بہت یاد آتی ہے۔۔

کتنا عجیب سا لگتا ہے اگر اپنے ماضی میں جھانکیں تو۔۔ دوستیاں، رشتے داریاں، محلہ داریاں۔۔ سب ایک ہی جیسا لگتا تھا۔ کوئی ملاوٹ نہیں ہوتی تھی نہ رشتوں میں نہ اشیاء میں۔۔لوگ ملتے تو گرم جوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی۔ آج کل کا دور تو مشینی دور لگتا ہے تعلقات بھی مشینی ہی دکھائی دیتے ہیں۔

بچپن میں جب ہم اپنے آبائی علاقہ کیمبلپور(اٹک) جایا کرتے تو گھر سے بائیں ہاتھ نکل کر دوڑتے پانچ سے سات منٹ بعد کھیت شروع ہو جاتے، چند تانگے ، سائیکل اور بہت تھوڑی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔شام ڈھلتے ہی سونے کی تیاری شروع ہو جایا کرتی۔

آٹھ بجے کے بعد اتنا سناٹا ہوتا کہ گھر سے کافی دور واقع ریلوے سٹیشن پر ٹرین کی آمد بھی ایک شور لگتی، بستر پر لیٹنے کے بعد صاف ستھری سڑک پر اکا دکا تانگوں کی ٹک ٹک بھی سریلی لگا کرتی۔ مینا بازار بہت بڑا بازار محسوس ہوتا۔ گھروں سے زیادہ کھیت اور دکانیں تو بہت کم ہوا کرتیں۔

آج اسی اٹک شہر میں اتنی دوکانیں ہیں کہ اسے بازار کا نام دیا جا سکتا ہے۔ گھروں کو گرا کر پلازے تعمیر ہو گئے ہیں اور کھیتوں کی جگہ پکے مکانوں نے لے لی ہے۔ مینا بازارمیں گھسنے کا اتفاق ہو تو راولپنڈی کا موتی بازار بھی اس کے آگے پانی بھرتا دکھائی دے۔ اتنا رش کہ اللہ کی پناہ۔

فوارہ چوک سمیت تمام گول چکر کے گرد ہر وقت گھومتی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، چنگ چی رکشے۔۔۔ بندہ ہی چکرا جائے۔وہ سارے بزرگ بھی نہیں رہے جن کے دم سے ہماری رونقیں ہوا کرتیں، جو ہمارے جانے پر وہاں ایسے ہوتے جیسے اپنی پلکوں پر بٹھا کر رکھتے ، تایا، چاچا اور میرے ابو جی کی لاڈلی بہن سب ہی تو بچھڑ گئے۔

خیر وہ تھا کیمبل پور، یہاں راولپنڈی کی بات کریں تو یہاں بھی بچے گلی میں کھیلتے تھے، پیدل سکول بھی آتے جاتے تھے کبھی ماں باپ کو ڈر لگا اور نہ ہی بچے کو۔ لیکن آج میرا بچہ اپنے گھر کے سامنے بھی اس وقت کھیلتا ہے جب گھر کا کوئی بڑا سامنے ہو۔ پیدل سکول تک جانا تو دور گھر کے سامنے بھی سڑک پار کرنا ہو تو مدد درکار ہوتی ہے۔

لیزنگ نے پورے ملک کا عموماً اور راولپنڈی اسلام آباد کا باالخصوص بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ سڑکوں پر ہر وقت اس طرح رش ہوتا ہے جیسے سینٹرل لندن میں آ گئے ہوں۔وہاں رش ہونے کے باوجود وہ مسائل نہیں جن کا ہمیں یہاں سامنا ہے۔

وہاں ٹریفک کا نظام اس لیے اچھا ہے کہ انہوں نے ڈرائیورز پر جرمانے رقوم بٹورنے کے لیے نہیں بلکہ نظام کو بہتر بنانے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ یہاں ٹریفک پولیس والے سے ہی اگر آپ ٹریفک قوانین پوچھ لیں تو اسے بھی شاید یاد نہ ہوں ، ان کے لیے موبائل فون پہ بات کرنا یا سیٹ بیلٹ نہ باندھنا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔

وہاں لائسنس بنوانے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں مگر یہاں پاپڑ کھلا کر لائسنس مل جاتا ہے، کوئی لائسنس لینے خود جائے یا نہ جائے لائسنس گھر پہ بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ یہاں ڈرائیور صرف اس وقت سیٹ بیلٹ کندھے پر رکھتا ہے جب سامنے ٹریفک پولیس والا نظر آ جائے، نظروں سے اوجھل ہوتے ہی بیلٹ پھر اپنی جگہ پر واپس، ورنہ استری ہوئے کپڑوں کی کریز خراب ہو جاتی ہے۔

پہلے یہاں کوئی جوان سگریٹ پیتا دکھائی دیتا تو ماں باپ سے پہلے کوئی بزرگ محلہ دار ہی دو تین تھپڑ رسید کر دیتا تھا آج تو جوان بچے کو ماں باپ بھی ہاتھ لگاتے سوچتے ہیں۔ پہلے سکول جاتے بچوں کے والدین کو کبھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ فیس لیٹ ہونے کی صورت میں بچوں کو سزا دی جائے گی، آج تو بچوں کو ایک نوٹس کے بعد گھر بھی بھیجا جا سکتا ہے اور پلے ایریا میں سارا دن کھڑے رہنے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔

پہلے ہر سکول کے اندر بچوں کے کھیل کا میدان ہونا ضروری تھا۔ ہمارے سکول میں بہت بڑا گراؤنڈ تھا باسکٹ بال کورٹ تھا۔ ٹیم بھی تھی باسکٹ بال کی۔۔ اب بچوں کے کھیلنے کے لیے سکول کے ایک کمرے کو کمپیوٹر روم قرار دے دیا گیا ہے اور وہ بس کمپیوٹر گیمز کو ہی اصل کھیل سمجھتے ہیں کیونکہ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں گراؤنڈز تو ہوتے نہیں۔

خیر یہ کمپیوٹرز کی سہولت بھی صرف بڑی بڑی فیسوں والے سکولوں میں ہی موجود ہے تھوڑی فیس والے پورے پیریڈ پڑھانے کو ہی بہت سمجھتے ہیں۔ پہلے سٹیشنری کے لیے سکول والے لمبے چوڑے چالان نہیں بھیجا کرتے تھے آج ان تعلیم فروشوں نے فیسوں کے علاوہ یونیفارم اور کتاب کاپی میں سے بھی کمیشن کمانا شروع کر دیا ہے۔

پہلے کبھی کوئی بیمار ہوتا تھا قریب موجود سرکاری ہسپتال ہی ہوا کرتے تھے، آج کل صحت فروش بھی تیزی سے ترقی پا رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتال جو تیس سال پہلے کی ضروریات کے مطابق بنائے گئے تھے ان میں اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے،اسی لیے سرکاری ہسپتال بھی سبزی منڈی کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے دور میں محلہ میں کرکٹ ، فٹ بال کھیلنا، گیلی مٹی میں سریا گھونپنا، تیز آندھی میں دھاگے کے ساتھ شاپر اڑانا، بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتیاں چلانا، کاغذ سے دن رات کا کھیل، یسو پنجو ، بادشاہ وزیر، چور سپاہہی، ٹیلو ایکسپریس، چھپن چھپائی۔۔۔ یہ سب کھیل اب قصہ پارینہ بن چکے۔ ان سب کی جگہ اب پلے سٹیشن، ایکس باکس اور پھر ٹیبلیٹس نے لے لی، اب تو اینڈرائیڈ گیمز ہی سب سے بڑی گیمز ہیں۔

اپنے بچپن میں کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کھوتے کا گوشت بھی کوئی فروخت کر سکتا ہے۔ آج دھڑا دھڑ کھوتے کاٹے اور پکائے جاتے ہیں۔ بچپن میں برائلر چکن بھی خوبصورت ہوا کرتا تھا آج اسے دیکھ کر ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اناڑی بہت ہی چالاک باکسر کے ہاتھ چڑھ جائے ۔ ایک ہفتہ کے چوزے کو ایسی خوراک دی جاتی ہے کہ وہ غریب اچانک چالیس سال کا بزرگ محسوس ہونے لگتا ہے۔

میرے بچپن میں کوئی کسی کو برا بھلا کہتا تو اسے بزرگ ٹوک دیا کرتے تھے۔آج کل الزام تراشی کا دور ہے، بغیر تحقیق کے ہر کوئی دوسرے کو چور ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ آج واقعی دل کرتا ہے اسی دور میں واپس لوٹ جائیں جہاں سب خلوص کے ساتھ بے لوث ہو کر ملا کرتے تھے۔ کاش میرا بچپن لوٹ آئے، پھر اسی فکروں سے آزاد دور میں کھیلنا شروع کر دوں۔

رشتوں میں، دوستوں میں، محلہ داروں میں وہی خلوص ملے، میں اپنے بچوں کو بھی اس خلوص سے واقف کرانا چاہتا ہوں لیکن کیا کریں۔۔ زمانہ ترقی کر رہا ہے۔۔ اس ترقی کے بوجھ تلے ہم دبتے جا رہے ہیں، ترقی کی اس بھٹی میں ہم جل رہے ہیں اور اپنے بچپن کو دھواں دھواں دیکھ رہے ہیں ، اس بچپن کی بہت یاد آتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے