٭فیصلے کی گھڑی٭

طوفان سے پہلےکی خاموشی مہیب ہوتی ہے۔جب خاموشی دم توڑنے لگتی ہےتو ہیبت بدحواسی میں بدل جاتی ہے۔ پھرخوف اور دھشت کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔پچھلے کئی سالوں سے ہم خیبرپختونخوا اور فاٹا کے لوگ ان تینوں کیفیات سے گذرتے چلےآرہے ہیں۔ گھر گھر، شہر شہر، چوک چوباروں ، مساجد مزاروں ، سکولوں یونیورسٹیوں ، اور چھوٹی بڑی ہستیوں ۔سب پربدحواسی، دھشت اور قیامت صغری کے عذاب نازل ہوتے رہے ہیں۔صبرآزما، اعصاب شکن اورجان لیوحادثات اور غم و اندوہ نےپختونوں، اور بالخصوص نوجوان نسل، میں شدید ردعمل کے جذبات کوفروغ دیا ہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی، مہنگائی، لاقانونیت، اورلاقانونیت نے ان جذبات کو مزید توانائی دی ہے۔پی ٹی ایم ان جذبات اور اس سے ظہور پذیر ہونے والی فرسٹریشن کی عکاسی کرتی ہے۔

پہلے پشاور، پھر لاہور اور اب سوات میں جس طرح کے جذبات کا اظہار ہوا ہے۔جس اندازمیں بچوں او بچیوں کی آہ و زاری اور گریہ وفریاد سے ماحول کو ایکسپلوسیوبنایا گیا۔فرط جذبات میں جس قسم کے زہریلے اور نفرت انگیزنعرے بلند ہوۓ ہیں۔ ان سے مجھ سمیت بہت سے ایسے لوگوں کو تکلیف پہنچی ہے جو پاکستان اور پختونوں سےمحبت کرتے ہیں۔

الزام لگانے والے کہہ سکتے ہیں کہ منظور پاکستان مخالف قوتوں کا منظورنظر ہے۔اسےایک ایسے وقت میں لانچ کیا گیا ہے۔

جب پاکستان کے اندر دھشت گردوں کا قلع قمع کیا گیا ہے۔

جب منظور کے بہت سارے مطالبات پر پہلے ہی ریاستی اداروں نے عمل کیا ہے یا کررہے ہیں ۔

جب امریکہ اور ہندوستان پاکستان کو کمزور کرنے کے لیۓ بلوچ اورپختون نوجوانوں کو ایکسپلائیٹ کرنے کے درپے ہیں۔

جب خطے میں رواں جنگ و جدل کے پیچھے عالمی اور علاقائی قوتیں پوری طرح ملوث ہیں جس میں ریاست پاکستان کےداخلی مشکلات میں اضافہ دشمن ہی کے مفاد میں ہے۔

لیکن سب حقائق اور مفروضوں کے علی الرغم چند سوالات ایسے ضرور ہیں جن پر پختون نوجوانوں کومطمئین کرنا اشد ضروری ہے۔اس سے پہلے کی مزید تاخیر ہوجاۓ اور ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن جاۓ، ریاست کے متعلقہ اداروں کو ان سوالات کا تسلی بخش جواب دینا چاہیۓ۔

مثلا” دھشت گردوں کے خلاف جنگ میں غائب ہونے والے لوگ کہاں ہیں؟اگر یہ لوگ ریاست کی قید میں نہیں تو کئی سال گذرنے کے باجود یہ کہاں ہیں؟ اگر ریاست کے پاس قید ہیں تو ان کوآئین پاکستان کےآرٹیکل 10کے تحت عدالتوں میں کیوں نہیں پیش کیا جاتا؟اگرریاست کا دعوی ہے کہ یہ لوگ اس کی کسٹڈی میں نہیں تو علی الاعلان یہ بات مشتہر کیوں نہیں کرتی ؟

کیا رشتہ داروں کی آہ و فریاد اتنی بھی قابل اعتناء نہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بناکر ان کی شکایات کا ازالہ کیا جاسکے؟کیا جو مطالبات پی ٹیم ایم پیش کررہی ہے، وہ آئین اور قانون کے اندر ہیں یا ان سے متصادم؟ اگر آئین اور قانون کے اندر ہیں تو پھر ان پر اب تک کیا ضروری کارروائی ہوئی ہےیا مزید ہونےجارہی ہے؟

اور ہاں ہسپتالوں میں دکھی انسانیت کے لیۓ سرگرداں چیف جسٹس صاحب ان فریادی بچوں ، بچیوں، ماوں اور بیویوں کی فریاد پر سووموٹو ایکشن نہیں لے سکتا؟کیا پچھلے سترہ آٹھارہ سالوں سے ملک اور قوم کو دھشت گردی کی بھینٹ چڑھانے والوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیۓ؟ان لوگوں کے خلاف کیا قانونی کارروائی ہوئی جو کل تک ریاست پاکستان اوراہلیان پاکستان کے خلاف برسرپیکار تھے لیکن آج ریاستی اداروں کے تحویل میں ہیں؟۔

یہ معاملہ اب غیر ضروری حد تک طول پکڑگیا ہے۔بہت سے کوتاہ نظر افواج پاکستان ، ایف سی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں سے آنکھیں چرا کراحسان فراموشی کررہے ہیں۔ہم محسوس کر رہے ہیں کہ بہت سےپاکستان دشمن عناصرپی ٹی ایم سے امیدیں لگاۓ بیٹھے ہیں ۔کچھ قوم پرستوں کی یہ بھی خواہش ہوگی کہ اس تحریک کی آڑمیں پختونوں کے اندر ریاست پاکستان کے خلاف نفرت اور براءت کو ہوا دی جاۓ۔۔

لیکن ایسے تیرہ نصیب لوگوں کو شائد معلوم نہیں کہ گلے شکوے اور سوالات و اشکالات رکھنے کے باوجود پختون اسلامی جمہوریہ پاکستان کےدفاع اور سلامتی کے لیۓ کسی بھی حد تک جانے کے لیۓ تیار ہیں،کرم ایجنسی کا حالیہ واقعہ پاکستان کی مٹی سےپختونوں کی غیر معمولی محبت کی ایک معمولی علامت ہے،پاکستان کی سلامتی ہمیں اسلام کے بعد سب سےزیادہ عزیزہے، اپنی جان سے بھی بڑھ کرعزیز۔

اس بحث سے قطع نظرکہ منظور پشتین دشمن کا آلہ کار ہےیا مظلوموں کی داد رسی کے لیۓ اٹھنی والی ایک بے لوث آواز، مسلے کا حل الزامات اور کاونٹرپروپیگنڈا نہیں، بلکہ ان سوالات کے جواب اور ان مسائل کے حل پر موقوف ہے جوایک عرصے سے ہر پختون بچے، بوڑھے، جوان، مرد وعورت کے ذہن میں گردش کررہے ہیں۔

اگرچہ وقت تیزی سے نکلتا جارہا ہے، اب بھی عمل کا وقت موجود ہے فریادی لوگوں کی داد رسی کا وقتغمزردہ خاندانوں سے اشک شوئی کا وقت
دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیۓ۔پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیۓ۔یہی فیصلے کی گھڑی ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے