بھارت نے 70 برس بعد مہاجرین کو مالکانہ حقوق دے دیے

بنکاک: برصغیر کی تقیسم کے نیتجے میں ہندو مسلم فسادات سے بچنے کے لیے پاکستان سے ہجرت کرکے بھارتی ریاست مہاراشٹر میں پناہ حاصل کرنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کو 70 برس بعد زمین کے مالکانہ حقوق سرکاری سطح پر تفویض کردیئے گئے۔

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے پورے ملک میں پناہ گزینوں یا مہاجرین کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا سلسلہ بڑے زور و شور سے جاری ہے اور مذکورہ فیصلہ بھی اس کی ایک کڑی ہے۔

1947 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے قیام کے اعلان کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے، جس کے نتیجے میں تقریباً 30 لاکھ افراد سندھ اور پنجاب کے علاقوں سے ہجرت کرکے بھارت منتقل ہوئے تھے۔

ہجرت کرکے بھارتی ریاست مہاراشٹر میں سکونت اختیار کرنے والے مہاجرین حکومت کے قائم کردہ 30 کے قریب کیمپوں اور کالونیوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں ان کے مکانات فروخت یا دوبارہ تعمیر کرنے کے اختیارات نہ ہونے کے برابر تھے۔

تاہم اب حکومت کی جانب سے کچھ علاقوں میں مہاجرین کو مالکانہ حقوق تفویض کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

اس سلسلے میں حکام کی جانب سے رواں ہفتے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ تمام مہاجرین کو مالکانہ حقوق دیے جائیں گے تا کہ وہ اپنے گھروں کی مرمت اور دوبارہ تعمیرکرسکیں۔

اس موقعے پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ڈیوینڈرا فدنویس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان اختیارات کے دیے جانے کے بعد اب مہاجرین اپنے گھروں کو فروخت، تعمیر اور رہن رکھواسکیں گے جن میں وہ 6 دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تقسیم کے نتیجے میں سندھ اور پنجاب سے آنے والے 5 ہزار خاندان 5 کالونیوں میں رہائش پذیر ہیں، جن میں سے زیادہ تر مکانات کی حالت خاصی مخدوش ہے، اور انہیں دوبارہ تعمیر ہونے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے بھارت نے 1951 کے ‘مہاجرین کنوینشن‘ پر دستخط نہیں کیے تھے جو مہاجرین کے حقوق اور ریاست پر عائد ان کے تحفظ کی ذمہ داری کے حوالے سے ہے، نہ ہی بھارت میں فی الوقت موجود 2 لاکھ مہاجرین کے تحفظ کے لیے کوئی قانون موجود ہے، ان 2 لاکھ مہاجرین کا تعلق مختلف ممالک سے ہے جس میں سری لنکا، افغانستان، بنگلہ دیش اور میانمار سے آنے والے روہنگیا مسلمان شامل ہیں۔

البتہ اب بھارتی حکومت کی جانب سے محدود پیمانے پر کچھ مہاجرین کو حقوق دیے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس سلسلے میں 2016 میں شہریت کے بل میں کی جانے والی ترمیم، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے وہ غیر قانونی مہاجرین جو ہندو، سکھ، عیسائی، اور بودھ مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کو شہریت دیے جانے کا اہل قرار دیتی ہے۔

اس ضمن میں گزشتہ برس بھارتی حکام نے اعلان کیا تھاکہ 50 برس قبل بنگلہ دیش سے آنے والے 54 ہزار چھکمہ اور ہجونگ قوم کے افراد کو محدود شہریت دی جائے گی، لیکن انہیں قبائلی اور زمین کے اختیارات حاصل نہیں ہوں گے۔

خیال رہے کہ 2014 میں بنائی جانے والی ’تبٌتن ری ہیبلیٹیشن پالیسی‘ کے تحت مہاجرین کو بھارتی شہریوں کے مساوی، فلاحی مفادات، تعلیمی امداد اور اہم دستاویزات جیسے کہ پاسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کی تجویز دی گئی تھی ، لیکن اس میں زمین کے مالکانہ حقوق دیے جانے کو کوئی ذکر نہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے