بھارتی مذہبی انتہاپسند تنظیم آرایس ایس نے کشن گنج کتاب میلے سے ‘ناپسندیدہ’ کتابیں اٹھوا دیں

بھارت کے شہر کشن گنج (ریاست بہار)میں‌ منعقدہ میلے میں‌ شامل ایک پبلشر پر انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے دباو ڈال کر مخصوص کتابیں ڈسپلے سے ہٹوا دیں . ہٹائی گئی ان کتابوں میں ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے بارے میں تنقیدی مواد تھا.

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سے صحافی علم اللہ نے اپنی فیس بک وال پر یہ خبر دیتے ہوئے لکھاکہ ”پچھلے دنوں قومی کونسل برائے ترقی اردو زبان کے زیر اہتمام کشن گنج میں کتاب میلہ لگا جس میں دہلی کے معروف پبلشر فاروس میڈیاکا اسٹال بھی تھا۔فاروس میڈیا نے آر ایس ایس اور بھگوا دہشت گردی کے بارے میں متعدد کتابیں اردو، ہندی اور انگریزی میں چھاپ رکھی ہیں جو کشن گنج میں مذکورہ پبلشر کے اسٹال پر دستیاب تھیں۔

پبلشر کے اسٹال پر بھگوا ذہنیت کے لوگ ہر روز آکر احتجاج کررہے تھے کہ آر ایس ایس اور بھگوا دہشت گردی کے بارے میں کتابیں ہٹائی جائیں لیکن پبلشر کے نمائندے کوثر عثمان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور بدستور کتابوں کو ڈسپلے کرتا رہا۔

کتاب میلہ ختم ہونے کے دودن قبل آر ایس ایس اور بھگوا ذہنیت کے بہت سے لوگ اسٹال پر آئے اور زور زبردستی کرنے لگے، کچھ تو کتابیں بھی زبردستی اٹھا کرلے گئے۔پھر وہ پولیس کو بھی بلا لائے جس نے شروع میں ان کی بات ماننے سے انکار کیا۔

اسی طرح قومی کاؤنسل برائے ترقی زبان اردو کے مقامی ذمہ داروں نے بھی شروع میں پبلشر کا ساتھ دیا لیکن دو روز قبل جب آر ایس ایس کا دباؤ بہت بڑھ گیا اور تشدد کا خطرہ پیدا ہوگیا تو پولیس اور قومی کاؤنسل کے نمائندوں نے پبلشر کے نمائندے کوثر عثمان سے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ مذکورہ کتابوں کو ہٹالیں۔

اس کے بعد اگلے دو روز تک پبلشر نے اسٹال پر اپنی سات کتابیں نہیں لگائیں بلکہ وہاں ایک اعلان لکھ کر رکھ دیا کہ یہ کتابیں آر ایس ایس کے دباؤ پر ہٹالی گئی ہیں۔ آر ایس ایس کے لوگوں نے پولیس میں ایف آئی آئی آر بھی درج کرانے کی کوشش کی جس کو پولیس نے یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ پبلشر دلی کا ہے اس لئے وہیں مقدمہ درج کراؤ۔

آر ایس ایس کے لوگوں کو سب سے زیادہ اعتراض مہاراشٹر کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس۔ایم۔مشرف کی کتاب "آر ایس ایس سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم” پر تھا جو کہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں دستیاب ہے۔”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے