28 کروڑ کا قصہ کیا ہے؟

آڈٹ ٹیم نے سپریم کورٹ کو وہ آڈٹ رپورٹ پیش کردی ہے جومنسٹری آف انفارمیشن کے اس الزام کے حوالے سے تھی کہ عطاءالحق قاسمی پر دو سال کے دوران 28کروڑ روپے خرچ ہوئے جنہیں حکومت پاکستان نے پی ٹی وی کا چیئر مین مقرر کیا تھا چونکہ یہ الزام مکمل طور پر بے بنیاد تھا چنانچہ آڈٹ ٹیم کے سامنے پی ٹی وی کے سہمے اور ڈرے ہوئے اہلکار بریف کر کے بھیجے گئے 28کروڑ پورے کرنے کیلئے اس قدر مضحکہ خیز اخراجات اس میں شامل کئے گئے کہ الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے دوست جب اس کی تفصیل میں جائیں گے تو وہ محسوس کریں گے کہ وہ ایک کامیڈی فلم دیکھ رہے ہیں۔ دراصل میری کردار کشی کے لئے ان کے پاس کوئی گرائونڈ تھی ہی نہیں کیونکہ چیئر مین Signatoryنہیں ہوتا، اس کے پاس کوئی مالی اختیارات نہیں ہوتے چنانچہ وہ اپنے یا اسٹاف کے کسی بھی فرد کے لئے معمولی سی رقم کی منظوری بھی نہیں دے سکتا۔

چنانچہ اپنے الزام کا پیٹ بھرنے کے لئے انہوں نے میرے پروگرام’’ کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ کے ہر روز ، جس میں آئندہ پروگرام کی جھلک دکھائی گئی ہوتی ہے،کو اشتہار قرار دے کر 14کروڑ روپے میرے کھاتے میں ڈال دئیے جسے آڈٹ ٹیم نےرد کر دیا یوں 28کروڑ میں سے 14کروڑ باقی رہ گئے صرف یہی نہیں بلکہ پورے پروگرام کا بجٹ ہی یہ ہے۔ہر پروگرام کا ایک منظور شدہ بجٹ ہوتا ہے۔ وہ بھی
اخراجات میں شامل کئے مجھے ابھی تک آڈٹ کی کاپی نہیں ملی مگر اس کاجو خلاصہ موصول ہواہے اس کے مطابق آڈٹ ٹیم نے پی ٹی وی لاہور کا بکس آفس بھی میرے کھاتے میں ڈالا ہے ، حالانکہ میں جب لاہور جاتا تھا تو جنرل منیجر کا کمرہ شیئر کرتا تھا انہیں دنوںجنرل منیجرنے ایک نیا آفس تعمیر کیا جس میں انہوں نے خود بیٹھنا شروع کر دیا۔ میں نے آج تک اس آفس کی شکل تک نہیں دیکھی۔

ایک بہت بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ میراپروگرام زندگی کے تمام شعبوں کے ماہرین جو پاکستان کے کسی بھی شہر میں رہتے ہوں ان سے پرانے پاکستان اور ان کے بچپن کی یادیں شیئر کرنا تھا، میں نے 38کے قریب مشاہیر کے انٹرویو کئے۔ جن میں کراچی اور ملتان کے مشاہیر بھی شامل تھے۔

اس کے لئے جو ٹیم ساتھ جاتی تھی ان کے آنے جانے اور رہائش کے اخراجات بھی میرے کھاتے میں شامل ہیں۔ حالانکہ میں نے پی ٹی وی کوآرکائیو کی صورت میں ایک خزانہ دیا ہے ۔ جو ساری عمران کے کام آئے گا، ایک خرچ تو ایسا بھی شامل اخراجات کیا گیا جس پر میرے جیسے ٹھنڈے مزاج کے شخص کا بلڈ پریشر بھی ہائی ہو جاتا ہے۔

یہ لاہور آفس نے ڈالا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ میں نے 21لاکھ روپے کھانے پر خرچ کئے ہیں یہ بے ہودگی کی انتہا ہے نہ کسی رسید پر میرے دستخط اور نہ کوئی زبانی آرڈر،پتہ کرنا چاہئےکہ یہ 21لاکھ روپے کہاں اور کس نے خرچ کئےمجھ پردو گاڑیاں رکھنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ایک لاہور میں ہوتی تھی اور ایک کراچی میں یہ سب اعتراضات ان دو برسوں کے دوران کیوں نہیں کیے گئے جب میں نے اتنی دھاندلی مچائی ہوئی تھی یہ سب کچھ اس وقت کیوں یاد آیا جب میں نے محسوس کیا کہ منسٹری آف انفارمیشن آنے والے دنوں میں اربوں کے ہیر پھیر کی پلاننگ کر رہی ہے۔ یہ میرا احساس تھا ، ثبوت میرے پاس نہیں تھا مگر میں نے اس گندکی کوئی چھینٹ خود پر پڑنے سے پہلے استعفیٰ دے دیا جبکہ ابھی میری ملازمت کا دورانیہ ایک سال باقی تھا۔

اور استعفیٰ میں، میں نے اپنے استعفیٰ کا ذمہ دار منسٹری کو ٹھہرایا ۔اس کے ایک ہفتے بعد میری کردار کشی شروع ہو گئی جو ابھی تک جاری ہے!
میں بات لمبی نہیںکرنا چاہتا ،چلتے چلتے صرف یہ بتا دوں کہ آڈٹ رپورٹ میں بیشتر اخراجات کی تصدیق نہیں کی گئی۔ منسٹری نے 28کروڑ جس طرح بنائے تھے وہ میں بتا چکا ہوں اور وہ ان ڈائریکٹ اخراجات تھے۔ حتیٰ کہ اس میں ٹرانسمیشن پر خرچ ہونے والے اخراجات بھی شامل تھے ۔

البتہ جو ڈائریکٹ اخراجات بیان کئے گئے ہیں وہ ٹوٹل پانچ کروڑ بہتر لاکھ ہیں، جن میں میری دو سال کی تنخواہ شامل ہے اور یوں معاملہ 28کروڑ سے کروڑ ڈیڑھ کروڑ تک رہ جاتا ہے اس کے علاوہ میں دو کمرے کے کوارٹر نما جس گیسٹ ہائوس میں رہتا تھا اس کا پی ٹی وی سے بالواسطہ تعلق یوں تھا کہ یہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی کے زیر انتظام تھا ، جس میں 71فیصد شیئر پی ٹی وی کے تھے۔ چنانچہ دو سال کے عرصے میں مجھ سے کوئی کرایہ نہیں مانگا گیا ، مگر جب میں نے استعفیٰ دیا تو منسٹری نےشالیمار والوں سے دو سال کے کرائے کی انوائس بنوائی۔ حالانکہ اس سے پہلے جتنے بھی افسر یہاں رہتے رہے ہیں ان سے تو کبھی کرایہ وصول نہیں کیا گیا اب 28کروڑ سے بات چند لاکھ تک پہنچتی ہے اور وہ چند لاکھ بھی اسی طرح کے ہونگے۔

آخر میں با امر مجبوری ایک بات!جس روز میں نے بطور چیئر مین چارج لیا اس روز ڈائریکٹر فنانس دو لاکھ روپے کا چیک لے کر آئے، میں نے پوچھا یہ کس لئے ؟ تو کہنے لگے ’’یہ چیئر مین کی انسٹالمنٹ ہوتی ہے،جب وہ چارج لیتا ہے تو اسے ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لئے یہ رقم دی جاتی ہے ‘‘ میں نے کہا ’’یہ اگر میرا استحقاق بھی ہے تو میں اسے ناجائز بلکہ حرام سمجھتا ہوں‘‘ اور اس کے ساتھ ہی میں نے چیک پھاڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ ایک بات اور جب میں نے چارج لیا اس وقت محمد مالک ایم ڈی تھے ایک روز انہوں نے کہا کہ ’’ہم بجلی کے بلوں کے ساتھ جو 35روپے صارفین سے لیتے ہیں ان میں سے پانچ روپے واپڈا والے سروس چارج پر کاٹ لیتے ہیں ، آپ وزیر اعظم سے مل کر پانچ روپوں کی جگہ ایک روپیہ کرا دیں تو یہ پی ٹی وی پر بہت بڑا احسان ہوگا‘‘ میں جانتا تھا یہ بہت مشکل بلکہ نا ممکن کام ہے کیونکہ اس میں بہت سے ادارے متعلق ہیں مگر اس کے باوجود میں وزیر اعظم نواز شریف کے پاس چلا گیا انہوں نے کہا کہ آپ یہ سمری میرے پاس چھوڑ جائیں میں اس کے قانونی پہلوئوں کی تحقیق کر کے پھر کچھ بتاسکوں گا۔ چند دنوں بعد وزیر اعظم ہائوس سے اس کی منظوری آ گئی اب میری اس کاوش کے نتیجے میں اس وقت سے پی ٹی وی سالانہ ریونیو میں ستر کروڑ روپے کا اضافہ ہو چکا ہے ۔الحمد للہ !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے