سمندر پار پاکستانی اور ووٹ کا حق

سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ دینے کا مسئلہ عموما الیکشن آنے سےچند ماہ قبل ہی سر اٹھاتا ہے ، کچھ عرصہ بحث ہوتی ہے اور اس کے بعد اگلے پانچ سال کے لئے ایسے خاموشی چھا جاتی ہے جیسے دن ڈھلنے پر شام کو قبرستان میں چپ کے گہرے سائے پھیل جاتے ہیں۔سیاسی پارٹیوں کے رہنما ہر الیکشن کے فوراً بعد سمندر پار پاکستانیوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اس بہتی گنگا میں چند وکلا نے بھی ہاتھ دھونے کی ٹھانی اور اپنے میزبانوں کی امیدوں کے صحرا میں سرابوں کی محفل سجائی۔ مجھے بھی امریکہ اور یورپ کے شہروں سے خطاب کے دعوت نامے آئے۔ لیکن سمندر پار پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے ہی خرچ پر جب ایک ایسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو پاکستانیوں کو اس معاملے پر بہت ہی جذباتی پایا۔ جب میں نے ان پاکستانیوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کو کہا جنہوں نے اپنے میزبان ملک کے انتخابات میں ووٹ دیا ہوتو ہزاروں کے مجمع میں چند افراد نے ہاتھ کھڑا کیا۔ مجھے اس روئیے سے بہت تکلیف پہنچی۔ خیرچونکہ آج کل اگلے الیکشن کی آمد آمد ہے، لہذا ایک بار پھر سے عدلیہ، نادرا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس معاملے پر کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔

نادرا کے چئیرمین کی حیثیت سے میں نے 2013 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں ای ووٹنگ کا مکمل نظام پیش کیا تھا جس کی انہوں نےمنظوری دی تھی لیکن اس کے بعد ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ ، سیاسی پارٹیاں اور الیکشن کمیشن کے پاس پورے پانچ سال تھے جن میں اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کئے جا سکتے تھے۔ لیکن ہمارا مجموعی سماجی رویہ یہی ہے کہ معاملات کو آخری حد تک ٹالتے رہو جب تک وہ پوری طرح سامنے آ کر آنکھوں میں گھورنا نہ شروع کر دیں۔ اس کے بعد ہماری کاہلی دور ہوتی ہے اور ہڑبڑا کر ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔

ہم نے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے لئے جو سسٹم بنایا تھا اس کے تین حصے تھے۔ سب سے پہلا جزو ووٹر کو رجسٹر کرنا تھا ، دوسرے پہلو کا تعلق ووٹ کاسٹ کرنے کے طریق کار سے تھا جبکہ تیسرا سوال یہ تھا کہ نتائج کو کس طرح مرتب کیا جائے اور ای ووٹنگ کے سسٹم کو کس طرح صاف شفاف بنایا جائے تاکہ اس کا آڈٹ بھی کیا جا سکے اور اس پر انگلی بھی نہ اٹھائی جا سکے۔

سب سے پہلے ہم نے قوانین کا تجزیہ کیا تاکہ ایسا نظام ترتیب دیا جائے جو انتخابی قوانین سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس ضمن میں اگر قوانین میں تبدیلی لانی پڑے تو اس کے لئے بنیادی سفارشات بھی پیش کی جانی تھیں۔

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ بیرون ملک پاکستانی کی تعریف کیا ہونی چاہئے۔ ہم نے اس کی تعریف یہ طے کی کہ ہر وہ پاکستانی جس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے اور وہ ایک قانونی طریق کار کے تحت ملک سے باہر رہتا ہے، اسے ووٹ کا حق ملنا چاہئے۔

اسی طرح جن لوگوں کے پاس دہری شہریت ہے ان کے بارے میں عدالت کا فیصلہ ہے اور آئین بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ ووٹ دے سکتے ہیں۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ان کے پاس تین چیزیں ہونی ضروری تھیں۔ایک تو (NICOP) National Identity Card for Overseas Pakistanis کی موجودگی جبکہ دوسرا Machine Readable Passport کا ہونا لازم ہے۔ تیسری اہم چیز یہ ہے کہ ان کا نام ووٹر لسٹ میں ہونا چاہئے ۔
ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ووٹر لسٹ کو انگوٹھے کے ساتھ منسلک کرنا تھا۔ اس حوالے سے ہم خوش قسمت تھے کہ جن پاکستانیوں کے پاس NICOP اور Machine Readable Passports تھے انہوں نے بائیو میٹرک ویریفی کیشن کی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ کہ ان کے فنگر پرنٹس نادرا کے پاس موجود تھے۔ تیسرے مسئلے کا حل یہ تھا کہ جب ہم نے حتمی انتخابی فہرستوں کو جب ان کے انگوٹھوں کے ساتھ منسلک کر لیا تو وہ بندہ جب بھی ووٹ ڈالنے سفارت خانے جاتا تو اس کے حلقے کا ووٹ کھل جاتا۔

ووٹ کاسٹ کرنے کا مرحلہ تین حصوں پر مشتمل تھا۔ وہ سمندر پار پاکستانی جو ووٹ دینا چاہتے تھے اور جو ووٹر کی تعریف پر پورا اترتے تھے، وہی اس پراسیس کا حصہ بن سکتے تھے۔ ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ خود کو پاکستانی سفارت خانے میں ،کونسل جنرل یا پھر ایسی جگہ جہاں پاکستانی سفارت خانے نے کمیونی سنٹر لے کر اس کو پولنگ سٹیشن کا درجہ دیا ہو، وہاں خود کو رجسٹر کراتے۔ ان کی رجسٹریشن سفارت خانوں کے ذریعے ہو تی۔ اس کے لئے ہم نے ایک آن لائن ایپلیکیشن بنائی جس کے ذریعے وہ اپنا ووٹ رجسٹر کر سکتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ بتا دیتے کہ ہم نے فلاں دن آ کر ووٹ ڈالنا ہے۔ یہ سسٹم فلپائن اور دیگر ممالک میں رائج ہے کہ وہاں الیکشن سے ایک ماہ قبل ہی ووٹنگ شروع ہو جاتی ہے اور لوگ اپنی سہولت کے مطابق جب انہیں وقت ملتا ہے وہ جا کر ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔

اس سسٹم کا دوسرا جزو ووٹ ڈالنے کا طریق کار تھا۔ووٹر لسٹیں اور نادرا کے عوامی ڈیٹا بیس کی حفاظت کے لئے Intranet Based Software تیار کی گیا۔ جب نادرا NICOP بناتا ہے تو اس میں پاکستان کا ایڈریس درج کیا جاتا ہے۔ ہر سمندر پار پاکستانی کا انتخابی حلقہ اس کے درج کئے گئے پاکستان کے ایڈریس کے مطابق ہوتا ۔ چنانچہ جب کوئی ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے انگوٹھا لگاتا تو وہی ووٹ لسٹ کھلتی جو ان کے پاکستانی ایڈریس سے منسلک ہوتی۔

اس سسٹم کو تمام سفار ت خانوں، کونسل جنرلز اور پاکستانی کمیونٹی سنٹرز کے ساتھ منسلک کرنا تھا۔ یہ صرف پاکستانی مشنز پر ہی موجود ہو نا تھا۔ووٹ ڈالنے کے لئےسمندر پار پاکستانی ان بیرون ملک موجود پولنگ سٹیشن پر اپنا NICOP اور مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ لے کر جاتے۔ سفارت خانے کا عملہ انتخابی قوانین کے تحت پریذائڈنگ آفیسر کے فرائض سرانجام دیتا اور ان شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جاتی۔ اس کے بعد ووٹر کے انگوٹھے کی تصدیق کا مرحلہ طے ہوتا ۔ انگوٹھا لگاتے ہی ووٹر کے آبائی حلقے کی ووٹر لسٹ کھل جاتی۔ ٹچ سکرین پر امیدواروں کے نام آ جاتے اور ووٹر جسے چاہتا اسے منتخب کر کے ووٹ دے دیتا۔

قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی، دونوں کے لئے الگ الگ ووٹ ڈالنا ہوتا۔ جونہی ووٹ کاسٹ ہوتا اسی وقت الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بیس میں یہ ووٹ درج ہو جاتا۔ اس عمل کے مکمل ہوتے ہی مشین سے ایک پرچی نکلتی جس پر ایک QR کوڈ درج ہوتا ۔ اس پر آپ کے امیدوار کا نام، وقت، تاریخ اور پولنگ سٹیشن کا نام لکھا ہو تا۔ووٹر یہ پرچی تہہ کر کے بیلٹ باکس میں ڈالتا تاکہ اگر بعد میں کوئی مسئلہ ہوتا تو ڈیٹا بیس میں جو ووٹ کاسٹ ہوا تھااس کے ساتھ موازنہ کر کے حقیقت معلوم کی جا سکتی۔

انتخابات کی شفافیت قائم رکھنے کے لئے نتائج کا اجرا اہم جزو تھا۔ جب پولنگ ختم ہوتی تو یہ سسٹم اجتماعی نتائج تفصیل کے ساتھ پیش کرتا۔ اس میں یہ درج ہوتا کہ کتنے لوگ آئے اور ان میں سے کتنے لوگوں نے کس پولنگ سٹیشن سے ووٹ دیا۔

ہمارے اس پیش کردہ نظام کو پوری طرح عمل کرنے کے لئے قوانین میں چند ترامیم کی ضرورت تھی۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے بھی کچھ کام کرنا تھا۔ نادرا نے یہ سافٹ وئیر بنایا تھا اور میں خود لندن اورٹورنٹو سمندر پار پاکستانیوں کے پاس گیا اور انہیں یہ سسٹم دکھایا تھا۔ وہیں ہم نے اس کے لئے کامیاب تجربہ بھی کیا تھا۔
اس سارے سسٹم میں نادرا کا کردار یہ تھا کہ وہ جدید بائیو میٹرک نظام کے ذریعے ووٹر کی شناخت کرتے۔ وزارت خارجہ نے انتخابی حلقے بنانے کے لئے اپنی حکومت اور بیرون ملک حکومتوں سے اجازت لینی تھی۔
جب میں نے 2013 میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں یہ سسٹم پیش کیا تو انہوں نے کمرہ عدالت میں ہماری بڑی تعریف کی اور قابلیت کے گن گائے۔شومئی قسمت کہ ابھی ہم اس داد قابلیت کے نشے میں چور ہی تھے کہ اگلی حکومت کے دبنگ وزیر داخلہ نے نو منتخب وزیر اعظم کو ہماری نااہلیت اور ناقابلیت کی سمری ارسال کر دی۔ الیکشن میں دھاندلی کی تحقیق کے سلسلے میں عدالتوں کی مدد کرنے کی سنگین غلطی جو کر بیٹھا تھا۔ ریاست کا نوکر تھا، غلاموں کے غلام حکمرانوں کی چاکری منظور نہ تھی، سو حکم عدولی کی پاداش میں دربار سے نکال دیا گیا۔وہ تو عدالت کا بھلا ہو کہ انہوں نے واپس نوکری پر بھیج کر حکومت کے منہ پر طمانچہ مار دیا۔ خیر یہ کہانی پھر سہی!

2013 کے الیکشن کے بعد حکومت، سیاسی پارٹیاں، نادرا اور الیکشن کمیشن سمندر پار ووٹنگ کے مسئلے پر لمبی تان کے سو گئے۔ دبنگ وزیر داخلہ جن کی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھ سکتی تھی، اسی ناک کے نیچے نادرا بھی اس مسئلے پر لمبی تان کر سوتی رہی۔ اسی دوران سیاسی رہنما اور سیاسی وکیل سادہ لوح سمندر پار پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی پر خوبصورت ملکوں کے سفر، تقریبات ، اور شاپنگ سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ساتھ ہی وعدہ کرتے رہے کہ انہیں یہ حق 2018 کے الیکشن میں ضرور ملے گا۔ دبنگ وزیر داخلہ ناراض بہو کی مانند اپنی پارٹی اور میڈیا سے جب شکایت کرتےکہ ان کی وزارت کی شاندار کارکردگی کو سراہا نہیں جاتاتو میری آنکھیں بھی غم سے بھیگ جاتیں۔

اگلے الیکشن سے چند ماہ دوری پر سیاسی پارٹیوں کو سمندر پار پاکستانیوں کے چندے کی اہمیت کا ایسے خیال آتا ہے جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آ جائے۔ لہذا ان کے حقوق کی "باد نسیم” پھر سے چلنے لگی۔ سپریم کورٹ نے نوٹس لیااور جسٹس ثاقب نثار نے ہمارے والا چبھتا ہوا سوال کر دیا کہ پانچ سال سے کیوں سو رہے تھے۔ نادرا، الیکشن کمیشن، حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو حکم حاضری ہوا۔ نادرا کو پھر سے تاکید ہوئی کہ سافٹ وئیر تیار کریں۔

نادرا نے پرانی شراب نئی بوتل میں ڈالی اور نیا لیبل لگا کر عدالت میں پیش کر دیا۔ "نثاران وطن” خوب جانتے ہیں کہ پرانی شراب کا نشہ نہایت سخت ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم اس نشے میں بھول ہی گئے کہ یہی حل پانچ سال پہلے بھی دیا گیا تھا۔ 2013 اور 2018 کے حل میں فرق یہ ہےکہ 2018 والا حل نادرا کے ڈیٹا بیس کے لئے سیکورٹی رسک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ Internet-based Solution ہے جبکہ ہمارا Intranet-based Solution تھا۔ یہ ایک محفوظ نظام تھا اور انتخابی قوانین کے عین مطابق تھا۔ 2018 کے انٹر نیٹ سالیوشن سے آپ گھر بیٹھے ووٹ تو دے سکتے ہیں لیکن آپ کو اپنی زوجہ، خاوند یا چچا ماموں کو پریذائنڈنگ آفیسر بنانا پڑے گا۔ اگر الیکشن کمیشن اس پر راضی ہو گیا تو الیکشن تو "چاچے مامے” کا کھیل بن جائے گا۔ ہمیں سوشل میڈیا کے ووٹنگ سسٹم اور ریاست کے ووٹنگ سسٹم میں کچھ تو تفریق کرنی چاہئے۔خدارا سمندر پار پاکستانیوں کے حق خود ارادیت کو ریاستی مذاق نہ بنائیے۔

نوید ملی ہے کہ اب بھی حل نکل آئے گا لیکن شاید پچھلے الیکشن کی طرح اس بار بھی دیر بہت ہو گئی۔ لگتا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو 2023 کے انتخابات میں "نہر والے پل ” پہ بلایا جائے گا۔میرا مشورہ سمندر پار پاکستانیوں کو یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنی خون پسینے کی کمائی کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے چندے، سیاسی رہنماؤں کی آؤبھگت اور سیاسی وکیلوں کی شاہ خرچیوں کی نذر کریں، وہ جس ملک کے باسی ہیں اس ملک کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں۔
ملتے ہیں اس مسئلے پر ایک بریک کے بعد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے