کیا دل لگی جنسی ہراسانی ہے؟

کسی لڑکی سے بات کرنا یا ہنسی مذاق ہراسانی نہیں ہوتا بلکہ ہراسانی کی سادہ تعریف یہ ہے کہ وہ کوئی بھی عمل جو لڑکی کی مرضی کے بغیر ہو، ہراسانی ہے

کچھ عرصہ قبل ویمن ڈے ریلی پر ایک لڑکی نے پلے کارڈ اٹھایا ہوا تھا کہ اس کے جسم پر اس کی مرضی ہے تو یہ بات سولہ آنے درست ہے، دوسرے کے وجود پر کسی اور کو مرضی چلانے کا حق نہیں اور یہ بے حیائی یا اخلاقی بے راہ روی بھی نہیں

طوائف کے جسم پر طوائف کا حق نہیں ہوتا، وہ معاوضے کے عوض یہ حق اپنے خریدار کو دے دیتی ہے، اس سے بہتر اور کون سی عورت ہوگی جو اس حق کو اپنے فیصلے کے تحت رکھے

اب یہاں ایک بحث ہے کہ لڑکیاں دل لگی کو ہراسانی قرار دے دیتی ہیں، لڑکوں کے عہدے اور طاقت واختیار کو دیکھ کر دل لگی کی اجازت دیتی ہیں اور پھر مطلب پورا ہوجانے کے بعد اسے ہراسانی کہہ دیتی ہیں

یقیناً اکثر لڑکیاں ہراسانی کے الزام سے اپنا راستہ بناتی ہیں اور سماج میں ایسی کئی مثالیں ہیں مگر کسی کا غلط عمل اصول نہیں بدل دیتا اور اصول یہی ہے کہ لڑکی کی مرضی کے خلاف دل لگی بھی ہراسانی ہے

اور علی ظفر کیس میں بات صرف کامریڈ حمیداختر مرحوم کی نواسی میشا شفیع تک محدود نہیں رہی، نیویارک میں فنڈریزنگ مہم کے دوران طالبہ کو ہراساں کرنے سے لے کر لاہور میں سیلفی لینے کے دوران بلاگر حمنہ اور میک اپ آرٹسٹ لینا کو ہراساں کرنے تک مسلسل الزامات سامنے آرہے ہیں، لاہور کی ایک پروفیسر نے اپنی کزن کی بابت بھی بتایا ہے کہ علی ظفر نے اسے ہراساں کرنے کی کوشش کی

یہ اچھی روایت ہے کہ پاکستانی عورت ہراسانی کے خلاف خاموشی توڑ رہی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے