گلگت بلتستان میں 70سال کیا ہوتارہا؟

گلگت یکم نومبر 1947 کو آزاد ہوا اور بلتستان کے علاقے 14 اگست 1948 تک آزاد ہوئے تاہم یکم نومبر 1947 سے16 نومبر 1947 تک گلگت کی حیثیت آزاد ریاست کی رہی اور پھر س16 نومبر کو خیبر پختونخواہ کے انتظام میں لایا گیا. اس کے بعد سردار عالم خان کو پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر بھیجا گیا اور ایف سی آر (فرنٹئیر کرائم ریگولیشن ) کا نفاذ کیا گیا اور ایک سال بعد بلتستان (سکردو اور دیگر نئے آزاد ہونے والے علاقوں ) کو بھی اس میں شامل کیا گیا، جو 1971 تک جاری رہا . اس دورانیے میں ایوب خان نے 1960 میں بی ڈی (Basic Democratic) نظام کے تحت انتخابات کروائے لیکن مقامی حکومت کچھ کام نہ کر سکی۔ 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے ایف سی آر کو ختم کیا، صرف پولیٹیکل ایجنٹ کو باقی رکھا۔

چار سال بعد 1975 میں بھٹو نے نادرن ایریا ایڈوائزری کونسل قائم کی ، جس میں آٹھ ممبرز گلگت بلتستان سے تھے جبکہ آٹھ وفاق کی جانب سے مقرر کردہ لوگ تھے۔ اس کونسل کا چیف ایگزیکٹو وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کو مقرر کیا گیا تھا۔بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب ضیاالحق کا مارشل لا آیا تو نادرن ایریاز کو E زون قرار دیا اور پھر 1981 میں پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ کا نفاذ نادرن ایریاز تک کر دیا۔

اس کے بعد 1994 میں بے نظیر نے پہلی مرتبہ گورننس آرڈر دیا جس کے مطابق عدالتی اصلاحات اور دیگر تبدیلیاں ممکن ہو سکیں۔ اس آرڈر کے تحت چیف کورٹ وجود میں آئی اور ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کی پوسٹ تخلیق کی گئی ۔اس آرڈر کے مطابق چیف ایگزیکٹیو نادرن ایریاز وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات تھا۔ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے پاس صرف وہی اختیارات ہوتے جو اسے چیف ایگزیکٹو تفویض کرتا تھااس کے علاوہ کسی قسم کے اختیارات کی تشریح اس گورننس آرڈر میں نہیں تھی۔

1994 میں شمالی علاقہ جات کے حوالے سے دوسری اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ فوجی آمر ضیا الحق کی جانب سے سیٹیزن شپ ایکٹ کے شمالی علاقہ جات میں نفاذ کو بنیاد بنا کر شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت اور حقوق سے متعلق ”الجہاد ٹرسٹ” نامی تنظیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو آئین پاکستان کے تحت حقوق دیے جائیں یا پھر آئین پاکستان کے تحت نہ کرنے پر سرحد بنائی جائے اور شمالی علاقہ جات کو الگ کیا جائے۔جس پر 1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو آئین پاکستان کے تحت مکمل حقوق شامل ہیں، ان کو پاکستان کا شہری مانا جائے ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ سیٹیزن شپ ایکٹ کے تحت گلگت بلتستان کے باشندے ٹیکس دیتے ہیں، اس لئے ان کو مکمل آئینی و سیاسی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔

عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ فیصلے کے مطابق چھ ماہ میں اصلاحات لائی جائیں۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کیلئے وفاقی حکومت نے 1994 بے نظیر حکومت کی جانب سے دیے گئے نظام میں ترامیم کیں تاہم وقتی طور پر ان پر عمل درآمد ممکن نہ ہو سکا کیونکہ ترامیمی ایکٹ کے نفاذ کا اعلان کرنے اس وقت کے وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات مجید ملک 11 اکتوبر 1999 کو گلگت پہنچے ، دوسرے دن یعنی 12 اکتوبر کو مشرف مارشل لا نافذ ہو گیا اور مجید ملک کی وفاقی وزیر کی حیثیت ختم ہو گئی جس کے باعث اس ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کا اعلان نہ ہو سکا۔

چونکہ وفاقی حکومت اس ایکٹ کی منظوری دے چکی تھی اس لئے یہ نظام کا حصہ بن چکا تھا ، صرف عملدرآمد باقی تھا۔اس ترمیمی ایکٹ کے مطابق شمالی علاقہ جات کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دیا گیا اور اس قانون ساز کونسل کو چلانے کیلئے اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا گیا. اس کے ساتھ کورٹ آف اپیل(جسے 2005 میں چیف اپیلٹ کورٹ کے نام سے قائم کیا گیا) کی منظوری بھی شامل تھی ۔

خیال رہے کہ 1975 سے 1999 تک نادرن ایریاز کونسل کے اجلاس وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کی زیر صدرات ہوتے تھے۔

1999 میں اس ترمیمی ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہو سکا تاہم2000 میں فوجی آمر جنرل مشرف کی حکومت نے اسی ایکٹ میں موجود سفارشات پر عمل کرتے ہوئے قانون ساز کونسل کیلئے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے ساتھ اسپیکر کا عہدہ متعارف کروایا ، اس کے مطابق ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا کام علاقے کا نظام چلانا جبکہ اسپیکر کا کام کونسل کے امور چلانا تھا اور دو سال بعد 2002 میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ بھی متعارف کروایا گیا جو اسپیکر کی غیر موجودگی میں سپیکر کے اختیارات رکھتا تھا۔ کونسل کو 47 مقامی سبجیکٹس میں قانون سازی کے اختیارات دیے گئے۔ یہ تمام سبجیکٹس میونسیپلٹی طرز (یعنی میونسیپل کمیٹی کے مکمل اختیارات قانون ساز کونسل کو دے دیے) کے تھے۔

اس کے بعد مشرف نے2005 میں کورٹ آف اپیل کو سپریم اپیلٹ کورٹ کا نام دیا جو تین ججز پر مشتمل عدالت ہے۔ دو سال بعد 2007 میں مشرف نے کچھ اوراصلاحات لائیں اور قانون ساز کونسل کو قانون ساز اسمبلی کا نام دیا ، اس کے ساتھ ہی ڈپٹی چیف ایگزیکٹو کے عہدے کو چیف ایگزیکٹو کا نام دیا گیا لیکن ان اصلاحات میں بھی وزارت امور کشمیر کا تسلط برقرار رہا اور وزیر امور کشمیر اس نظام کے چئیرمین بنا دیا گیا۔

دو سال کے مختصر عرصہ بعد ہی پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر کے سیٹ اپ سے ملتا جلتا سیٹ اپ لایا ، جس میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ساتھ گلگت بلتستان کونسل بھی متعارف کروائی گئی ۔ اس نظام کے تحت گلگت بلتستان میں قانون سازی کے حتمی اختیارات وزیر اعظم پاکستان کے پاس تھے ۔

2009 کے حکم نامے میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں وزیر اور وزارت کے الفاظ متعارف کروائے گئے( اس سے قبل گلگت بلتستان میں مشیر یا ایڈوائزر ہوتے تھے جن کو چیف ایگزیکٹو نامزد کرتا تھا اور وزیر امور کشمیر منظوری دیتا تھا) اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کا ڈومیسائل رکھنے والا شخص ہی گلگت بلتستان کا شہری کہلاتا ہے اور پاکستان سیٹزن شپ ایکٹ پر عملدرآمد گلگت بلتستان میں باقی نہ رہا۔اس نظام میں عدلیہ کے ججز کی تقرری کا اختیار وفاقی وزیر امور کشمیر کے پاس تھا۔

2009 میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو نام ملا اور سرکاری طور پر شمالی علاقہ جات کے بجائے گلگت بلتستان کہا اور لکھا جانے لگا اس کے ساتھ گلگت بلتستان کا یوم آزادی یکم نومبر کو سرکاری طور پر منایا گیا ( اس سے قبل گلگت کا یوم آزادی یکم نومبر جبکہ سکردو میں یوم آزادی 14 اگست کو منایا جاتا رہا ہے)

اس نظام کے نو سال بعد گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے ذریعے نیا سیٹ اپ دیا جا رہا ہے جس میں وہاں کے عوام کو امید تھی کہ گلگت بلتستان کو اندرونی طور پر قانون سازی کے اختیارات ملیں گے اور اسمبلی کو بااختیار بنایا جائے گا تاہم اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کے تمام اختیارات کا منبع وزیراعظم پاکستان کو بتایا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کی ایگزیکٹو اتھارٹی اپنے معاملات میں وزیراعظم پاکستان کے ماتحت ہو گی اور گلگت بلتستان اسمبلی اور وزیراعظم پاکستان مختلف صورتوں میں قانون سازی کیلئے بااختیار ہوں گے تاہم فائنل اتھارٹی وزیراعظم ہی ہوں گے۔ تمام ٹیکسز لاگو کرنے کا اختیار، ججز کی تقرری کے اختیارات، کسی حادثہ یا نقصان کی صورت میں معاوضوں کی ادائیگی کے اختیارات بھی وزیراعظم پاکستان کے پاس ہو ں گے۔

2018 کے حکم نامے میں پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کو عدالتی نظام میں ہائی کورٹ دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ تاہم اس کے ججز کی تعیناتی کیلئے بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کا حتمی اختیار بھی وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہو گا۔ گلگت بلتستان کا صوبائی پبلک سروس کمیشن قائم ہو گا، کمیشن کے ممبران اور چیئرمین کا تقرر گورنر کی ایڈوائس پر وزیراعظم پاکستان تقرر کریں گے جبکہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری بھی وزیراعظم کریں گے ، آڈیٹر جنرل گلگت بلتستان کا تقرر وزیراعظم کی ہدایت پر گورنر کریں گے اور پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ کا نفاذ کیا جائے گا ، جس کے مطابق پاکستان کا کوئی بھی شہری گلگت بلتستان کا رہائشی کا شہری کہلوائے گا اور پاکستان کا کوئی بھی باشندہ وہاں جائیداد کی خرید سکے گا۔ اس حکم نامے کے مطابق گلگت بلتستان کونسل کو ختم کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ 1975 سے اب تک گلگت بلتستان کو دیے گئے مختلف سیاسی نظاموں میں قانون سازی کا اختیار مقامی حکومت کو نہیں دیا گیا بلکہ قانون سازی کا اختیار حکومت پاکستان کے پاس رہا ہے اور گلگت بلتستان کی ایگزیکٹو اتھارٹی اپنے معاملات میں حکومت پاکستان کے تابع رہی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے