بھیجے جس میں نواب علی وسان جیسے روٹھے سیاسی محبوبوں کو منایا گیا۔ اب پاکستان نے ایک بار پھر چھ ممالک میں وفود بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مرتبہ پھر کسی روٹھے محبوب کو فارن ٹرپ کا لالی پاپ دے کر منایا جائے گا ۔ اگر پاکستان مسئلہ کشمیر کی وکالت کرنے میں بری طرح ناکام ہے تو پھر اس خلا کو کس طرح پر کیا جائے۔

ایک طرف کشمیری ڈائیاسپورا ہے جس کا ایجنٹ ایجنٹ کا کھیل ختم نہیں ہوتا اور پھر وہ محدود مقتدر لوگ ہیں جو بین الاقوامی فورمز پر گنے چنے مواقع ملنے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پہاڑہ سنا کر واپس آ جاتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ غیر جانبدار آوازوں کو پنپنے بھی نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی آواز بھنبھناتی سی سنائی دے بھی تو اس کی وفاداری پر بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔

مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف لے جانے والی واحد راہ مسئلہ کشمیر کی اصل روح کی تشہیر و تفہیم ہے۔ اس کے لئے کشمیریوں کو خود اپنا آپ منوانا ہوگا ۔ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ موجودہ آئینی رشتے میں رہتے ہوئے بھی موثر اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ عہد التمیمی نے فلسطین سے باہر نکل کر کوئی نعرہ نہیں لگایا ، صرف سوشل میڈیا کے موثر استعمال نے اس کو اتنی شہرت دی کہ دنیا بھر میں اس کے لئے آوازیں اٹھائی گئیں ۔ یہاں تک کہ جمز پیٹرک نے اس کو ونڈر وومین کے روپ میں پینٹ کر کے چی گویرا جیسے لیڈرز کی صف میں لا کھڑا کیا ۔ لیکن ہمارے پاس احد التمیمی نہیں ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے