مولانا فضل الرحمٰن،ایک بہت بڑے سیاست دان!

میں نے مولانا فضل الرحمٰن کی جب کبھی تقریر سنی یا ان کی پریس کانفرنس دیکھنے کا موقع ملا تو میں نے ہر دفعہ محسوس کیا کہ وہ مشکل سے مشکل سوال کا جواب انتہائی آسانی سے دیتے ہیں۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو لیکن لگتا یہی ہےکہ مولانا صحیح کہہ رہےہیں۔

یہ ضروری نہیںہوتا کہ وہ صحیح سمت پر ہیں۔ مگر ان کی گفتگو منطقی ہوتی ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ دینی مدارس میں ایک پرچہ منطق کا بھی ہوتاہے۔ ان دنوں جبکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سیاست دانوںکو ’’گھیرے‘‘ میں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، آپ کی زبان سے نکلی ہوئی کوئی کمزوربات ساری عمر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور وہ ہر موقع پر’’کوٹ‘‘ ہوتی ہے اوراس کی کلپ دکھائی جاتی ہے۔

سیاست دانوں کو پل صراط پرسے گزرنےکی مشکل میں ڈالنے والی ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کواکثریہ پل صراط طے کرنا پڑتا ہے۔ اور بیشتر صورتوں میں وہ کامیابی سے اس مرحلے سے گزر جاتے ہیں۔

مولانا اگرچہ پٹھان ہیں لیکن اردو بھی اہل زبان کی طرح بولتے ہیں مجھے ان کی ایک اور بات بہت اچھی لگتی ہے وہ ان کے چہرے کی مسکراہٹ ہے میں نے انہیں اکثر مسکراتے ہی دیکھا ہے ایک اور بات یہ کہ جب کبھی وہ لاہور آتے تھے کسی مدرسے کے حجرے میں قیام کرتے تھے ۔

مجھے علم نہیں ان دنوں ان کا رہن سہن ویسا ہی ہےمگر جب میں ان سے ملا تھا اور ان دنوں حجروں میں ہی قیام کیا کرتے تھے ۔مولانا بلا کے سیاست دان ہیں ، مجھے علم نہیں کہ سیاست کے باب میں ان کے برابر کا کوئی اور سیاست دان ہے بھی کہ نہیں ؟میں نے صرف انہیںایک دفعہ سلیم صافی کے جرگہ میں قدرے کمزور پایا شاید اس لئے کہ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح ایک پٹھان کو کوئی پٹھان ہی کاٹ سکتا تھا۔

ایک دفعہ مولانا لاہور کے ایک اسپتال میں بغرض علاج داخل تھے اتفاق سے میں بھی اسی اسپتال میں نہ صرف یہ کہ ایڈمٹ تھا بلکہ میرا کمرہ بھی ان کے کمرے کے برابر ہی تھا۔

میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو ایک مولانا راہداری میں ٹہل رہے تھے بڑی محبت سے مجھ سے بغل گیر ہوئے ۔میں مولانا کو اپنے کمرے میں لے گیا جہاں پہلے سے کچھ دوست عیادت کے لئے آئے ہوئے تھے وہ مولانا کو اچانک اپنے سامنے پاکر بہت خوش ہوئے مولانا ایک عام سے شخص کی طرح خوش گپیوں میں مشغول ہو گئے۔ ورنہ مشہور لوگ عموماً ایسے موقع پر بہت کمپوزڈ ہو جاتے ہیں میرے ان دوستوں نے مولانا کے ساتھ سیلفیاں بنوائیں اور پھر وہ اجازت لیکر چلے گئے مگر اپنا اچھا تاثر چھوڑ کر گئے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ مولانا کے قد کاٹھ کے سیاست دان کا نام کبھی ’’متوقع‘‘ وزیر اعظم کے طور پر دیئے گئے سیاست دانوں کی فہرست میں بھی نہیں آیا، آخر اس کی کیا وجہ ہے ہمارے ہاں ان سے کم تر درجے کے سیاست دان بھی وزیر اعظم بنے، عبوری حکومتوں کے دور میں بھی وزیر اعظم امریکہ سے امپورٹ کئے گئے کسی سیاسی اتحاد میں بھی وہ وزیر اعظم نہیں بنے اب تو بلوچستان میں 500ووٹوں والا شخص وزیر اعلیٰ ہے مگر مولانا فضل الرحمٰن میں کیا کمی ہے ؟مجھے خیال آیا کہ ان کی ذات میں کوئی کمی نہیں بلکہ داڑھی ’’اضافی ‘‘ ہے ۔ان کے کاندھوں پر دھرا ہوا رومال ؟اور ایک دینی جماعت کا سربراہ ہونا ہے میں نے ایک دفعہ لکھا تھا اور اپنی اس بات پر اب بھی قائم ہوں کہ مولانا ا گر داڑھی منڈوا کر سوٹ پہننا شروع کر دیں اور دینی جماعت کی سربراہی چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے ’’سیاست کے مرکزی دھارے‘‘ میں آ جائیں تو ان کے وزیر اعظم بننے کی گارنٹی میں دیتا ہوں مگر میں جانتا ہوں ایسا کبھی نہیں ہوگا اور نہ ہونا چاہئے!

میں نے ابھی تک جو لکھا ہے وہ سیاست کے دائو پیچ میں ان پر ’’پی ایچ ڈی‘‘ ہونے کے حوالے سے لکھا ہے ورنہ ان پر الزامات بھی بہت ہیں انہیں ڈیزل کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر اس حوالے سے نہ کبھی ان پر کوئی مقدمہ دائر کیا گیا اور نہ کبھی اس کی کوئی تفصیل سامنے آئی ۔میں ویسے بھی ان دنوں سیاست دانوں پر لگائے گئے الزامات پر یقین نہیں کرتا کہ کوئی سیاست دان ایسا نہیں جس پر الزامات نہ لگ رہے ہوں یا کبھی نہ لگے ہوں۔ مولانا بھی سیاست دان ہیں اللہ کرے یہ الزام غلط ہو یا وہ کبھی حامد میر ،جاوید چودھری ،نصرت جاوید، رئوف کلاسرا یا کسی بھی اینکر کے ٹاک شو میں صر ف اس الزام کے حوالے سے گفتگو کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔باقی میں نے ان کے وزیر اعظم بننے کے راستے میں جس رکاوٹ کو دور کرنے کی بات کی تھی وہ جب اس حوالے سے استغفراللہ کہیں تو ایک دفعہ میری طرف سے بھی کہہ لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے