وزارت اور عزت

ہم انتہائی دلچسپ دور میں جی رہے ہیں۔ ملک میں انتہائی سنجیدہ قسم کی کامیڈی جاری ہے مثلاً ایک طرف ہوائی مخلوق کو خلائی مخلوق دکھائی دے رہی ہے حالانکہ ساتھ ہی اصغرخان کیس کی رہائی اور دہائی کے بھی چرچےہیں۔ ایک صاحب ججوں، جرنیلوں کی طرح سیاستدانوں کے لئے بھی ’’عزت‘‘ مانگ رہے ہیں اوردھمکا بھی رہے ہیں کہ جہاں سیاستدانوں کی عزت نہ ہو وہاں ترقی نہیں ہوسکتی۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ عزت مانگی نہیں کمائی جاتی ہے۔ صرف دولت ہی اک ایسی شے ہے جوحرام کی بھی ہوسکتی ہے۔

عزت صرف حلال سے حاصل ہوتی ہے اور اگر مل جائے تو اس کی حفاظت کے لئے اس کے چاروںطرف دیانت اور محنت کی فصیل تعمیر کرنی پڑتی ہے۔ کمال یہ کہ ان صاحب نے سوائے عوام کےسب کی عزت کا حوالہ دیا ہے جبکہ خالق تو عزت دیتا ہی صرف ان کو ہے جو اس کی مخلوق یعنی عوام کی عزت کے لئے کام کرتے اور جیتے مرتے ہیں۔ پوری ریکارڈڈ تاریخ انسانی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ کسی نے عوام کے لئے سچ مچ کچھ کیا ہو اور قدرت نے اسے عزت سے نہ نوازا ہو۔

کچھ کی توجانیں تک چلی گئیں، عزت ان سے کوئی نہ چھین سکا۔ ان صاحب کا اپنا حال اور کمال یہ کہ 22کروڑ کےملک کی وزارت ِعظمیٰ کاحلف تو اٹھا لیا لیکن وزیراعظم ہونے سے انکاری ہیں۔ اس حیرت انگیز تاریخی تضاد پر ان کی جتنی بھی عزت کی جائے وہ کم ہے البتہ ان کی یہ بات درست ہے کہ جہاں سیاست دان کی عزت نہ ہو وہاں ترقی نہیں ہوتی لیکن یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ سیاستدان ہیں کہاں جو ان کی عزت کی جائے؟ سیاستدانوں کاروپ بہروپ دھار لینے سے کوئی سیاستدان تو نہیں ہو جاتا جیسے اتائی لاکھ ڈاکٹر دکھائی دے، رہے گااتائی ہی۔ ممکن ہے ’’مغل اعظم‘‘ میں دلیپ کمار نے اصل شہزادہ سلیم سے بھی بہتر پرفارم کیا ہو لیکن ہیں وہ یوسف خان المعروف دلیپ کمار ہی…..

اسی طرح ممکن ہے ہمارے کچھ لوگ اصلی سیاستدانوں سے بڑھ کر سیاستدان دکھائی دیتے ہوں لیکن اندر سے سب جانتے ہیں یہ بہروپیا ہے۔ ٹیپو سلطان کے ’’گیٹ اپ‘‘ سےکوئی ٹیپو سلطان نہیں ہوجاتا۔ اس کے لئے شیر کی طرح میدان میں لڑنا اور شہید ہونا ضروری ہے۔ ٹیپو سلطان جیسی عزت کمانے کے لئے ’’شیر‘‘ کا انتخابی نشان کافی نہیں، شیرکے خصائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ کیا قدم قدم پر بکنے اور بوقت ضرورت چشم زدن میں وفاداریاں تبدیل کرلینے والے کسی رشوت، کمیشن اور کک بیک آدم خور کو اس لئے سیاستدان مان لیاجائے کہ وہ خود کو سیاستدان کہلاتاہے؟ یہ بات میرے سیاسی ایمان کا حصہ ہے کہ جب سچ مچ کے سیاستدان ہوںگے تو ان کی عزت بھی ضرور ہوگی اور کسی کو ان کے لئے عزت کی بھیک، خیرات نہیں مانگنی پڑے گی۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کوئی ایساشخص جس کی دولت اس کی جانی پہچانی آمدنی سے دور دور تک میچ نہ کرسکتی ہو وہ ’’عزت‘‘ کا امیدوار یا طلب گار کیسے ہوسکتاہے؟ ایک آدمی سرعام یہ کہے کہ بیرون ملک کیا میرے پاس تو پاکستان میں کچھ نہیں اور پھر اگلے بیان میں یہ بھی مان لے کہ پاکستان کے اندر اس کی دولت کا تخمینہ95کروڑ کے قریب ہے ، توکوئی مجھے بتائے میں کدھر جائوںاور دنیا کےکس شاپنگ مال سے اس کے لئے عزت خرید لائوں؟عوام ان پڑھ ہیں، کمزور ہیں، مجبور اور لاچارہیں لیکن اندھے، بہرے ا ورگونگے نہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ ووٹ نام کی معمولی سی پرنٹڈ پرچی ان سے کیسے ہتھیائی جاتی ہے۔ کبھی خوفزدہ کرکے، کبھی قیمے والے نانوں سے خوش کرکے، کبھی تھانے کچہری میں خوارکرکے، کبھی کوئی معمولی سی نوکری دےکے، کبھی جھوٹے وعدے کرکے، کبھی ذات برادری کا نام لے کر انہیں بازار ِ جمہوریت میں نیلام کر دیاجاتا ہے اور یہ سادہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ قیمے والے نانوں میں قیمہ ان کا اپنا ہوتا ہے اور بریانی کی پلیٹ میں پڑی بوٹیاں بھی انہی کے جسموں سے کاٹی گئی ہوتی ہیں جیسے کچھ فنکار اپنے شکار کوبے ہوش کرکے اس کا گردہ نکال لیتے ہیں۔

عوام کو بھی جمہوریت سنگھا کر بے ہوش کرنے کے بعد ان کی زندگیوں سے چند سال نکال لئے جاتے ہیں۔ عوام مزید بدحال اور ان کے سیاستدان مزید خوشحال ہو جاتے ہیں تو اس قتل و غارت گری کو سیاست کہنا اور اس پریکٹس کو بار بار دہرانے والوں کو سیاستدان قرار دیتے ہوئے ان کے لئے عزت کی بھیک مانگنے والوں کو منصب تو مل سکتے ہیں، وزارتیں تو مل سکتی ہیں….. عزتیں کبھی نصیب نہ ہوں گی۔عوام کےلئے کچھ کرو گے تو عزت ہی نہیںمحبت، اور محبت ہی نہیں عقیدت بھی ملے گی جو خدا کے خزانوں کا اتم ترین تحفہ ہے جو خالق صرف انہیں عطافرماتا ہے جو اس کی مخلوق کے لئے کچھ سوچتےاورکرتے ہیں…..باقی سب سراب، فریب اور دھوکہ ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے