گیارہ نکات جو عمران خان بھول گئے

عمران خان بنیادی طور پر مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ ولولے کی بھی ان میں کمی نہیں۔ 29اپریل کی شام وہ آئندہ انتخابات کے لئے باقاعدہ طور پر میدان میں اتر آئے۔ اس جلسے میں شریک افراد کی تعداد پر بحث لاحاصل ہے۔ پاکستان میں جلسوں اور انتخابی نتائج میں مطابقت کی روایت نہیں ہے۔ عمران خان نے اس جلسے میں گیارہ نکات پیش کیے۔ عام توقع تھی کہ پاکستان کی قسمت بدلنے کا دعویٰ کرنے والا رہنما ملک کو درپیش اہم ترین مسائل کی نشاندہی کرے گا اور ایک قابل عمل سیاسی پروگرام پیش کرے گا۔
عمران خان کا گیارہ نکاتی بیانیہ مایوس کن ہے۔

وہ بنیادی طور پر مقبولیت پسند سیاست دان ہیں اور انہیں اپنی ذاتی خوبیوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے۔ پاکستان نے مقبولیت پسند سیاست کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھائے ہیں۔ سیاست میں لمحہ موجود کے بنیادی تضادات کی نشاندہی کر کے مستقبل کا راستہ نکالا جاتا ہے۔ مقبولیت پسند سیاست میں بنیادی سوالات پہ پردہ ڈال کر وقتی جوش و خروش کی مدد سے خواب دکھائے جاتے ہیں۔

1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے قیام ہاکستان کا ہدف حاصل کر لیا۔ نئے ملک میں ممکنہ پیچیدگیوں کا ادراک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کے بس میں نہیں تھا۔ پاکستان وجود میں آ گیا تو معلوم ہوا کہ صرف ہندوستان تقسیم نہیں ہوا،پنجاب اور بنگال بھی تقسیم ہو گئے ہیں۔ پاکستان حاصل کرنے والی سیاسی جماعت ٹھوس معاشی منصوبہ بندی سے محروم تھی۔ اہم ترین بات یہ کہ حصول پاکستان کے لئے لگائے جانے والے نعروں کے شور و غل میں یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا کہ پاکستان عوام کی حکمرانی اور ان کے معیار زندگی میں بہتری کے لئے قائم کیا گیا ہے یا اسے خلافت وغیرہ کے کسی اساطیری نمونے پر لے کر چلنا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے پہلے دس برس میں جو غلطیاں کیں وہ بالآخر آئین، وفاق، حاکمیت، حقوق اور معاشرت کے مستقل بحرانوں کی صورت اختیار کر گئی۔ جب بحران کے دھاگے الجھ جاتے ہیں تو قومیں ایک مسیحا کا انتظار کرتی ہیں۔ گزشتہ رات عمران خان صاحب نے اچھی حکمرانی کے نمونے کے طور پر ایوب خان کی مثال دی۔ حیرت ہے کہ عمران خان کے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی جیسے باشعور ساتھیوں نے انہیں نہیں بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں جی ڈی پی کا سب سے کم حجم 1960ء میں تھا یعنی صرف تین اعشاریہ 71ارب ڈالر۔ پاکستان کی تاریخ میں جی ڈی پی کا سب سے زیادہ حجم 2016ء میں رہا یعنی 284 ارب ڈالر۔ 2016 وہی سال ہے جب ہم نے پانامہ کا پنڈورا کھولا نیز یک زبان ہو کر جنرل راحیل شریف کا شکریہ ادا کیا تھا۔

عمران خان 27000 ارب روپے کے قرضے عوام سے چندہ لے کر ادا کرنا چاہتے ہیں۔ غیر ملکی قرضے خیرات سے واپس نہیں کیے جاتے۔ اس کے لئے معیشت کو پیداواری نمونے پر استوار کیا جاتا ہے۔

برآمدات بڑھائی جاتی ہیں، معاشی ترجیحات تبدیل کی جاتی ہیں۔ آئندہ مالی برس میں کل 4400 ارب کے محصولات کا ہدف ہے سولہ سو ارب روپے غیر ملکی قرضوں کی واپسی پر خرچ ہوں گے، گیارہ سو ارب روپے دفاع پر خرچ ہوں گے، باقی سترہ سو ارب روپے بچتے ہیں، اس میں عمران خان تعلیم صحت اور روزگار کے جو وعدے کر رہے ہیں ان سے پنجاب کا وہ روایتی روحانی پیشوا یاد آتا ہے جو ہر مرید کو اولاد نرینہ کی خوشخبری سناتا ہے۔

عمران خان نے اپنے گیارہ نکات پورے خلوص سے پیش کر دئیے تاہم گیارہ نکات ایسے تھے جن کی طرف سوئے اتفاق سے ان کی نظر نہیں پڑی۔ پاکستان کے ستر برس سیاسی عدم استحکام میں گزرے ہیں۔ جمہوری ریاست میں مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان تعلقات کے اصول ضابطے طے کیے بغیر سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوتا۔ ہماری تاریخ میں اس قسم کی واحد کوشش محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے مئی 2006ء میں کی تھی۔ افسوس کہ دسمبر 2012ء میں میمو گیٹ اسکینڈل کے دوران میاں نواز شریف میثاق جمہوریت کو بھول گئے اور آج کل آصف زرداری کا حافظہ غنودگی میں ہے۔ سیاسی استحکام کے لئے عمران خان کا موقف واضح ہے۔

جو ان کی قیادت تسلیم کر لے، وہ صاف ستھرا ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والا کرپٹ ہے۔ عمران خان روپے پیسے کے لین دین ہی کو کرپشن سمجھتے ہیں۔ کرکٹ کی حد تک تو ناجائز لین دین کی بنیاد پر کرپشن کے فیصلے ہو سکتے ہیں، سیاست میں کرپشن کی ان گنت صورتیں ہوتی ہیں۔ یحییٰ خان، بھٹو اور غلام اسحاق سمیت متعدد رہنماؤں پر مالی بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا البتہ پاکستان کی ریاست کے تباہ حال ڈھانچے پر ان سب کی انگلیوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر پاکستان میں کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی میعاد مکمل نہیں کر سکا تو عمران خان کو اس استمراری قتل عام پر غور کرنا چاہیے۔

دوسرا اہم نکتہ، جس پر عمران خان بات ہی نہیں کرتے، آئینی اور ریاستی اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ حیرت ہے کہ عوام کے ووٹ سے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے والا غیر منتخب قوتوں کی طرفداری کا تاثر رکھتا ہے۔ تیسرا نکتہ یہ کہ ہمارے دستور میں دراز دستیوں کے باعث بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ چالیس برس سے ہم صدارتی اور پارلیمانی طرز حکومت کی ایک ان کہی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔

اٹھاون ٹو (بی) اور باسٹھ ون (ایف) تو مشت از خروارے نمونے ہیں۔ آئینی بحران اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ عمران خان نے پارلیمنٹ میں رونمائی کی زحمت کم کم ہی کرتے ہیں، اس لئے یہ جاننا مشکل ہے کہ انہیں آئینی پیچیدگیوں کا کتنا ادراک ہے۔ عمران خان وفاق کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں، وفاق اپنی نوعیت میں ایسا بندوبست ہے جو اکائیوں کو بااختیار بنانے سے مضبوط ہوتا ہے۔ یہ وہی صوبائی خودمختاری اور مضبوط مرکز کا قدیمی بحران ہے۔ خان صاحب اس کے سادہ حل نکالتے ہیں؟ اگر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا ہے تو اسے سینیٹ میں برابر کی نمائندگی دینا ہو گی، ملک کے سب سے بڑے صوبے کو انتظامی تقسیم کے نام پہ آئینی جھرلو کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وفاق کی ایک اکائی کو ایوان بالا میں نمائندگی سے محروم رکھا جائے۔ خارجہ پالیسی کا ذکر کرنا خاں صاحب اتفاق سے بھول گئے۔ پاکستان میں عشروں سے خارجہ پالیسی چلانے کی اہلیت کسی اور میں پائی جاتی ہے اور خارجہ پالیسی کی ناکامی پر نااہل کوئی اور قرار پاتا ہے۔ اس پر عمران خان پاکستانی پاسپورٹ کو عزت دلوانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

عمران خان نے ایک بات پتے کی کہی، تعلیم واقعی ہماری سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ البتہ تعلیم کے بارے میں خان صاحب کی سوچ زیادہ واضح نہیں۔ خیبر پختونخوا میں تو ان کی تعلیمی عنایات مولانا سمیع الحق کے حقانی مدرسے پر مرتکز رہیں۔عمران خان تعلیم کو کوئی ایسی چیز سمجھتے ہیں جسے گھی چاول اور چینی کی طرح بازار سے خریدا جا سکتا ہے۔ تعلیم معاشرے کے جمہوری، معاشی اور تہذیبی ارتقا میں ہراول دستہ ہے۔اگر تعلیم کو سوال مرتب کرنے کی تہذیب نہیں دی جاتی تو ایسی تعلیم معیشت اور معاشرت کو آگے نہیں بڑھا سکتی۔ حیرت ہے کہ عمران خان نے اپنے گیارہ نکات میں مذہبی اقلیتوں کا ذکر تک کرنا پسند نہیں کیا۔ خواتین کے احترام کی کنجی امتیازی قوانین کے خاتمے میں ہے۔ صنفی مساوات قائم کیے بغیر عورتوں کا احترام ممکن نہیں۔

عمران خان کہتے ہیں کہ ہم سیاحت کو فروغ دیں گے۔ اتفاق سے ہمارا ایک قریبی برادر مسلم ملک بھی ان دنوں سیاحت پہ توجہ دے رہا ہے۔ عمران خان برادر مسلم ملک میں سیاحت کے لئے کیے جانے والے اقدامات پر ایک نظر ڈال لیں۔ سرمائے کی منطق بے رحم ہوتی ہے۔ عمران خان ملک میں سرمایہ کاری لانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے تو ہمیں داخلی اور خارجی ترجیحات کو یکسر تبدیل کرنا ہو گا۔ معیشت کی چڑیا اس صحن میں نہیں اترتی جہاں سینکڑوں لوگوں کو گولی مارنے کی تقریریں ہو رہی ہوں۔ عمران خان کے مخلص ساتھی شیخ رشید نے 440 افراد کو گولی مارنے کی فرمائش کی ہے، کسی کا نام تو نہیں لیا تاہم احتیاطاً یہ کالم یہیں ختم کر دینا چاہئے… پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے