میری بھوک ہڑتال،آرمی چیف سے ملاقات اورسازشی ٹولہ

آج گزشتہ 9 دنوں کے بعد سے بہتر محسوس کر رہی ہوں تو سوچا کہ آپ کو بتاوں کہ میری بھوک ہڑتال کا مقصد کیا تھا اور اس کے کیا نتائج نکلے.

28 اپریل کو معمول کے مطابق میں اپنا کام کررہی تھی کہ میری اماں نے فیس بک پر کوئی وڈیو چلائی جس میں ایک بچہ زار و قطار رو رہا تھا. میں نے اماں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ اماں نے بتایا کہ ابھی جمال الدین افغانی روڑ پر دو ہزارہ دکان داروں کو قتل کیا گیا ہے ، یہ بچہ شاید ان کا وارث ہے جو درد کی شدت سے رو رہا ہے۔ یہ سنتے ہی میں پلٹ کر نکلی اور کہا کہ میں پریس کلب جارہی ہوں بھوک ہڑتال کرنے۔ دن کے 12 بج چکے تھے۔ میری بڑی بہن میرے پیچھے دوڑ کر آئی کہنے لگی ”پاگل ہوگئی ہو ، یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا” مگر میں بھی تو کسی کی نہیں سنتی تھی ، تقریبآ 1 بجے خواتین اکھٹی ہوئیں اور ہم روانہ ہوگئے۔

میزان چوک پر مظاہرہ شروع تھا، راستے بند تھے . اس لیے ہم بڑی مشکل سے پریس کلب پہنچے . میں نے وہاں سے فیس بک ہر اسٹیٹس دیا کہ میں‌ بھوک ہڑتال کر رہی ہوں ، لوگ ہمیں سپورٹ کریں، پھر بلوچستان سول سوسائٹی کے ساتھی ہمارے ساتھ شامل ہوئے ، محترمہ حمیدہ ہزارہ ، ثناء درانی، شمائلہ اسماعیل نے بھی ہمیں اپنےساتھیوں سمیت جوائن کیا۔

ادھر میڈیا والے پوچھنے لگے کہ آپ کیمپ کب لگائیں گی تو میں نے کہا کہ ہماری قوم کے عمائدین جس جگہ جلسہ یا دھرنا دیں گے ، میں وہاں جاوں گی. میڈیا والوں نے کہا کہ وہ سب امام بارگاہ میں میٹنگ میں مصروف ہیں ۔ اسی طرح رات کے 12 بج گئے اور وہاں سے کوئی خاص خبر سننے کو نہیں ملی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنا کیمپ یہاں پریس کلب کے سامنے لگائیں گے۔ اس وقت تک ہم پورا دن پریس کلب کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہے اور ہمارا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آرمی چیف کوئٹہ آئیں ۔ پھر اسی دوران خبر آئی کہ بائی پاس روڑ پر بھی خواتین اور بچوں نے دھرنا دیا ہے۔

اگلے دن ہم نے اپنا کیمپ لگایا اور بھوک ہڑتال باقاعدہ شروع کر دی ۔ تب بھی میں اپنی قوم کے عمائدین کا انتظار کرتی رہی مگر خبر سنی کہ انہوں نے اس دن علم دار روڑ پر شام کو جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔ خیر شام ہوگئی مگر کوئی خاص نتیجہ خیز اطلاع سننے کو نہیں ملی مگر ہم ڈٹے رہے۔

اگلے دن شہداء کی مائوں نے ہماری حمایت اعلان کیا اور کیمپ میں آکر بیٹھ گئیں ، جس میں بلال شہید کی ماں سر فہرست تھی ، جس کا بیٹا جنوری 2013 کے دھماکے میں شہید ہوا تھا۔ کیمپ میں دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی مسلسل شرکت کررہے تھے. پی ٹی ایم اور پی وائی اے کے ساتھیوں نے پورا انتظام سنبھالا، خاص کر سیکیورٹی اور اسٹیج کا۔

ادھر تیسرے دن سنا کہ آغا رضا جو کہ ایم ڈبلیو ایم کے رہنما اور ہمارے ایم پی اے ہیں اور آغا ناصر علی شاہ جو کہ بی این پی مینگل کے ساتھ ہیں، انہوں نے الگ الگ دھرنا دیا ہے۔ اس طرح کوئٹہ میں چار مقامات پر دھرنے تھے۔

ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ آرمی چیف کوئٹہ آئیں ۔ خیر سرفراز بگٹی کیمپ میں آئے مگر ہم نے ان کو ادب سے کہا کہ وہ بے اختیار ہیں . وہ واپس چلے گئے۔ ہم نے احسن اقبال کے آنے کا سُنا مگر وہ ہمارے کیمپ نہیں آئے بلکہ آغا رضا سے ملاقات کرنے اسمبلی کے باہر وی آئی پی کیمپ میں گئے۔

شہداء کی فیملی کے پاس جب دھرنے کے بعد میں فاتحہ کے لیے گئی تو ان کا موقف تھا کہ احسن اقبال سے ملنے کے لیے ان کو بہت ٹیلی فون کالز آئیں کہ ان سے ملنے پنجابی امام بار گاہ آجائیں مگر انہوں نے جانے سے اس لئے انکار کیا کہ کہیں وہ حکومتی لوگ فوٹو سیشن کروا کر یہ اعلان نہ کردیں کہ لواحقین کو تسلی ملی ہے اور باجی کا بھوک ہڑتال ختم نہ کر دیں (آپ اس کی تصدیق کرسکتے ہیں)

مجھے علم نہیں تھا کہ بھوک ہڑتال کے آخری دن چیف صاحب آئیں گے مگر ہماری قوم کی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو علم تھا ، اس لئے دن کے دو بجے انہوں نے امام بار گاہ میں میٹنگ کی اور یہ طے ہوا کہ جلیلہ کو بے خبر رکھ کر چیف صاحب سے ملنے نہیں دیں گے اور ہمارے نمائندے جائیں ان سے ملنے جائیں گے (اس بات کی تصدیق بھی وزیر داخلہ بلوچستان سے کی جا سکتی ہے)

جس شام چیف صاحب آئے ، مجھے ہماری کمشنر صاحبہ بتول اسدی نے کہا آپ کو ہم لینے آرہے ہے، آپ تیار ہوجاو تو میں نے کہا کہ میری طبعیت ناساز ہے اور چیف صاحب یہاں ہمارے لوگوں سے ملیں۔ میں نے جانے سے انکار کیا۔ خیر میڈیا پر یہ خبر چلی کہ ہزارہ عمائدین کے وفد سے ملاقت کے بعد لوگوں نے بھوک ہڑتال اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر میں نے ڈان اور بی بی سی کے نمائندوں سے کہا کہ ہم چیف سے ملے ہیں اورنہ ہی ہم نے ہڑتال ختم کی ہے۔

اس خبر کے ایک گھنٹے کے بعد ایک وفد ہمارے کیمپ میں آیا، جس میں‌ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، سرفراز بگٹی اور وزیر اعلی بلوچستان کے ساتھ ہزارہ قبیلے کے عمائدین بھی شامل تھے، انہوں نے مجھ سے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی ریکویسٹ کی میں‌نے اس موقع پر ڈائری میں لکھے اپنے نکات سے انہیں آگاہ کیا.

سب سے پہلے میں نے جینوا کنونشن کے آرٹیکل 2 کا حوالہ دیا کہ کس طرح ہماری نسل کشی اس کے کے تحت آتی ہے اور پاکستان نے اس معائدے پر دستخظ کر رکھے ہیں۔ پھر جو باتیں میں نے چیف صاحب کے سامنے رکھیں، وہی باتیں احسن اقبال کے سامنے بھی رکھیں۔ میں چونکہ ایک ڈیموکریٹ ہوں اس لیے احسن اقبال کی بات کا مان رکھ کر دو گھونٹ جوس پی لیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو آرمی چیف سے ملانے کے لئے آیا ہوں تو میں نے کہا کہ میں اکیلی نہیں جاوں گی ، میرے ساتھ 20 خواتین بھی جائیں گی۔

میں نے کیمپ میں موجود میری بلوچ اور پشتون بہنوں سے کہا کہ وہ بھی میرے ساتھ جائیں تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ فی الحال ہزارہ کے ایشو پر فوکس رکھیں ورنہ ہماری موجودگی میں یہ بات نہیں سنیں گے۔میں نے کیمپ میں کہا کہ سب میرے ساتھ چلیں تو 20 خواتین کھڑی ہوگئیں . میں نے کہا کہ ہزارہ ٹاون کی خواتین بھی ہوں تو غالبآ سرفراز بگٹی نے کہا کہ وہ پہلے مل چکی ہیں۔(اس کی بھی تصدیق ہوسکتی ہے)

خیر ہم چلے گئے تو آرمی چیف خالد بیس پر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں پہنچ کر مجھے معلوم پڑا کہ جن خواتین کو چیف صاحب سے ملوایا گیا ، ان میں سے ایک کو فرضی جلیلہ حیدر بنا کر پیش کیا گیا تھا اور ان بے چاری خواتین کو الگ کمرے میں بٹھایا گیا اور مردوں نے آرمی چیف سے بات کی تھی جو کہ اللہ جانتا ہے کہ کیا بات ہوئی تھی۔

خیر میں نے چیف صاحب سے کہا کہ ہم آپ کا پانی پینے نہیں آئے ، بلکہ ہم یہاں شکائتیں لے کر آئے ہیں کہ ہم کن مشکلات سے دوچار ہیں ۔ میں نے کہا کہ ہمارے 3000 لوگ مارے جا چکے ہیں، ان کے لواحقین کو ریاست نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ وہ کن حالات میں جی رہے ہیں ۔ کیا ریاست کی یہی ذمہ داری ہے کہ گولی لگی، خبر چلی، تدفین ہوئی اور 10 لاکھ کا اعلان ہوگیا؟ ہم مسلسل معاشی، سماجی اور کلچرل قتل عام کا شکار ہیں، ہمارے بچے رجعت پسند ہورہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہماری مائیں پاگل ہو چکی ہیں اور ہمارے نوجوان مایوس ہیں . ہماری دوبارہ بحالی و اور بہبود کے لئے ریاست نے کیا کیا؟

اس پر عاصم باجوہ نے کہا کہ میں آپ کو بلینک چیک دیتا ہوں آپ اپنے خواتین کے لئے کام کریں تو میں نے کہا کہ آپ محض فرد کو ایمپاور نہ کریں بلکہ خود اپنا ذمہ لیں اور تا حیات ریاست ان کی ذمہ داری اٹھائے۔ میں نے کہا کہ چیک پوسٹوں کے آس پاس ہمارے لوگ مارے جارہے ہیں اور کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ اس میں ایف سی کے اہل کار ملوث ہیں تو آرمی چیف نے کہا کہ ہم نے 40 سال میں جو بویا ، وہ کاٹ رہے ہیں ۔ آج ایک نسل رجعتی ماحول میں پل کر جوان ہو چکی ہے ، ہم اداروں میں بھی اس کی موجودگی کو رد نہیں کرسکتے اس لیے ہم اس کا از سر نو جائزہ لیں گے۔ میں نے کہا کہ ایف سی کا رویہ برادر قبائل کے ساتھ نہایت خراب ہے، جس سے لوگوں کو یہ تاثر ملتا ہے کہ ہزارہ قبیلہ کی وجہ سے ان کو بلاوجہ تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں ہم دوسرے قبائل سے کٹ کر رہ گئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ پولیس کو با اختیار بنایا جائے تاکہ ہم ان مشکلات سے نکل سکیں اور نیکٹا کو فعال کیا جائے تو انہوں نے کہا کہ ان باتوں کی نشاندہی پہلےنہیں ہوئی ، ہم ان سب معاملات کو نہ صرف دیکھیں گے بلکہ اس کا ازالہ بھی کریں گے۔

میں نے کہا کہ جس طرح سے ہمارا معاشی قتل عام کیا گیا اور ہمارے 90 ہزار لوگ کوئٹہ چھوڑ کر چلے گئے . اس کے نتیجے میں ہمارے اکثر مرد غیر قانونی راستوں سے سفر کرتے ہوئے سمندر میں ڈوب گئے . میں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے بچوں کے ساتھ نادرا اور پاسپورٹ آفس میں نرمی بھرتی جائے اور انسانی سمگلنگ میں ملوث چاہے ہزارہ ہو یا غیر ہزارہ ان سب پر کریک ڈاون کیا جائے کہ کہیں دہشت گردی کے آڑ میں یہ قوتیں تو فائدہ نہیں اٹھا رہیں ۔ محض شعیہ ہونے کے ناتے سمجھ نہیں آتا کہ داعش کو کیا فائدہ پہنچتا ہے کہ وہ میرے قندھاری، سعید، بلتی، بنگش اور ہزارہ بھائیوں کو قتل کرے۔ اس بات کو بھی انہوں نے کہا کہ ہم کھل کر کہتے ہے کہ کریک ڈاون کریں گے۔

میں نے کہا کہ ہمارے 3 ہزار لوگ مارے گئے اور ایف آئی آر نامعلوم کے خلاف کٹتی ہیں ، آئندہ ہماری جو بھی لاش خدا نہ خواستہ گرے گی ، ہم وزیر داخلہ کے نام پر پرچہ کٹوائیں گے، جس پر سرفراز بگٹی نے کہا کہ میں نے کیا کیا ہے؟

اسی طرح میں نے کہا کہ ہم میں اتنا غرور کیوں ہے کہ جو لوگ وردی میں ہیں وہی اصل پاکستانی ہیں اور جووردی میں نہیں یا فوج پر تنقید کرتے ہیں ، وہ غدار ہیں ۔ میں نے گلہ کیا کہ کیمپ میں میرے پی ٹی ایم کی ٹوپیاں پہننے والے ساتھیوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ غیر ملکی ہیں، کیا یہ سوچ ملک کو تقسیم نہیں کررہی تو چیف صاحب نے کہا کہ میں پبلک آفیسر ہو اور میں مانتا ہوں کہ یہ باتیں غلط ہیں ، جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں۔

میں نے کہا کہ چیف صاحب! ہمارے قتل عام کا فائدہ ہمارے اندر بیٹھے کچھ لوگ بھی اٹھا رہے ہیں . ان کی این جی اوز بند کریں اور ہمارے لوگوں کو سرکار قبول کرے۔ یہ این جی اوز والے لوگوں کو امداد دے کر اپنا بیانیہ آگے لے جارہے ہیں .اگر آج خودکش بمبار ہیں ، تو کل ایک ایسی نسل ابھرے گی جو ایٹم بم ثابت ہوگی ، تب اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔

میں نے کہا کہ تصادم کی وجہ سے ہم نے محلے کے اندر اور باہر اپنی جائیدادیں کوڑیوں کےبھائو بیچیں. ان سارے پراپرٹی ڈیلرز اور لینڈ مافیاز پر بھی کریک ڈاون ہونا چاہیے ، ہوسکتا کے کہ ان کا دہشت گردوں سے تعلق ہو اور وہ سستی زمینیں ہتھیانے کے لیے ایسا کر رہے ہوں . اس پر آرمی چیف نے کہا کہ یہ بہت اہم نکتہ ہے اور ہم اس پر فی الفور کارروائی کریں گے۔

میں نے کہا کہ بلوچستان میں گم شدہ افراد کا معاملہ ایک المیہ بن چکا ہے۔ میں نہیں کہتی کہ آپ ان کو چھوڑ دیں ، میرا مطالبہ یہ ہے کہ آپ ان کو عدالتوں میں پیش کریں تاکہ ریاست کی رٹ قائم ہو۔ میں نے کہا آج لوگ کہہ رہے تھے بلوچ کی بیٹی، پشتون کی بیٹی تو آپ لوگ عام معافی کا اعلان کیوں نہیں کرتے تو چیف صاحب نے کہا کہ میرا بیٹا بھی بیرسٹر ہے اور وہ بھی یہی کہتا ہے۔ گم شدہ افراد واقعی ایک سیریس مسئلہ ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ جو بے گناہ ہیں ان کو فی الفور رہا کریں اور اگر کوئی ملوث ہے تو عدالتوں میں پیش کریں۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔

ہم نے آرمی چیف سے کہا کہ ہم آپ سے تحفظ مانگنے نہیں آئے کیونکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظ دے، ہم امداد مانگنے بھی نہیں آئے۔ ہم شکائتیں لے کر آئے ہے اور آپ ان سب اداروں کی جو آپ کے ماتحت ہیں ، کارکردگی کا از سر نو جائزہ لیں۔

میں نے یہ بھی کہا کہ بیرونی اور اندرونی سیکیورٹی کی ذمہ دار فوج ہے . اس لئے آپ کو ہم نے بلایا کہ یہ ذمہ داری بھی آپ کی ہے۔ ہم ڈیموکریٹ لوگ ہیں اور آپ کو بلانے کا مقصد اپنے نمائندوں کی تضحیک یا تذلیل نہیں ہے۔ اس پر چیف صاحب نے کہا کہ میں خود ڈیموکریٹ ہوں ۔ میں نے کہا کہ آپ کے خلاف احمدی ہونے کا جب پروپگنڈا تھا تو ترقی پسندوں نے سب سے زیادہ ملائیت کے خلاف آواز اٹھائی مگر پھر بھی جب ہم اپنے بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہم پر غدار کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی ایک ترقی پسند ملک کا خواب دیکھ رہے ہیں اور ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں وہ اب نہیں ہوں گی۔

باقی جو دوست کہتے ہیں کہ چیف صاحب کیمپ میں کیوں نہیں آئے، میرا دل بھی اس بات پرفکر مند ہے مگر کچھ لوگ مجھ سے پہلے مل کر ان سے غلط بیانی کر کے فرضی جلیلہ حیدرپیش کر چکے تھے۔

اگر ہمارے لوگ وہاں نہ جاتے تو چیف صاحب یہاں آ چکے ہوتے ۔ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ مجھے گالیاں میرے اپنوں نے دیں ، پر وہ دیر سے سمجھیں گے مگر امید ہے کہ سمجھ جائیں گے۔ مجھے ان سے بھی محبت ہے جو ہر رات میرے گھر کے باہر فائرنگ کرتے ہیں اور ان سے بھی جو مجھے گالیاں دیتے ہیں ۔

استاد محترم نے کہا کہ تم نے اس شخص کا کردار ادا کیا جو درخت کو زور سے ہلاتا ہے اور سارے پھل، پھول اور پتے جڑ جاتے ہے۔ امن اور برابری ایک دن کا ایجنڈا نہیں ۔ یہ جہدِ مسلسل ہے اور ہم سب کو اس کا حصہ بننا ہے۔ کیونکہ یہ انقلاب ہے، اس میں کم ظرف اور مفاد پرست حصہ نہیں لے سکتے.

میرے اپنے لوگوں کے نام:

تاک میں دشمن بھی تھے، پشت پر احباب بھی
تیر پہلے کس نے مارا یہ کہانی پھر سہی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے