آصفہ کی دردناک موت اور جموں کے مسلمانوں کی بے کسی

چند روز قبل بھارتی صوبہ گجرات کے ایک سابق اعلیٰ پولیس افسر سنجیو بھٹ کا ایک مسیج موصول ہوا، جس میں انہوں نے زیادتی کی شکار پاکستان کی معصوم بچی زینب اور مقبوضہ کشمیر کی آصفہ پر ہوئی درندگی کے واقعہ اور اس پرردعمل کا موازنہ کیا تھا۔ جہاں پورے پاکستان نے یک آواز ہوکر زینب کو انصاف دلا کر ہی دم لیا، حتیٰ کی فاسٹ ٹریک کورٹ نے ملزم کو موت کی سزا بھی سنائی، وہیں انصاف تو دور کی بات، ہندو انتہا پسندوں بشمول سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کے لیڈران نے جموں میں بھارت کے قومی پرچم کو لے کر ملزموں کے حق میں جلوس نکالے۔ حد تو یہ تھی کہ مقامی وکلا ء کی تنظیموں نے نہ صرف ملزموں کی حمایت کرکے جموں بندھ کروایابلکہ کھٹوعہ کی عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے چارج شیٹ ہی دائر نہیں ہونے دی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ آٹھ سالہ آصفہ مسلمان خانہ بدوش گوجر۔ بکروال قبیلہ کی چشم و چراغ تھی اور ملزم ہندو ڈوگرہ راجپوت تھے، جنہوں نے 100 سال تک کشمیر پر حکومت کی ہے اور ابھی تک اس جاگیردارانہ ذہنیت سے نکل نہیں پا رہے ہیں۔

بھٹ صاحب نے آخر میں لکھا تھا کہ کہیں بھارت ناکارہ یا ناکام ریاست بننے تو نہیں جا رہا ہے۔ یہ بچی 10 جنوری کی دوپہر گھر سے گھوڑوں کو چرانے کے لئے نکلی تھی اور واپس نہیں لوٹ پائی۔گھروالوں نے جب ہیرانگر پولیس سے لڑکی کے غائب ہونے کی شکایت درج کروائی تو پولیس نے لڑکی کو تلاش کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔پھر قریب ایک ہفتہ بعد 17 جنوری کو جنگل میں اس معصوم کی لاش ملی۔ میڈیکل رپورٹ میں پتا چلا کہ لڑکی کے ساتھ کئی بار کئی دنوں تک گینگ ریپ کیا گیا اور پتھروں سے مارمارکر بیدردی کے ساتھ اس کا قتل کیا گیا ۔

خاصی لیت و لعل کے بعد جموں و کشمیر کی محبوبہ مفتی حکومت نے 23 جنوری کو یہ کیس ریاستی پولیس کی کرائم برانچ کو سونپ دیا ۔جس نے کل سات افراد کو گرفتار کیا۔ جن میں ایک اسپیشل پولیس افسر (ایس پی او) دیپک کھجوریا، پولیس آفسر سریندر کمار، رسانا گاؤں کا پرویش کمار، اسسٹنٹ سب انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹبل تلک راج، سابق ریونیو افسر سانجی رام ،اس کا بیٹا وشال اور چچا زاد بھائی شامل ہیں۔

ہندو ایکتا منچ کے اسٹیج سے صوبائی حکومت میں شامل بی جے پی کے دو وزیروں لال سنگھ اور چندر پراکاش گنگا نیز وزیراعظم نریندر مودی کی وزارتی ٹیم میں شامل جیتندر سنگھ نے پچھلے تین ماہ کے دوران اس ایشو کولے کر ، جموں و کشمیر پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد ظاہر کرکے کشمیر بنام جموں کا ہوا کھڑا کر کے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔

ایک وزیر نے تو ڈوگرہ فرقہ کی حمیت کا حوالہ دے کر ملزموں کی پشت پناہی کرکے اس کو کشمیر مسلمانوں کی طرف سے رچی سازش قرار دیا۔ کیونکہ کرائم برانچ کی جس سات رکنی ٹیم نے اس کیس کی تفتیش کی اس میں دو کشمیری مسلمان تھے۔ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ جموں بار ایسوسی ایشن نے بھی ایسا واویلا مچایا، لگتا تھا کی کشمیر کے ان گنت کیسوں کی طرح یہ بھی فائلوں میں گم ہوجائے گا۔ پر بھلا ہو ان کشمیری صحافیوں کا ۔ خاص طور پر نذیر مسعودی، ظفر اقبال اور مفتی اصلاح کا جو متواتر گراونڈ سے رپورٹنگ کرتے رہے اور پھر مزمل جلیل، انورادھا بھسین، ندھی رازدان اور ایڈوکیٹ دیپیکا اہلاوت کا ۔ جن کی وجہ سے نہ صرف بھارت کی سول سوسائٹی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر مجبور ہوگئی، بلکہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی پر بھی دباؤ بناکر رکھا۔جس کی نتیجے میں با لآخر دو وزراء کو مستعفی ہونا پڑا اورغصہ میں انہوں نے نام لے کر کشمیری صحافیوں کو کوسا اور کشمیری میڈیا کو غنڈہ بھی قرار دیا۔ ان کی یہ دشنام طرازی ان صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کیلئے واقعی ایک تمغا ہے۔ اس سے قبل جب جنوری میں سماجی کارکن اور ایڈوکیٹ طالب حسین نے آصفہ کو انصاف دلانے کیلئے آواز اٹھائی تھی تو اس کو پہلے گرفتار کیا گیا اور بعد میں بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت اس کو لمبے عرصے کیلئے جیل بھیجنے کی تیاری کی گئی تھی۔

جموں کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی پی) اور بی جے پی کی مخلوط حکومت پہلے ہی غیر یقینی کی کیفیت اور افراتفری سے پْر ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان وسیع نظریاتی اختلافات ہونے کے باعث تضادات ہونا لازمی تھے، مگر دہلی اور ہندو انتہا پسندوں کی شہ پر جس طرح اس خطے میں مسلم اکثریتی آبادی کو نیچا دکھانے اور انہیں احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ چاہے بھارتی آئین کی دفعہ 370 (کشمیر کی خصوصی پوزیشن) ختم کرنے کا مطالبہ ہو یا کشمیر کے قلب میں مخصوص ہندو بستیاں بسانے کا معاملہ‘ بی جے پی اور اس کے لیڈر اپنے بیانات اور عملی اقدامات کے ذریعے اکثریتی فرقہ کے سینوں میں میخ گاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔

یہ بات اب سرینگر میں زبان زد عام و خاص ہے کہ یہ وہ پی ڈی پی نہیں جب 2003ء اور 2005ء کے درمیان دہلی کے روایتی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ کے بجائے مرحوم مفتی محمد سعید نے ایک پر اعتماد اور کشمیری عوام کے مفادات اور ترجیحات کے ترجمان کے طور پر ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ پچھلے کئی برسوں سے جموں خطہ میں جنگلاتی اراضی سے قبضہ چھڑانے کی آڑ میں مسلمانوں کو جبراً اپنے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ مسلمان گوجروں اور بکروالوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا ، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے ہٹایا گیا ہے۔

یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت 1930ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے اور صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوں کو اس خطے سے بے دخل کرنا ہے، جہاں وہ پچھلے 60 برسوں سے حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔اگر پورے جموں خطے کی آبادیاتی ساخت کا جائزہ لیا جائے تو مسلمان 29 فیصد، دلت20فیصد، برہمن23فیصدہیں، جبکہ کشمیر پر دوبارہ حکمرانی کے خواب دیکھنے والی ڈوگرہ راجپوت قوم آبادی کا محض 12فیصد ہیں۔ ویشیہ یا بنیا قوم 5فیصد ہے اور سکھ 7فیصد کے آس پاس ہے۔

معصوم آصفہ کو قتل اور اس پر درندگی کا مظاہرہ کرنا اور تفتیش میں رکاوٹ ڈالنا دراصل اس سوچے سمجھے منصوبہ کا حصہ تھا تاکہ مقامی مسلمانوں میں خوف و دہشت پیدا کرکے ان کو ہجرت پر مجبور کرایا جائے۔

2006 میں بھارتی پارلیمان نے جنگلوں میں رہنے والے قبائل کے حقوق کے تحفظ کیلئے ایک فارسٹ رائٹس ایکٹ (Forest Rights Act 2006) پاس کیا تھا۔ مگر بی جے پی اور کانگریس کے جموں کے لیڈران مل کر اس کو ریاست میں لاگو نہیں کرنے دینا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا حوالہ دیکر دلیل دیتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ کے قانوں کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا ہے۔ مگر جب پارلیمنٹ فوجی اور سیکورٹی قوانین پاس کرتی ہے تو یہی رہنما بغیر کسی بحث و مباحثہ اس کو ریاست میں لاگو کرتے ہیں۔ اس ایکٹ کے اطلاق کی صورت میں ان مسلم گوجروں کو زمینوں سے بے دخل کروانا ان کیلئے مشکل ہوجائےگا۔

ایک طرف جہاں ان غریب اور بے کس مسلمانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف مغربی پاکستان کے ہندو مہاجرین کی باز آبادکاری اور وادی میں پنڈتوں کی علیحدہ کالونیوں کے قیام کے لیے حکومت خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔

جموں خطہ کے موجودہ حالات وکوائف پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نومبر1947ء کا واقعہ پھر سے دہرایا جا سکتا ہے، جیسا کہ کابینہ سے مستعفی رکن چودھری لال سنگھ نے پچھلے سال ایک مسلم وفد کو 47ء یاد کرنے کا مشور ہ دیا تھا۔ اس خطہ کے دو مسلم اکثریتی علاقہ چناب ویلی، جس میں ڈوڈہ، رام بن، کشتواڑکے اضلاع شامل ہیں اور پیر پنچال جو پونچھ اور راجوری اضلاع پر مشتمل ہیں، ہندو فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے ایک منصوبہ بند طریقے سے راجوڑی‘ کشتواڑ‘ بھدر واہ کے دیہاتی علاقوں میں فرقہ جاتی منافرت کا ماحول پیدا کرایا جا رہا ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ کے مقتدر رہنما اندریش کمار تو تقریباً اس خطے میں ہمہ وقت ڈیرہ ڈالے ہوئے رہتے ہیں‘ جن سے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ بھی ہوچکی ہے۔

ڈوڈہ میں پچھلے سال ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے کارکنوں نے اپنی روایتی خاکی نیکر، سفید قمیص اور سیاہ ٹوپی، جسے ”گنویش‘‘ کہا جاتا ہے میں ملبوس ہوکر مارچ کیا۔ اس موقع پر اسلحہ اور تلواروں کا کھلے عام مظاہرہ کیے جانے کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے والی نعرہ بازی بھی کی گئی۔

عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے نام پر دو دہائی قبل جموں کے‘ چناب ویلی اور پیر پنچال میں ہندو دیہاتیوں کو ویلج ڈیفینس کمیٹی کا نام دیکر مسلح کیا گیا تھا۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب آئے دن دیہاتوں میں مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں۔ یہ فورس نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ ہی کسی کو جوابدہ اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ اس فورس کے ذریعے ، اغوا، تاوان، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں، اور ظاہر ہے کہ خمیازہ مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کارروائی ہو رہی ہے تاکہ آئندہ کسی وقت 47ء کو دہرا کر اس خوف زدہ آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور کیا جاسکے اور جموں خطے کو پوری طرح مسلمانوں سے پاک و صاف کرایا جائے۔

شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات ‘آتش چنار‘ میں لکھا ہے جموں میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ اور مہارانی تارا دیوی کی نظریں وادی چناب پر لگی ہوئی تھیں، مگر کرنل عدالت خان اور اس کی ملیشیا نے بہادری اور دانشمندی سے وہاں آگ کے شعلے بجھا دیے۔ جب کشمیری مسلمان اس دورِ پر آشوب میں پنڈتوں کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا رہے تھے، مہاراجہ جموں میں آگ بھڑکا رہا تھا۔ سرینگر سے بھاگ کر جب سفر کی تکان اتارنے کے لئے شاہراہ کے کنارے وہ رام بن کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس میں پہنچا، تو شومئی قسمت، چائے پیش کرنے والا بیرا مسلمان تھا اور اس کے سر پر رومی ٹوپی تھی۔ تو اس نے چائے پینے سے ہی انکار کر دیا۔

شیخ عبداللہ کو جب انتظامیہ کا سربراہ مقرر کیا جا چکا تھاتو اس نے مہاراجہ کے اعزہ و اقارب اور چند سکھ خاندان جو سرینگر میں رہ گئے تھے کو جموں پہنچانے کے لئے جنوبی کشمیر کے بائیس ٹانگہ بانوں کو آمادہ کیا، مگر یہ نیکی ان کے لئے وبال جان بن گئی۔ واپسی پر نگروٹہ کے مقام پرہندو انتہاپسند ٹولی نے ان کے ٹانگے چھین لیے اور پھر انہیں بے دردی سے قتل کر ڈالا

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت جو مہاتما گاندھی کی تعلیمات کو استعمال کرکے بھارت کو دنیا بھر میں ایک اعتدال اور امن پسند ملک کے طور پر اجاگرکرنے کی کوشش کرتی ہے کو اسی گاندھی کے ہی ایک قول کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں: ”ہندوستان اگر رقبے میں چھوٹا ہو لیکن اس کی روح پاکیزہ ہو تو یہ انصاف اور عدم تشدد کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہاں کے بہادر لوگ ظلم و ستم سے بھری دنیا کی اخلاقی قیادت کرسکتے ہیں۔ لیکن صرف فوجی طاقت کے استعمال سے توسیع شدہ ہندوستان مغرب کی عسکری ریاستوں کا تیسرے درجے کا چربہ ہوگا، جو اخلاق اور آتما سے محروم رہے گا۔ اگر ہندوستان کشمیرکے عوام کو راضی نہیں رکھ سکا تو ساری دنیا میں اس کی شبیہہ مسخ ہو کر رہ جائے گی‘‘۔

بقول شیخ عبداللہ،گاندھی کہتے تھے کہ’’ کشمیرکی مثال ایسی ہے جیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سارا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجائے گا‘‘۔ مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں، اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی بجا کر دنیا کے سامنے بچے جمورے کا کھیل رچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے