پختونخوا ۔ ۔ پاکستان میں سنگاپور۔۔۔!!

ملک تو سارا ہی اپنا ہے۔ سب صوبے ، سب شہر اور ان میں بسنے والے سب لوگ اپنے ہیں۔ جہاں کوئی تکلیف میں ہو متاثر سب ہوتے ہیں۔ اور جہاں کوئی بہتری آئے خوشی بھی سب کو ہوتی ہے۔ اور فی الحال اگر صحیح معنوں میں عوام کے لیئے کہیں بہتری نظر آرہی ہے تو وہ صوبہ پختونخوا میں ہے۔وہاں تحریک انصاف حکومت نے اصلاحات کا جو ایک بظاہر ناممکن قسم کا بیڑہ اُٹھایا اس کے نتائج نے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی داد وصول کی۔ تعلیم ، صحت اور پولیس ، یا پھر سرکاری اداروں کی خود مختاری اور کارکردگی، اداروں میں شفاف اور میرٹ پر بھرتیاں ، کہیں ہاتھ رکھیں ، آپ کو انقلاب نظر آئے گا ۔ یہ انقلاب ہے تو بہتری کا لیکن نہ جانے کیوں ایک جماعت کو اپنے لیئے یہ انقلاب خونی محسوس ہو رہا ہے۔

اس خوبصورت انقلاب میں اور بے شمار بہترین اصلاحات میں ایک خوبصورت اضافہ بی آر ٹی یعنی بس ریپڈ ٹرانزٹ بھی ہے۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جس کے بعد اب پشاور کے شہریوں کو نہ تو بسوں کاانتظار کرنا پڑے گا اورنہ ہی چھتوں پر سفر کرنا ہوگا۔20مئی 2018کو صوبہ پختونخواکے دارالحکومت پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ(بی آر ٹی)کے نام سے اس ٹرانسپورٹ کے حیران کن منصوبے کا آغاز ہو رہا ہے۔یہ ٹرانسپورٹ کا جدید ترین منصوبہ ہے، جو نہ صرف پشاور کی خوبصورتی میں اضافہ کرے گا بلکہ ٹرانسپورٹ میں بہتری لائے گا۔اس میں بسوں کے اعلیٰ معیار کے علاوہ عام شہریوں، خواتین، بچوں اور عمر رسیدہ و معذور افراد کی سہولت کوبطور خاص مد نظر رکھا گیا ہے۔اس منصوبے میں استعمال ہونے والی بسیںچین سے درآمد کی گئی ہیں۔ بسوں کی کل تعداد 220ہیں۔یہ بسیں18میٹر اور 12میٹر لمبی ہیں۔18میٹر والی بسیں 27کلومیٹرز والے کاریڈور پر استعمال ہونگی اور 12میٹر والی بسیں حیات آباد، رنگ روڈ ، چارسدہ روڈ اور ملحقہ علاقے میں چلائی جائیں گی۔اس منصوبے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ بی آر ٹی کی تکمیل کے ساتھ ہی تمام پبلک ٹرانسپورٹ کے اجازت نامے (روڈ پرمٹس) منسوخ کردیئے جائیں گے۔شہریوں کے لیئے بی آر ٹی کا مجوزہ کرایہ کم سے کم 15روپے اور زیادہ سے زیادہ 55روپے ہے۔طلبہ اور بزرگ شہریوں کے لیئے ماہانہ اور سہ ماہی رعائتی کارڈز بھی دستیاب ہوں گے۔

اس منصوبے کے تعمیری پلان میں کوریڈور کے تین پیکجز کی منظوری دی گئی۔ پہلا پیکج مین بس ٹرمینل چمکنی سے قلعہ بالا حصار، دوسرا امن چوک تک اور تیسرے پیکج کا اختتام حیات آباد پر ہوتا ہے۔مین کوریڈور 26 کلومیٹر طویل ہے۔ جس میں 6 کلو میٹر ایلیو یٹڈ اور5کلو میٹر ٹنل شامل ہے۔ منصوبے کے تحت 32 سٹیشنز ہوں گے جن میں سے 5 ایلیویٹڈ اور ایک زیر زمین ہوگا۔ منصوبے کے اس 26 کلومیٹرمین کوریڈور کے علاوہ 68 کلو میٹر طویل سات رابطہ روٹس ہوں گے۔ فیڈر روٹس پر بھی شیلٹر کے ساتھ150 اعلیٰ معیار کے بس سٹاپس ہوں گے۔61 کنال کمرشل ایریا ڈویلپمنٹ کے علاوہ 6 منازل پر مشتمل پارکنگ پلازہ، بائک شیئر سسٹم، کوریڈور کے ساتھ پیدل چلنے والوں کیلئے علیحدہ انفراسٹرکچر ، بس سٹاپس اور دیگر اضافی فیچرز بھی شامل ہیں۔شاہراہوں سے ملحقہ گرین بیلٹس کو بحال کردیا جائے گا۔امن چوک کو جدید طرز کے پارک سے مزین کر کے زیر زمین دکانوں کے ساتھ بحال کیا جائے گا۔

اگر پشاور ریپڈبس ٹرانزٹ کا پنجاب اور اسلام آباد کے منصوبوں سے موازنہ کیا جائے تو صوبائی حکومت کو پنجاب اور اسلام آباد کی
طرح اس منصوبے کے لئے سبسڈی نہیں دینا پڑے گی۔ پشاور سے روزانہ تقریباً 5 لاکھ افراد مستفید ہوں گے جبکہ پنجاب اور اسلام آباد سے صرف ایک لاکھ مستفید ہورہے ہیں۔بی آرٹی میں بہت سی ایسی خصوصیات ہیں سے جو لاہور، اسلام آباد اور ملتان کے میٹرو بس منصوبوں میںآپ کو نہیں ملتیں۔ پشاور بس ریپڈٹرانزٹ کے مین کوریڈور 26 کلو میٹر طویل کی مجوزہ لاگت 33 ارب روپے ہے جو 1.270 ارب فی کلومیٹر بنتی ہے۔ اسکے برعکس ملتان کے صرف 18.2 کلومیٹر طویل روٹ کی لاگت 29 ار ب روپے ہے جو 1.566 ارب روپے فی کلومیٹر ہے جو پشاورسے 23 فیصد زیادہ ہے اسی طرح اسلام آباد کے 23.2 کلومیٹر طویل روٹ کی لاگت50 ارب روپے ہے جو 2.155 ارب روپے فی کلو میٹر ہے یہ بھی پشاور بی آر ٹی سے 70 فیصد زیادہ ہے جبکہ لاہورمیٹرو سروس کے صرف 27 کلو میٹر طویل روٹ کی لاگت 60 ارب روپے ہے جو 2.222 ارب روپے فی کلومیٹر ہے اور پشاور بی آر ٹی کے مقابلے میں 75 فیصدزیادہ ہے۔

چمکنی کا مین بس ٹرمینل900 کنا ل اراضی پر مشتمل ہوگا۔پراجیکٹ سے متاثر ہونے والوں کو معقول معاوضہ جبکہ متاثر ہونے والے دکانداروں کو معاوضہ اور بیروزگار الاو¿نس کے علاوہ 5 سال تک کی اضافی لیز بھی دی جائے گی۔بلاشبہ یہ یہ آئندہ نسلوں کا پراجیکٹ ہے ۔پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم نام کے اس منصوبے کی تکمیل کے بعد صوبائی دارلحکومت پشاور کی خوبصورتی اضافہ ہوگا۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ مستقل طور پر حل ہو جائے گا۔ اور آلودگی کا خاتمہ ہوگا۔ جہانگیرہ، نوشہرہ ، اکوڑہ خٹک کی شاہراہوں اور بازاروں میں ایل ای ڈی لائٹس نصب ہو رہی ہیں۔ سائیکلوں کے لیے ایک خصوصی لین بھی بی آر ٹی کے منصوبے کا حصہ ہے۔اس کے برابر میں ایک بڑی سرکولر ریلوے بھی ہوگی جو آخر کار پشاور اور چارسدہ، مردان، مالاکنڈ اور نوشہرہ کے اضلاع کو آپس میں جوڑے گی۔”چمکنی سے حیات آباد براستہ گرینڈ ٹرنک روڈ، دبگاری گارڈنز، ریلوے روڈ، صدر اور یونیورسٹی روڈ پورے راستے پر 31 کی تعداد تک اسٹیشن تعمیر کیے جائیں گے۔” ڈب گری ، چمکنی اور حیات آباد میں تین مرکزی اسٹیشن تعمیر کیے جائیں گے۔منصوبہ بی آر ٹی روٹ کے 14.9 کلومیٹر کو سطح زمین پر رکھنے، 6 کلومیٹر کو بلند کرنے اور 4.9 کلومیٹر کو زیرِ زمین لے جانے کا ہے۔ چھبیس اسٹیشن سطح زمین پر، اور پانچ بلندی پر ہوں گے۔ "ہر علاقے کے لیے تیرہ متبادل راستے ہوں گے۔

ملک کو پیرس اور سنگا پور بنا دینے والے اعلان کر تے کرتے اپنے حلق خشک کر بیٹھے اور عملی کام کرنے والے خاموشی سے پختونخوا کو پیرس اور سنگاپور کی راہ پر ڈال بھی گئے۔پختونخوا میں کوئی ایک ایسا منصوبہ دیکھنے میں نہیں آئے گا جس پر اربوں کی لاگت بھی آئی ہو اور نتیجہ بھی صفر آیا ہو۔ اس قسم کے جناتی ، ہوشربا اور ملکی معیشت کے دامن پر داغ منصوبے ہمیں صرف پنجاب ، وفاق اور سندھ میں ہی کیوں ملتے

ہیں؟ جند لوگوں کی ذاتی زندگیاں پیرس اور سنگاپور بنتی گئیں اور ہسپتالوں میں بچے آکسیجن کو ترس گئے۔ لیکن کام کرنے والوں نے پشاور کے ہسپتالوں کو حقیقتا پیرس اور سنگاپور کے ہسپتالوں کا ہم پلہ بنا دیا۔ میری دعا ہے کہ باقی صوبوں کے عوام بھی پختونخوا ہ کے عوام کی طرح سکھ کا سانس لے سکیں اور جی سکیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے