احسن اقبال  اور  ہم "کمی کمین” ہیں 

 

جب جنونیت اور سفاکیت کو خاموش تائید ،حمایت یا مدد حاصل ہو جائے تو پھر بستیاں وحشت کی نذر ہو کر ایک  تپتے ہوئے دوزخ کی مانند خود اپنے مکینوں کو جلا کر بھسم کر دیا کرتی ہیں۔ ہماری بستی کا حال بھی کچھ یونہی ہے ،یہاں ڈر اور خوف کی فضا کو قائم رکھنے کیلئے سانپ پالے جاتے ہیں تا کہ مکین ایک مقرر کردہ حد سے تجاوز نہ کر پائیں اور خوف کی فضا میں سانسیں لینے کو غنیمت سمجھتے ہوئے چپ چاپ وحشت و بربریت کا رقص دیکھتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے سے زیادہ حیرت ان کے زندہ بچ جانے پر ہوئ ہے۔ توہین مذہب کے ہتھیار کو استعمال کر کے فیض آباد دھرنے سے لیکر آج کے دن تک جس طریقے سے مسلم لیگ نواز کو ایک مذہب دشمن جماعت کے طور پر پیش کئیے جانے کی مذموم کوشش کی گئ ہے  اس کے بعد احسن اقبال تو کیا نواز شریف پر بھی قاتلانہ حملہ ہو جائے تو حیرت بالکل نہیں ہونی چائیے۔

جس ملک میں ستر ہزار سے زائد افراد محض مذہبی جنونیت اور  فرقہ وارانہ جنونیت کی بھینٹ چڑھ  چکے ہوں اور وہاں کی مقتدر قوتیں پھر بھی مذہبی جذبات کو بھڑکا کر  مخالفین کے خلاف توہین مذہب کا کارڈ کھیلنے سے باز نہ آئیں وہاں توہین مذہب کے نام پر مزید خون خرابے اور دنگے فساد کے علاوہ اور کیا  توقع کی جا سکتی ہے؟ جس سماج میں بسنے والی زیادہ تر اکثریت، تشدد  اور  مذہبی جنون کو عین عبادت سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دینے کے درپے ہو وہاں بھلا امن و مجبت کے پھول اگنے کے خواب دیکھنا دیوانگی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟۔ جس بستی کے رہنے والے آفاقی معاملات کو ہاتھ میں لے کر خود خدا بن کر دوسروں کے عقائد کے صیح اور غلط ہونے پر فتوے صادر کرنے کو زندگی کا اہم ترین مقصد گردانتے ہوں وہاں مولوی خادم حسین رضوی جیسے شدت پسندوں کے جنم لینے اور اس  کے ان گنت اندھے پیروکاروں کی تعداد پر حیرت کیسی؟ ۔ ایک ایسی آبادی جس کو گھٹی میں یہ سبق دیا جائے کہ ساری زندگی صرف مذہب اور عقیدے سے وابستگی  کی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو پرکھنا ہے اور اسی بنیاد پر ان  کی عزت و تکریم کرنا ہے  اس آبادی کو توہین  مذہب کے نام پر اشتعال دلوا کر  تو مذموم سے مذموم فعل بھی  باآسانی کروایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ ستر برسوں سے اس وطن میں یہی ہوتا آیا ہے۔ مار دو مر جاو ، کے نعرے ایجاد کر کے یہاں  بسنے والے  انسانوں کو نفرت کی ایک ایسی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے جہاں صرف  مرنا مارنا مقصد حیات اور زندگی کے اجالوں سے نفرت کرنا فرض و عبادت ہے۔ جب فیض آباد دھرنے کے ذریعے مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا تھا اور مسلم لیگ نواز کو توہین مذہب کا ارتکاب قرار دیکر اس کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا گیا تھا تو ہمارے جیسے نابغے اس وقت کہتے رہے تھے کہ اس آگ سے مت کھیلئے یہ صرف ایک جماعت کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کر دے گی۔ لیکن نجانے مذہبی جنیونیوں کو جنم دینے والی قوتیں اس قدر کم ظرف اور اندھی کیوں ہیں کہ اپنے مقصد کو  کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کے علاوہ انہیں اور کچھ دکھائ ہی نہیں دیتا ہے۔ خادم رضوی کے ذریعے نفرتوں کا جو زہر سماج میں پھیلایا گیا ہے اس کا نشانہ صرف مسلم لیگ نواز نہیں ہے بلکہ اس کی زد میں ہر وہ شخص آ چکا ہے جو عقیدے کے معاملے کو آفاقی معاملہ قرار دیتا ہے ّّّاور ایک دوسرے کو مذہب مسلک یا فرقے سے تعلق کی ببنیاد پر  مارنے والوں یا نفرت کرنے والوں کو سخت ناپسند کرتا ہے۔  جن قوتوں نے خادم حسن رضوی کی پشت پناہی کرتے ہوئے توہین مذہب کا یہ کارڈ کھیلا ہے شاید وہ وقتی طور پر مسلم لیگ نواز کو انتخابی میدان میں نقصان پہنچانے میں کامیاب   ہو گئ ہیں ۔ کیونکہ احسن اقبال پر حملے کے بعد مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کے خواہشمند  زیادہ تر سیاستدان جماعت کے ٹکٹ کے بجائے آزادانہ انتخابات لڑنے کو ترجیح دیں گے کہ آخر جان تو سب کو ہیاری ہوتی ہے۔لیکن  پہلے سے کمزور ہوتے سماجی ڈھانچے  میں مذہبی  شدت پسندی کا یہ زہر گھول کر اس کی بنیادوں کو مزید کمزور کرتے ہوئے اس مقصد میں کامیابی ایک ایسی بھاری قیمت ہے جس کا سود نہ جانے اور کتنی دہائیوں تک اس سماج میں  آئندہ جنم  لینے والی نسلیں ادا کرتی رہیں گی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ مولوی خادم حسین رضوی کی بذات خود کوئ حیثیت اور اوقات نہیں ہے اور نہ وہ  کسی طاقتور گروہ یا قوت کی پشت پناہی کے بغیر نیشنل ایکشن پلان کی موجودگی میں خود سے موجودہ حکومت اور جماعت کے خلاف ایک ملک گیر مہم کا آغاز کرنے کی سکت رکھتا تھا۔ جس طریقے سے  مخصوص میڈیا  گروپوں نے انتخابی اصلاحات کے بل میں ترمیم کو  نون لیگ کی جانب سے دانستہ طور پر ختم نبوت کےقانون  کے ساتھ چھیڑ خانی کے طور پر  پیش کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ شیخ رشید جیسے اجرتی سیاستدان بھی  اس مسئلے کو بار بار اٹھاتے رہے  تا کہ عوام میں  مذہبی اشتعال پھیلایا جا سکے۔ رہی سہی کمی فیض آباد دھرنے والوں کو ہزار روپیہ فی کس پیش کر کے پوری کر دی گئ۔ یہ تمام حقائق جانتے بوجھتے بھی ہم وہ "کمی کمین” ہیں جو مولوی خادم حسین رضوی جیسے  شدت پسند غنڈوں کو پیدا کرنے والے "چوہدری” سے نہ تو کوئ سوال پوچھ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے اس قبیح فعل کو روکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ہم تو کھل کر فریاد بھی نہیں کر سکتے کہ خدا کیلئے ہمارے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا کم سے کم  ہمارے بچوں کو تو اس حبس زدہ فضا ، نفرتوں کے تعفن میں آلودہ ماحول اور شدت پسندی کی بھٹی میں مت جھونکو۔  کل کلاں کو کوئ بھی مولوی خادم حسین رضوی یا اس کا  کوئ جنونی پیروکار آئے گا اور ہمیں یا ہمارے بچوں کو بارود کے ڈھیر سے اڑا کر اپنی خود ساختہ دین کی تشریح کے مطابق اپنے دین کو  ہمارا لہو بہا کر محفوظ کر لے گا تو ہم کس کے ہاتھ پر اپنا اور اپنے بچوں کا لہو تلاش کریں گے۔

ہم تو ابھی ستر ہزار ہموطنوں کی لاشوں پر ٹھیک سے رو بھی نہیں پائے تھے کہ ہمارے اوہر ایک اور  مذہبی جنونی مائنڈ سیٹ کو مسلط کر دیا گیا۔ ابھی تو طالبانی مائنڈ سیٹ کو کچلنے کیلئے ہم نے کوئ ٹھوس اور  خاص حکمت عملی نہیں دریافت کی تھی کہ اسی دوران  یہ عقائد کو پرکھنے والی  دہشت گردی کی  ایک تازہ قسم  دریافت کر لی گئ۔ معاشرے میں پہلے ہی کڑوڑوں افراد طالبانی مائنڈ سیٹ لئیے پتھر کے دور کی تہزیب میں واپس جانے کے خواہاں تھے اوپر سے یہ عقیدوں کو پرکھنے اور ان کے بارے میں خود سے فیصلہ صادر کرنے کا مائنڈ سیٹ تیار کر لیا گیا۔ ہم کمی کمین لوگ بس اتنی ہی دہائ دے سکتے ہیں کہ مخالفین کے  عقاِئد کو نشانہ بناتے  بناتے  کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر بستی میں صرف  ایسے عقیدت مند ہی باقی رہ جائیں جو  اندھی عقیدت کے علاوہ کسی بھی تعمیری یا تخلیقی صلاحیت سے محروم ہوں اور  "چوہدری” کی زمین کو  زرخیز و بنجر رکھنے یا اسے وسائل کی دولت سے مالا مال کرنے کی قابلیت و استطاعت سے محروم ہوں۔ احسن اقبال ایک  فارن کوالیفائڈ ،قابل اور ذہین شخص  ہے بیرون ملک ہوتا تو شاید اس سے بہت زیادہ نام اور پیسہ کماتا جو اس نے پاکستان میں بنایا۔ مٹی کی محبت اسے کھینچ کر وطن واپس لائ تھی اور وہ کملا اپنی حیثیت کو بھول کر "کمی کمینوں کے مالکانہ حقوق” کا مطالبہ کرنے لگ گیا تھا۔ اسے سبق سکھانا بے حد ضروری تھا بلکہ ہونا تو کچھ یوں چائیے کہ اس جیسے سارے کمی کمین جو وطن عزیز میں بس کر ایک آئیڈیل معاشرے اور نظام کا خواب دیکھتے ہیں اور جو عقل کو استعمال کرتے ہوئے کرٹکل تھنکنگ (تنقیدی سوچ) کو اپنانے کی جرات کرتے ہیں ان سب کو توہین مذہب یا کوئ بھی اور الزام لگا کر اسی طرح گولیاں مار دی جانی چائیں اور وطن عزیز میں خادم حسین رضوی جیسے شدت پسند اور اس کے اندھے جنونی پیروکاروں کو وحشت و بربریت کا رقص بپا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دینی چائیے تا کہ تمام "کمی کمین” اپنی اوقات میں واپس آتے ہوئے جبری  اطاعت  کی زندگی بسر کرنے کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیشہ کیلئے  "چوہدری صاحب” کے ممنون و مشکور رہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے