زندگی! آخر ہے کیا؟

زندگی آخر ہے کیا؟ یہی سمجھتے سمجھتے زندگی ختم ہو جاتی ہے۔

یہ غم و خوشی کے بے شمار لمحات، امیدوں اور مایوسیوں کے تسلسل، محبتوں اور نفرتوں کی داستان، خوش گمانیوں اور بدگمانیوں کے طویل سلسلے سے بھرپور محدود وقت کا نام ہے۔ ایک ایسا سفر جس کی منزل (موت) تو متعین، لیکن راہیں جدا جدا ہیں۔ زندگی ایک طویل انتظار اور ہر گزرتے پل ایک نئے امتحان کا نام ہے۔ ایک چیلنج ہے جسے ہر کسی کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ ایک چراغ ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے۔ ایک ایسی عمارت ہے جو کبھی نہ کبھی مسمار ہو کر ہی رہتی ہے ۔ ایک ایسی خواہش کا نام ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ایک ایسا فریب ہے جس کی حقیقت موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بہت کچھ حاصل کر کے اور بہت کچھ کھو کر انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ہر قدم اپنی منزل کی طرف اٹھاتا چلا جاتا ہے۔ کبھی زندگی کا یہ سفر اتنا خوبصورت محسوس ہوتا ہے کہ انسان چاہتا ہے زندگی کے یہ خوبصورت لمحات ہمیشہ کے لیے یہیں رک جائیں، مگر انسان ان خوبصورت لمحوں کو ہر قدم پیچھے چھوڑتے ہوئے بھی زندگی کے سفر پر گامزن رہتا ہے اور کبھی یہ سفر اتنا کٹھن ہو جاتا ہے کہ انسان اسے جلدی سے طے کر کے اپنی منزل کو پانے کی خواہش کرتا ہے پھر بھی مشکل وقت آرام سے ہی کٹتا ہے۔

یوں کہا جائے تو بالکل ٹھیک ہے کہ زندگی نت نئی تبدیلیوں کا نام ہے۔ زندگی اگر گلاب کی مانند ہے تو کانٹے کی چھبن بھی ہے۔ دل کو بھانے والی صبح کی روشنی تو ہے پر رات کی خوفناک تاریکی کا نام بھی ہے۔ زندگی ایک ایسی لڑائی کا نام ہے جس میں جیت بھی اپنی اور ہار بھی اپنی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو جس زاویے سے بھی دیکھا جائے وہ اپنی سچائی کی گواہی دیتی نظر آتی ہے، کیونکہ زندگی ہر انسان کی اپنی سوچ کا نام ہے، اس کا کوئی صورت اختیار کرنا ہر انسان کے عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے۔ ایک غریب مزدور شخص زندگی کو دکھوں کا میلہ کہتا ہے۔ فقیر زندگی دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ہی سمجھتا ہے۔ طالب علم کے لیے زندگی ایک بڑی کتاب کا نام ہے۔
بے روزگار کیلئے نوکری زندگی ہے۔نامراد عاشق کے نزدیک زندگی حسرتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ملاح موجوں کی روانی کو زندگی خیال کرتا ہے۔ مریض کہتا ہے کہ زندگی ڈاکٹروں اور دوائیوں کا نام ہے۔ ایک قیدی جیل کو زندگی کا نام دیتا ہے۔ قاتل کے نزدیک زندگی دوسروں کا خون بہانے کا نام ہے اور مجاہد راہ حق میں لڑ کر شہید ہونے یا فتح پا کر غازی بننے کو زندگی کا نام دیتا ہے ۔ چور کیلئے پولیس سے فراری زندگی ہے۔

معروف ادیب و افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کہتے ہیں ’’زندگی کیا ہے؟ … یہ میری سمجھ میں نہیں آتا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ اونی جراب ہے، جس کے دھاگے کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے۔ ہم اس جراب کو ادھیڑتے رہتے ہیں، جب ادھیڑتے ادھیڑتے دھاگے کا دوسرا سرا ہمارے ہاتھ میں آ جائے گا تو یہ طلسم جسے زندگی کہا جاتا ہے ٹوٹ جائے گا۔ زندگی کو تم استعارہ کہو، تیرگی کا اک نظارہ کہو یا شبنم کا وہ قطرہ جو سورج نکلنے تک باقی رہا یا پھر وصل و فراق کے بیچ الجھتا لمحہ، افلاس سے لڑتا ہوا سکہ، تمہارے قانون کی ایک حد یا مردہ تہذیبوں کی لحد، تم اسے جو بھی کہو، کوئی بھی نام دو، مگر میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ ’’زندگی‘‘ صرف موت تک پہنچنے کا ایک راستہ ہے اور مجھے اس سے انتہا کا پیار ہے۔‘‘

زندگی تیرے تعاقب میں لوگ
اتنے چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

اس زندگی کا سب سے قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اس میں انسان انتہا کا مفاد پرست اور دنیا میں پائے جانے والے پتھروں سے کہیں زیادہ کٹھور اور سخت قلب واقع ہوا ہے۔ اس کے سامنے سنگ دلی کا لفظ تو بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔ انسان کے دل کی سختی تو پتھروں کو بھی مات دے دیتی ہے۔ پتھروں کی نرم خوئی اور دلوں کی سنگ خوئی کی گواہی خود قرآن دیتا ہے۔ ارشادِ باری ہے: ’’پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہو گئے، گویا کہ وہ پتھر ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت اور بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں، جن سے نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں، جو پھٹ جاتے ہیں، پھر ان سے پانی نکلتا ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘ (البقرۃ)۔ اپنی زندگی کی جنگ جیتنے کے لیے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ دھوکا دہی، قتل و غارت گری، ڈاکا، نفرت، دشمنی، منافقت اور ہر طرح کی برائی اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ وہ اپنی فتح کے لیے تمام انسانی ضابطوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے دوستی، محبت، انس اور سب رشتوں کو مفادات اور مطلب کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ ایک دوسرے کا خون بہاتا ہے۔ اپنے مطلب اور اغراض کی خاطر اپنے بہن بھائیوں سے دشمنی مول لے لیتا ہے اور اپنے ماں باپ سے بھی بغض اور نفرتیں پال لیتا ہے یہاں تک کے اپنے خونی رشتوں کو بھی قتل کر دیتا ہے صرف پیسہ ، دولت اور جائیداد کے پیچھے۔ ہر چیز مطلب پر قائم ہو جاتی ہے۔ محبت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں کی تہہ میں کوئی نہ کوئی غرض پوشیدہ ہوتی ہے اور بعض لوگ تو خدا کو بھی اپنے مطلب کے لیے یاد کرتے ہیں۔

شاعر نے کیا خوب کہا:
موت کی حقیقت اور
زندگی کے سپنے کی
بحث گو پُرانی ہے۔
پھر بھی اک کہانی ہے۔

اگر یہ زندگی مسکراتی ہوئی گزر جایا کرے، جس میں خود غرضی، خود پسندی، پست خیالی، نفرت، دشمنی، دغا، مفاد پرستی اور وہ سب کچھ نہ ہو جو زندگی کے مزے کو کرکرا اور پوری زندگی کو ہی بدمزہ کر دیتا ہے تو کیا ہی خوب ہو، لیکن کوئی کتنی ہی کوشش کرے ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ یہاں عزت انسان کی نہیں، دولت و مرتبے کی ہوتی اور دولت و مرتبہ حاصل کرنے کے لیے ساری زندگی جنگ لڑنا پڑتی ہے، مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ دھوکا دینا پڑتا ہے اور دنیا کو نقصان پہنچانا پڑتا ہے۔ انسان دولت و مرتبے کے حصول کی خاطر ساری زندگی اسی جدوجہد اور تگ و دو میں گزار دیتا ہے۔

انسان بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک اپنی پوری زندگی خود کو لوگوں کی نظر میں باوقار اور قابل عزت بنانے کی کوشش و فکر میں مگن رہتا ہے، لیکن دنیا اس سے کبھی خوش نہیں ہوتی۔ اگر سادہ لوح ہو تو دنیا مذاق اڑاتی ہے۔ اگر عقلمند ہو تو حسد کرتی ہے۔ الگ تھلگ رہے تو متکبر اور اگر ہر ایک سے گھل مل رہے تو خوشامدی گردانا جاتا ہے۔ دنیا کو خوش رکھنے کی اسی جدوجہد میں اس کی زندگی تمام ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن آتا ہے، وہ چپکے سے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ جاتے ہوئے اس کو یہ سوچنے کا موقع بھی نہیں ملتا کہ یہ سارا کیا تماشا تھا اور وہ جاتے ہوئے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر، کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں۔ آخر میں ایک شاعر کے خوبصورت الفاظ پیش کروں گی۔
روزوشب کے میلے میں
غفلتوں کے مارے ہم
بس یہی سمجھتے ہیں
ہم نے جس کو دفنا دیا
بس مرنا اسی کو تھا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے