عمان کی روایات

عمان کی موجودہ ترقی کے پیچھے سلطان قابوس ہیں‘ یہ پڑھے لکھے ہیں‘ سینڈہرسٹ رائل ملٹری اکیڈمی سے پاس آئوٹ ہیں اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے لوکل گورنمنٹ سسٹم اور ایڈمنسٹریشن میں کورسز کیے‘ 1970ء میں اپنے والد سعید بن تیمور کی جگہ عمان کی عنان سنبھالی اور کمال کر دیا۔

یہ ملک کو کچے مکانوں‘ مچھیروں کی بستیوں اور بے آب و گیاہ صحرائوں سے اٹھا کر جدید دنیا میں لے آئے‘ عمان آج جہاں ہے یہ سلطان قابوس کی محنت اور قیادت کا نتیجہ ہے‘ سلطان نے عمان کو پستی سے بلندی تک کیسے پہنچایا اس کے پیچھے تین چار بنیادی اصول کارفرما ہیں‘ پہلا اصول مخالفین ہیں‘ دنیا میں لوگ عموماً اقتدار میں آ کر مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگا دیتے ہیں‘ یہ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں۔

مخالفین ظلم سہتے سہتے ایک دن اٹھتے ہیں‘ عوام کو اکٹھا کرتے ہیں اور پھر حکمرانوں کا وہ حشر کر دیتے ہیں جو مصر میں حسنی مبارک‘ لیبیا میں کرنل قذافی اور تیونس میں بن علی کا ہوا‘ سلطان قابوس نے یہ تاریخی غلطی نہیں دہرائی‘ یہ مخالفین کو خود مرکزی دھارے میں لے کر آئے‘ ان کو عزت‘ مرتبے اور وزارتیں دیں اور ان کی اولادوں کو لندن اور امریکا کے اعلیٰ اداروں میں تعلیم دلائی۔

سلطان کے اس فیصلے نے ان کے بڑے سے بڑے مخالف کا دل موہ لیا‘ یہ ان کے دوست اور احسان مند ہو گئے‘ دوسرا اصول‘ سلطان نے عوام کو بے تحاشہ سہولتیں دیں‘ عمان ہر سال دو سے چار بلین عمانی ریال کا تیل فروخت کرتا ہے‘ یہ ساری رقم عوام پر خرچ ہوتی ہے‘ سڑکیں‘ پل‘ اسکول‘ یونیورسٹیاں اور اسپتال بنتے ہیں‘ بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دیے جاتے ہیں‘ عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔

بجلی‘ گیس اور پانی کی اسکیمیں مکمل ہوتی ہیں اور امن وامان اور سیکیورٹی کا انتظام کیا جاتا ہے‘ یہ خدمات اس قدر جامع اور اکراس دی بورڈ ہیں کہ پورے عرب میں عرب اسپرنگ آئی‘ پورا عرب اس سے متاثر ہوا لیکن عمان میں کسی قسم کی اتفراتفری اور بے چینی دکھائی نہیں دی اور تیسرا اصول‘ سلطان قابوس دل سے عوام کا احساس کرتے ہیں‘ یہ ایک محل سے دوسرے محل جانے کے لیے بھی رات کا وہ پہر چنتے ہیں جب سڑکوں پر رش نہیں ہوتا اور پولیس کو ان کی موومنٹ کے لیے ٹریفک بلاک نہیں کرنا پڑتی۔

یہ عام گاڑیوں میں پروٹوکول کے بغیر چپ چاپ ادھر سے اُدھر ہو جاتے ہیں‘ پولیس کو ان کے لیے ٹریفک تک بند نہیں کرنا پڑتی‘ یہ عوام کو کم سے کم دکھائی دیتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ’’اوور ایکسپوژر‘‘ عوام کے دل میں حکمرانوں کی قدر کم کر دیتا ہے‘ یہ دلوں سے اتر جاتے ہیں چنانچہ یہ سال میں صرف ایک بار قوم سے خطاب کرتے ہیں اور وہ بھی دس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا‘ یہ ہمیشہ پیچھے رہ کر کام کرتے ہیں اور یہ ان کی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے عوام ان پر جان چھڑکتے ہیں۔

یہ 2014ء میں علیل ہوئے تو لوگ گلیوں میں نکل کر روتے رہے‘ پورے ملک کی مساجد میں ان کی صحت کے لیے دعائیں ہوئیں۔ سلطان قابوس سرکاری تقریبات میں سندھی تلوار پہن کر آتے ہیں‘ یہ تلوار چار ہجری میں سندھ کے مسلمان حکمران نے عمان کو تحفے میں دی تھی‘ سندھ کے مسلمان فرمانروا نے عمانی سلطان امام صلت بن مالک کو خط لکھا اور بحری قزاقوں کے خلاف مدد طلب کی۔

امام صلت نے پانچ سو فوجی بھجوا دیے‘ ان فوجیوں نے سندھی فوج کو ٹریننگ دی اور بحری قزاقوں کو مار بھگایا‘ سندھی حکمران نے سلطان کے لیے خوبصورت تلوار بھجوائی‘ یہ تلوار مختلف حکمرانوں سے ہوتی ہوئی سلطان قابوس تک پہنچی‘ سلطان ہر سرکاری تقریب میں یہ تلوار پہن کر جاتے ہیں اور یہ ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔

عمانی روایات بہت دلچسپ ہیں‘ یہ لوگ کھانے میں چاول‘ گوشت اور مچھلی کھاتے ہیں‘ گوشت زمین میں گڑھا کھود کر پکایا جاتا ہے‘ یہ طریقہ بلوچستان کی ’’کھڈا سجی‘‘ سے ملتا جلتا ہے‘ یہ لوگ عمانی حلوہ بناتے اور کھاتے ہیں‘ حلوہ کھجور اور زعفران سے بنایا جاتا ہے اور بہت مزیدار ہوتا ہے‘ یہ سارا دن عمانی قہوہ بھی پیتے رہتے ہیں‘ یہ قہوہ الائچی‘ کافی اور قدرتی جڑی بوٹیوں کا مرکب ہوتا ہے۔

پورا ملک آف وائیٹ کلر کا لمبا کرتہ پہنتا ہے‘ یہ کرتہ دشداشہ کہلاتا ہے‘ کرتے کا گلہ گول ہوتا ہے اور اس کے ایک کونے سے موٹی سی ڈوری باہر لٹک رہی ہوتی ہے‘ یہ سر پر عمانی ٹوپی پہنتے ہیں‘ یہ ٹوپی کمہ کہلاتی ہے‘ یہ پائوں میں چمڑے کے انگوٹھے دار سلیپر پہنتے ہیں اور یہ پیٹ کے ساتھ مرضع خنجر لگا کر رکھتے ہیں‘ یہ خنجر اور یہ لباس تمام اعلیٰ سرکاری ملازمین اور عہدیداروں کے لیے لازم ہے۔

یہ لوگ پوری توجہ سے دوسروں کی بات سنتے ہیں لیکن فیصلہ انتہائی سوچ سمجھ کر اپنی مرضی سے کرتے ہیں‘ یہ دوسروں کے دبائو میں نہیں آتے اور یہ ان کی قومی عادت ہے‘یہ اپنے بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں‘ بچے ہمیشہ والد‘ چچا اور دادا کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘ آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے ہیں اور ان کے ہاتھ چومتے ہیں‘ دوست بھی دوستوں کے والد کا اسی طرح احترام کرتے ہیں۔

ملک بھر کی مساجد میں مجلسیں ہیں‘ یہ بیٹھک نما جگہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ یہاں بیٹھ کر مذاکرات بھی کرتے ہیں اور مشاورت بھی‘ تمام شادیاں مساجد میں ہوتی ہیں‘ وزراء ہوں‘ رئیس ہوں یا پھر عام غریب لوگ شادیاں مسجدوں میں نہایت سادگی کے ساتھ ہوں گی‘ تمام اخراجات لڑکا یا لڑکے کا خاندان اٹھائے گا‘ لڑکی کے خاندان پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا چنانچہ کسی عمانی کی دس بچیاں بھی ہوں تو اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی‘ ملک میں جہیز کا کوئی تصور نہیں‘ بارات مسجد میں آتی ہے۔

اخراجات لڑکا اٹھاتا ہے اور بچی لڑکے کی گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو جاتی ہے اور بس‘ مساجد انتہائی جدید‘ صاف ستھری اور آرام دہ ہیں‘ مساجد کا عملہ حکومت کا ملازم ہوتا ہے‘ حکومت انھیں تنخواہ بھی دیتی ہے اور ان کے نان نفقے کی ذمے دار بھی ہوتی ہے‘ حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی مسجد بن سکتی ہے اور نہ ہی کوئی عالم دین مسجد میں درس وتدریس کر سکتا ہے۔

جمعہ کا خطبہ حکومت کی طرف سے بھجوایا جاتا ہے‘ یہ ای میل‘ واٹس ایپ یا پھر فیکس کر دیا جاتا ہے‘ حکومت کے جاسوس مساجد میں موجود ہوتے ہیں‘ یہ امام کا خطبہ ریکارڈ کر کے حکومت کو بھجوا دیتے ہیں‘ امام سرکاری خطبے سے باہر نکل کر گفتگو نہیں کر سکتے‘ مدارس بھی حکومت کے کنٹرول میں ہیں‘ ان کا سلیبس بھی حکومت نے تیار کیا اور اساتذہ بھی حکومت کے ملازم ہیں اور یہ بھی حکومتی دائرے سے باہر نکل کر طالب علموں کو نہیں پڑھا سکتے‘ سلطان قابوس‘ ان کا خاندان‘ وزراء‘ مشیر اور اہل ثروت مساجد بنانے کے شوقین ہیں۔

یہ کثیر سرمائے سے مساجد بناتے ہیں‘ مسقط کی سلطان قابوس کی گرینڈ مسجد دیکھنے کے لائق ہے‘ یہ عمان کی ’’مین اٹریکشنز‘‘ میں شامل ہے‘ سلطان قابوس نے ملک کے دوسرے شہروں میں بھی بے شمار مساجد تعمیر کرائی ہیں‘ طرز تعمیر قدیم عمانی ہے‘ فرش اور دیواروں پر عمانی ماربل لگایا جاتا ہے اور چھت لکڑی کی ہوتی ہے‘ کھڑکیاں اور دروازے بھاری لکڑی کے بنائے جاتے ہیں‘ فرش پر عمانی کارپٹ بچھائے جاتے ہیں۔

مساجد سمیت ملک کی تمام عمارتوں میں یہ ’’آرکی ٹیکچر‘‘ نظر آتا ہے‘ یہ لوگ صفائی پسند بھی ہیں‘ یہ جسمانی صفائی کا خیال بھی رکھتے ہیں اور ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھتے ہیں‘ مجھے چار دنوں میں کسی جگہ کوئی گند‘ کوئی کچرہ دکھائی نہیں دیا‘ یہ امن پسند بھی ہیں‘ میں نے کسی شخص کو کسی جگہ کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا‘ یہ بات بھی سرگوشی میں دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔

یہ دل کے بھی کھلے ہیں‘ مہمانوں کی کھل کر میزبانی کرتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر1999ء کو جب سری لنکا سے واپس آ رہے تھے اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے انھیں ہوا ہی میں برخاست کر دیا تھا تو پائلٹ کا خیال تھا وہ شاید جہاز کو کراچی ائیرپورٹ پر نہ اتار سکے چنانچہ جنرل مشرف نے طیارے سے سلطان قابوس سے رابطہ کیا‘ سلطان نے انھیں مسقط میں جہاز اتارنے کی اجازت دے دی۔

جنرل مشرف آج تک ان کا یہ احسان نہیں بھولے‘ یہ 11جون 2000ء کو سلطان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مسقط بھی آئے اور سلطان نے بھی 2001ء میں پاکستان کا دورہ کیا‘ جنرل مشرف اور سلطان قابوس نے جولائی 2001ء میں پاک عمان انویسٹمنٹ کمپنی بنائی‘ کمپنی کی مالیت اب پانچ سو ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

کرنل قذافی کے خاندان نے بھی لیبیا میں انقلاب کے بعد عمان میں پناہ لی‘ یہ لوگ آج بھی عمان میں ہیں‘ پوری دنیا میں کرنل قذافی کے دوست موجود تھے لیکن زوال کے بعد سلطان قابوس اور عمان کے علاوہ کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا‘ یہ واقعات ان لوگوں کے کریکٹر کی دلیل ہیں۔

مجھے مسقط میں ایک اور مشاہدہ بھی ہوا‘ حکومت نے مسقط میں سمندر کے کنارے ایک چھوٹا سا ماڈرن شہر آباد کر دیاہے‘ یہ عربی میں الموج اور انگریزی میں ’’ویوز‘‘ کہلاتا ہے‘ یہ شہر بین الاقوامی کمیونٹی‘ یورپین شہریوں اور عمان کے ارب پتیوں کی بستی ہے ‘ آپ جوں ہی مسقط سے الموج میں داخل ہوتے ہیں آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ یورپ کے کسی شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔

الموج کے ریستوران‘ ہوٹل‘ کافی شاپس‘ فیری سروسز‘ سوئمنگ پولز‘ لانز اور شاپنگ سینٹرز ہر چیز یورپین ہے‘ آپ اسے عمان کا دبئی سمجھ سکتے ہیں‘ یہ بھی ایک اچھا اینی شیٹو ہے‘ ہم عمان سے یہ ماڈل بھی لے سکتے ہیں‘ ہم ہنزہ‘ گلگت‘ ٹیکسلا اور گوادر کو عالمی شہر بنا دیں‘ سیاح آئیں اور وہاں اپنی مرضی کی زندگی گزاریں۔

یہ کام اگر ترکی‘ دبئی‘ شام‘ اردن‘ مراکش‘ مصر اور عمان میں ہو سکتا ہے اور یہ اگر اگلے تین برسوں میں سعودی عرب میں ہو جائے گا تو یہ پاکستان میں کیوں ممکن نہیں؟ ہم کیوں دنیا سے الگ رہنا چاہتے ہیں اور ہم کیوں یہ سمجھتے ہیں دنیا میں صرف ہم ہی ٹھیک ہیں اور باقی دنیا جہنم کا دروازہ ہے‘ ہمیں بھی اب دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا شروع کر دینا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے