ادیبوں کیلئے کچھ قیمتی مشورے!

پیارے بیٹے! میں تمہیں سمجھاتے تھک گیا ہوں مگر تم آئیڈیل ازم آئیڈیل ازم کی تکرار کرتے رہتے ہو۔ جانِ پدر زندگی گزارنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس لئے جھوٹ کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا ہے۔ مصلحتوں سے کام لینا ہوتا ہے اور اردگرد کی فضا دیکھ کر قدم اٹھانا ہوتے ہیں، تم اپنی غزلوں میں کیسے کیسے خوفناک اشارے موجودہ نظام کے خلاف کرتے ہو، خود کو منصور کہتے ہو، اناالحق کا نعرہ لگاتے ہو، دار و رسن کی بات کرتے ہو مگر کیا میں نے کبھی تمہیں اس سے روکا ہے؟

میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ تم اپنی شاعری میں اپنے کردار کے حوالے سے اس سے بھی زیادہ دعوے کرنا چاہو تو ضرور کرو لیکن حکام بالا سے بھی بنا کر رکھو اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو، ان کے بچوں کے عقیقے میں شرکت کرو، چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائو، اگر وہ اس موقع پر تمہارے مقام اور مرتبے کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے کوئی ’’شرارت‘‘ کر بیٹھیں تو ان کی نیپی بدلنے کے لئے بیگم صاحبہ کو زحمت نہ دو، یہ کام خود کرو مگر تم پر میری ان باتوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا چنانچہ افسران بالا تم سے ناخوش رہتے ہیں اور روزانہ تمہاری جواب طلبی ہوتی ہے۔

تم کمٹمنٹ کی بات کرتے ہو، بیٹے میں بھی کمٹمنٹ کا قائل ہوں اور تم سے زیادہ قائل ہوں مگر کمٹمنٹ خیال سے ہوتی ہے، عمل سے نہیں۔

ایک سیاسی جماعت سے تمہاری ہمدردیاں بھی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ تم کہتے ہو نظام بدلنے کے لئے ادیبوں اور دانشوروں کو ہر اس سیاسی جماعت کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہئیں جو ان کے نظریے پر خواہ مکمل طور پر پورا نہ اترتی ہو مگر اس کا منشور اور عمل حالات میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا سکتا ہو۔ بیٹے تم نہیں جانتے، خود تمہارے ہم عصر تمہاری اس بات سے اتفاق نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ ادیب اور دانشور کو غیر جانبدار ہونا چاہئے اور کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ کس قومی یا بین الاقوامی مسئلے پر اس کا نقطہ نظر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر شعرا نظم کے بجائے غزل کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں دار و رسن، صید اور صیاد، گل اور گل چیں کے پردے میں گول مول باتیں کرتے ہیں تاکہ اس کی تشریح دوسروں پر چھوڑ دی جائے اور اگر کوئی قاری براہِ راست پوچھ بیٹھے کہ آپ کا ارشاہ کس طرف ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں ’’میں نے جو کہنا تھا وہ شعر میں کہہ دیا ہے، اس سے آگے آپ کا کام ہے‘‘ یہی کام تجریدی قسم کے ناولوں اور افسانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ میرے بیٹے! یہی بہترین پالیسی ہے، اسی میں امان ہے۔

دیکھو بیٹے! تم عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے ہو، لاحول ولا قوۃ کیسی مضحکہ خیز بات کہہ گیا ہوں، میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ تم میرے سب سے چھوٹے بیٹے ہو، میری زندگی کا تجربہ تم سے کہیں زیادہ ہے۔ مجھے دیکھو میں نے آج تک کسی کو اپنے نظریئے کی ہوا تک نہیں لگنے دی مگر ہر دور میں رائج الوقت نظریات کا گول مول طریقے سے ساتھ دیتا رہا ہوں چنانچہ ہر دور میں ادیبوں اور دانشوروں کے حلقے میں ایک نظریاتی دانشور کے طور پر ’’اِن‘‘ رہا ہوں کیونکہ یہ سرٹیفکیٹ دینے والے بھی میری ہی طرح کے گول مول دانشور ہوتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران تین چار سرپھرے شاعروں کے علاوہ کسی نے تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ 1857ءکی جنگ آزادی میں بھی شاعر ادیب اور دانشور، وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے خاموش رہے مگر آج ان کی غزلوں میں سے فرنگی راج کے خلاف کتنے ہی اشعار نکالے جا رہے ہیں۔ غالب کا یہ شعر تم نے ضرور سنا ہو گا .

؎ داغ فراقِ صحبت ِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

اس دور میں جب انگریز کے باغیوں کو درختوں کی شاخوں سے لٹکا کر پھانسیاں دی جا رہی تھیں اور بہادر شاہ ظفر، ان کے خاندان اور ان کے ساتھیوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی تھی، اس دور میں غزل کا یہ پیرایہ غالب کے کام آیا کیونکہ اس کا یہ شعر دراصل بہادر شاہ ظفر کے لئے تھا اور یوں انگریزوں کو پتہ نہ چل سکا کہ غالب کی ہمدردیاں ہندوستان کے آخری تاجدار کے ساتھ ہیں۔ غالب اپنا کام بھی دکھا گئے اور اپنے ساتھیوں کے انجام سے بھی بچ گئے۔ تو بیٹے کیا تم غالب سے بڑے آدمی ہو؟ اور ہاں کچھ محقق قسم کے لوگوں کا کہنا ہے کہ غالب کا یہ شعر 1826ء یا 1827ء کا ہے جب ’’غدر‘‘ کا نام و نشان بھی نہیں تھا، بہرحال اس طرح کے محقق بالآخر منہ کی کھاتے ہیں۔

1947ء کی تحریک آزادی میں بھی چند ناموں کے علاوہ باقی لوگ غیر جانبدار رہے کہ ادیب کبھی کسی کے ساتھ کھلم کھلا پارٹی نہیں بنتا۔ ادیب پیغمبر نہیں ہوتا، انسان ہوتا ہے، وہ اپنی تحریروں میں کوئی واضح پیغام نہیں دیتا کیونکہ ادیب ڈاکیہ بھی نہیں ہوتا۔ ادیب اِدھر بھی ہوتا ہے اُدھر بھی ہوتا ہے۔ باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے، اس قسم کی باتوں نے ادب کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ 1947ء میں پاک ٹی ہائوس کے باہر گولی چل رہی تھی، لاشیں گر رہی تھیں مگر مجھے یاد ہے میں ٹی ہائوس کے اندر حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس کی صدارت کر رہا تھا جہاں ایک غزل پر الف اور بے کے گرنے پر بات ہو رہی تھی، تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم لوگ انسانوں کے مرنے پہ دکھی نہیں تھے، یقیناً تھے مگر ادیب کا کام صرف ادب تخلیق کرنا ہے، اپنی داخل کی دنیا میں رہنا ہے، وقتی اور مقامی موضوعات کسی کو آفاقی ادیب نہیں بنا سکتے۔ اگر تم آفاقی شاعر بننا چاہتے ہو اور پیٹ بھر کر روٹی بھی کھانا چاہتے ہو تو میری باتیں پلے باندھو، جب تم آفاقی شاعر بن جائو گے تو تمہارے نقاد تمہارے شعروں میں سے قومی، مقامی، وقتی ہر طرح کی کمٹمنٹ خود نکال لیں گے۔

باتیں تو ابھی اور بھی بہت سی کرنا ہیں مگر تھک گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے مگر خود بھی اس سلسلے میں محتاط رہا کرو!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے