قاتل پولیس کا قصور سے منگھوپیر تک کا سفر

قصور میں ننھی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا ، زینب کو 4 جنوری کو اغوا کیا گیا بچی کی لاش 5 روز بعد 9 جنوری کو اسکے گھر کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی ، جس کے بعد اہل علاقہ نے بھرپور احتجاج کیا ، زینب کا قاتل عمران گرفتار کر لیا گیا ہے اور عدالت نے مجرم عمران کو ننھی زینب کے اغوا، زیادتی اور قتل کے ساتھ ساتھ 7 اے ٹی اے کے تحت 4،4 مرتبہ سزائے موت سنائی اس کے علاوہ عمران کو زینب سے بدفعلی پر عمرقید اور 10 لاکھ روپے جرمانے جبکہ لاش کو گندگی کے ڈھیر پر پھینکنے پر7سال قید اور 10 لاکھ جرمانےکی سزا بھی سنائی گئی، چیف جسٹس کی جانب سے از خود نوٹس کے بعد مجرم کو سزا سنائی گئی، عدالت کی جانب یہ کام بخوبی انجام دیا گیا، لیکن سزا پر عملدرآمد تاحال باقی ہے

لیکن عدالت نے از خود نوٹس تب لیا جب ملک کے طول و عرض خاص طور پر قصور میں احتجاج نے شدت اختیار کی ، اور پنجاب پولیس نے اس احتجاج کو روکنے کی وہ کوشش کی کہ اس کوشش پر ضرور تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ جرات سے نوازا جانا چاہیے تھا، احتجاج اس لیے کیا جا رہا تھا کہ پولیس واقعہ پر فل الفور تحقیقات کرے اور ملزم کو گرفتار کرے تاکہ اس جیسی کسی اور بچی کو ایسے دل دہلا دینے والی صورتحال سے بچایا جا سکے ، لیکن تحقیقات اور انصاف گولی کی نوک پر ملا، پنجاب پولیس کی فائرنگ سے 2 شہری جاں بحق ہو ئے ، قانون کے رکھوالوں کی سرکاری بندوق سے نکلی سرکاری گولی نے دو شہریوں کی جاں لے لی

پنجاب پولیس کی ابھی یہ کاروائی بھولی نہیں تھی ، پنجاب کی زینب ابھی تک لوگوں کی آنکھوں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں موجود تھی کہ سندھ کراچی کے علاقہ اورنگی ٹاون کی رابعہ کو زیادتی کے بعد قتل کر دینے کا واقعہ سامنے آ گیا 6 بچی گھر سے کھلنے کےلئے نکلی تھی ، پولیس کی جانب اس واقعہ پر بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے پر بچہ کے اہل خانہ اور اہل علاقہ ایک بار پھر سڑکوں پر آئے ، پھر آنسو گیس کی شلنگ ، پھر لاٹھی چارج اور ایک بار پھر سرکاری رائفل سے نکلی سرکاری گولی نے ایک عام شہری کی جان لے لی ، بقول شاعر ” ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی” ۔ یہ مصرعہ یاد رکھئیے شعر ابھی مکمل نہیں ہوا

تو یہ طے ہے کہ ہر بچی کی المناک اور دردناک موت کے بعدانصاف کےلئے ہمیں پھڑ سے خون دینا پڑَے گا تبھی انصاف ملے گا، قانون اندھا ہوتا ہے کہ سنا تھا لیکن اتنا اندھا ہوتا ہے یہ اب پتا چلا، حکومت کی جانب سے خون کو روپے کی چادر میں لپٹنے کی کوشش کی گئی اور جاں بحق افراد کے اہل خانہ کو 30 لاکھ روپے معاوضے کے طور پر دینے کا اعلان کیا گیا آخری اطلاعات کے مطابق قصور واقعہ میں جاں بحق ہونے والی علی کے اہل خانہ نے معاوضہ لینے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے ۔حفاظت کرنے والی پولیس نہ بچوں کی حفاظت کر سکی اور نہ ہی شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ، محافظ ہی قاتل بن گئے ، کیا انصاف ہو گا ؟ یا پھر ہمیشہ احتجاج کی راہ نکالی جائے گی کیا واقعی حکومت اور عدلیہ سے بقول شاعر ” تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی”

اس سارے حالات میں نا جانے کیوں مجھ رہ رہ کر خیال اُن شدید پڑھی لکھی خواتین کے بارے میں آ رہا ہے جوملک کے کچھ شہروں کی شہرات پر سائیکلوں پر چڑھے اپنے حق کےلئے سرعام نکلی تھیں ، وہ میرا جسم میرا مرضی کا نعرہ لگانے والی خواتین حوا کی بیٹیوں کے ساتھ درندگی کے ان واقعات پر کیوں نظر نہیں آ رہی، عورت راج کی چلنے والی سائیکل عورت کے حق میں آخر کیوں رک گئی ، کیوں مجھے پہیہ جام ہڑتال کا منظر نظر آ رہا ہے ، وہ چند خواتین اپنے جسموں سے متعلق بات کر رہی تھی یا پاکستان کی ہر بچی کی جسم اور عزت کی حفاظت کےلئے نکلی تھی یہ ایک سوال بار بار ذہین کے دریچوں کو دستک دے رہا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے